کالمز

’’اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر‘‘

پچھلے سال کی بات ہے۔کراچی کی گرمی زروں پر تھی۔ دُھوپ نے اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ شہر قائد کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ میں اپنی فیملی  اور بچوں کے ساتھ طارق روڈ کی ایک مارکیٹ میں شاپنگ کی غرض سے داخل ہوا تھا۔ ابھی ہم سیڑھیاں چڑھ رہے تھے کہ  پیچھے دُور سے ایک جانی پہچانی آواز  میرے کانوں سے ٹکرائی تھی۔ ’’سرکریمی! رُکیئے۔‘‘  میرے قدم رک سے گئے  تھے۔ میری مسز نے بھی تصدیق کی کہ کوئی پیچھے سے بلا رہا ہے۔ ہم نے پیچھے دیکھا اور دیکھتے ہی رہ گئے ایک خوبصورت کپل کافی دُور سے ہونٹوں پہ ہنسی سجائے ہماری طرف بڑھ رہا تھا۔ دُور سے پہچاننا کافی مشکل ہو رہا تھا ۔ میں حیران تھا کہ آخر یہاں ہماری جان پہچان کا کون ہوسکتا ہے؟ خوبصورت جوڑا ابھی ہم سے ہمکلام تھا۔ جی ہاں بشارت شفیع اپنی مسز  کے ساتھ ہمارے سامنے تھا۔

بشارت شفیع کو میں تب سے جانتا ہوں جب وہ بحیثیت شاعر کئی سال پہلے حلقہ اربابِ ذوق گلگت کے مشاعروں میں باقاعدہ شرکت کیا کرتے تھے۔ اور مجھ سے اپنے کلام کی تصحیح بھی کرواتے تھے۔ اس کے بعد ایک عرصہ ہوا تھا اس خوبصورت نوجوان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔  بعد  میں کہیں سے پتہ چلا تھا کہ وہ اپنی تعلیم کے سلسلے میں ملک سے باہر  گئے ہوئےتھے۔

طارق روڈ کی اس مارکیٹ میں بیٹھے نہ جانے کتنا وقت بیت گیا تھا بشارت شفیع مسلسل بول رہے تھے۔ ’’سر! اتنے عرصے کہاں غائب تھے؟ سر! آپ نے شادی کی اور ہمیں بلایا بھی نہیں؟ سر! ماشااللہ! آپ کے بچے بہت پیارے ہیں   ؟‘‘ وہ کبھی آشا اور کبھی اذین کو گود میں لیتے اور ان کو پیار کرتے۔ گویا سوالات کا انبھار تھا مگر وقت کی کمی تھی۔ اور دلچسپ بات یہ کہ میں بھی یہی سوالات ان سے پوچھنا چاہتا تھا کہ آخر آپ کہاں کھو گئے تھے۔ کبھی کبھی زندگی بھی کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے اس کا اندازہ ہی نہیں ہوتا ۔ آج ہمیں اس کا تھوڑا اندازہ ہوا تھا۔ وقت کو جیسے پر لگ گئے تھے بڑی تیزی سے گزر رہا تھا۔ بشارت شفیع نے میرا سیل نمبر لیا اپنا سیل نمبر مجھے دیا۔ رخصت ہوتے ہوئے انہوں نے  مجھے بہت جلد اپنے گھر دعوت  دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں نے وعدہ کیا کہ ہم ضرور آپ کے پاس آئیں گے۔ لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو ایفا ہوسکے۔ ہم ایک دفعہ پھر وقت کی دُھول میں کھو گئے تھے۔ میری  دُختر نیک اختر آشا کا آغا خان ہسپتال میں علاج چل رہا تھا۔  بہت مصروف دن گزر رہے تھے اس دوران کئی بار بشارت شفیع کی کال آئی ۔ مجھے میرا وعدہ یاد دلایا گیا لیکن میں ٹائم منیج نہیں کر پایا اور ان کی دعوت پہ نہیں جا سکا جس کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا۔

بشارت شفیع بہت حسین اور خوبرو نوجوان تھے۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے جو اوپر سے خوبصورت لگتے ہیں وہ اندر سے اتنے خوبصورت نہیں ہوتے یعنی خوبصورتی کے ساتھ خوب سیرتی بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ بشارت شفیع جتنے خوبصورت تھے اس سے کئی گنا زیادہ خوب سیرت اور با اخلاق بھی تھے۔ بشارت شفیع مرحوم، اس خوبرو نوجوان کو مرحوم لکھتے ہوئے نہ جانے کیوں میرے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں ۔ زندگی اور موت بھی عجیب شے ہیں کہ پل بھر میں کیسے کیسے حسیں چہرے آسودۂ خاک ہوتے ہیں۔    شاید اس لیے ربِ کائنات کو کہنا پڑا: ’’ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔‘‘ ابھی جب کہ ایک عرصے کے بعد میں سوشل میڈیا پر آن ائیر ہوا تھا  (میں  آج کل سوشل میڈیا بہت کم استعمال کرتا ہوں اس کی وجہ ایک نہیں بلکہ کئی ایک ہیں۔ ) توگویا زمین میرے قدموں کے نیچے سے پھسل گئی تھی۔ مجھے اپنی بینائی پر یقین نہیں آرہا تھا۔ سوشل میڈیا پہ یہ افسوس ناک خبر وائرل ہوئی تھی کہ ’’بشارت شفیع اِز نو مور وِتھ اَس۔‘‘ ارے یہ کیسے ہوسکتا ہے؟؟؟ میں نے کئی بار اپنے آپ سے پوچھا تھا۔ لیکن ہونے کو کون ٹال سکتا ہے؟ جانے والے تو جاچکے ہوتے ہیں ۔ انہیں چراغِ رخ زیبا لے کر بھی نہیں ڈھونڈا جاسکتا۔ ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے اپنی کتاب ’’بانگِ درا‘‘ میں اپنی شہرۂ آفاق نظم ’’شکوہ‘‘ میں بڑے خوبصورت اشعار کہے ہیں۔ فرماتے ہیں  ؎

تیری محفل بھی گئی، چاہنے والے بھی گئے

شب کے آہیں بھی گئیں، صبح کے نالے بھی گئے

دل تجھے دے بھی گئے، اپنا صلا لے بھی گئے

آکے بیٹھے بھی نہ تھےاور نکالے بھی گئے

آئے عشاق، گئے وعدۂ فردا لے کر

اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر

 ہمارے عزیز بشارت شفیع سندھ میں ایک کار حادثے میں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔ وہ پروفیشنلی آغا خان ہسپتال کراچی سے بحیثیت ریسرچ اسپیشلسٹ منسلک تھے اور سندھ اور اندرون سندھ اپنی خدمات سرانجام دیتے تھے۔ مرحوم کا تعلق گلگت  بلتستان کی خوبصورت وادی یاسین سے تھا۔ وہ اردو اور بروشسکی کے اچھے شاعر تھے۔ اپنے اردو کلام کے بارے میں انہوں نے کئی بار مجھ سے کہا تھا کہ ’’سر! جب میری اردو شاعری کی کتاب تیار ہوگی، میں آپ سے دیباچہ لکھوانا چاہوں گا۔‘‘ بہت ہی خداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اللہ پاک اس خوبرو نوجوان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عنایت فرمائے اور ان کی فیملی کو اس ناقابلِ تلافی نقصان کو برداشت کرنے کی توفیق دے۔ آمین!

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button