کالمز

قراقرم یونیورسٹی کا دیامر کیمپس

ایک زمانہ تھا ہمارے اساتذہ ہمیں لڑنا سکھاتے تھے ۔ہمارے سکول میں باقاعدہ لڑائی کی مشقیں ہوتی تھی ۔وہ یوں کہ دو نوجوان گول دا ئرہ یعنی رنگ کے اندر اتر جاتے تھے ۔باقی طلبہ باہر سے داد رسی کا کام انجام دیتے یو ہمارا سملو(کشتی) شروع ہوتا تھا ۔پندرہ سے بیس منٹ تک داو لگاتے سخت ترین مقابلہ کے بعد ایک دوسرے کو پٹخ دیتے ۔ایک مار دیتا ایک مار کھاتا تھا جو جیت جاتا وہ واہ واہ اور تالیوں کے داد میں فاتحانہ انداز میں باہر آتا اور جو ہار جاتا بچارے کو لعن طعن کے ساتھ خوب سننا پڑتا جس کی وجہ سے ہارنے والا انتقام کے آگ میں جل کر راکھ ہو کر چھٹی سے پہلے سکول سے بھاگ کر چلا جاتا اور کسی تنگ گھاٹھی میں گھات لگا کر مخالف کے سر پر بھاری بھرکم پتھر سے حملہ کردیتا تھا اور یوں آٹھ دس ٹانکے معمولی بات تھی ۔اس کے بعد ایک نہ ختم ہونے والی لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوتا تھا۔

اس زمانے میں دھول سے اٹکی ہوئی کالی وردی ہوتی تھی جس کی اگلی جیب تو شروع دن سے کسی لڑائی میں پھٹ جا تی تھی، اور جسے مخالف گروپ مال غنیمت کے طور پر لے جاتے تھے ۔کبھی کبھار تو ایک آستین بھی چلا جاتا تھا اور کرتے کا ایک سائیڈ بازو کے اوپر تک شہید ہوجاتا تھا۔ اللہ معاف کرے، کچھ طلبہ کر تے کے نام پر ایک بازو والا شرٹ کاندھے پر لٹکا کر گھر آجاتے تھے۔

صبح آٹھ بجے سکول میں حا ضری ہوتی تھی۔ دس بجے چھٹی اور ہم لو گ چار بجے گھر جاتے تھے یعنی دو گھنٹہ سکول میں ایک دوسروں کو آنکھیں دکھاتے اور چھ گھنٹے لڑائی میں گزار دیتے تھے۔ کیاخوب زمانہ تھا۔ فُل اوارہ گردی۔ کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ راہ گیر اور بڑے بزرگ بھی ایسے ہی تھے دیکھتے ہی خوب جم کر لڑنے کی نصیحت کرکے چلے جاتے تھے۔

خیر یہ ایک چھوٹا سا گاؤ کا ماحول تھا۔ بغیر چھت کی عمارت پرائمری سکول کے نام پر سیلابی نالہ کے اوپر آثار قدیمہ کی ایک نایاب ڈرائینگ کی شکل میں آج بھی موجود ہے۔

مگر اب بات ہمارے انٹر نیشنل یونیورسٹی کی ہے۔ میں اپنے ماضی کے اس پرائمری سکول اور اس سکول کے طلبا کی حالت اور اس دور جدید کی قراقرم انٹر نیشنل یو نیورسٹی اور اس یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلبا وطالبات کی حالت پر ایک طایرانہ نظر ڈالتا ہوں تو سوائے ایک بلند و بالا بلڈنگ کے علاوہ کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوتا ہے۔

وہی کشتی ہے وہی سر پھوڑ مشق ہے، لڑائی جھگڑا ہے، پارٹی بازیاں ہے، قوم پرستیاں، علاقایئت، عصبیت، مذہبی جنونیت اور نفرتیں ہیں۔ بس کل اور آج میں فرق صرف اتنا ہے کہ ہم نا سمجھ تھے، بچے تھے کوئی سمجھانے والا نہیں تھا، لیکن یہاں پڑھے لکھے گریجویٹ سمجھدار نوجوان جو اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ قوموں اور قبیلوں کو لڑانے کا سبب بنتے ہیں جن کو مذہب قومیت عصبیت کی محض تعریف کا بھی علم نہیں ہوتا دونوں جانب سے وہی لوگ ایک دوسروں کے خلاف فتوے صادر فرماتے ہیں جو سال میں ایک سجدہ بھی نہیں کرتا وہ ڈنڈا لیکر سب سے آگے ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ انٹر نیشنل یو نیورسٹی سال کے بیشتر اوقات بند رہتی ہے۔

میرے نزدیک یہ یونیورسٹی علم کی فراوانی سے زیادہ نفرتوں کو پھیلانے کا موجب بن رہی ہے۔ چونکہ گزشتہ آٹھ دس سالوں سے ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس ادارہ نے کوئی کرشماتی تبدیلی معاشرے کے اندر نہیں برپا کی ہے، بلکہ ایک تعلیمی درسگاہ کی بجائے مذہبی اکھاڑے کے طو ر پر ہمارے سامنے ہیں۔ سال میں کم از کم ایک دفعہ اس ادارے سے پورے خطے کا ماحول متا ثر ہوتا ہے۔ اب اس ادارے کو بند تو کیا نہیں جا سکتا ہے کم از کم طلبہ کی تعداد کم کر کے ما حول کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ تمام اضلاع میں ایک ایک کیمپس کھول کر علم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جاسکتاہے خاص کر دیامر میں حد درجے کی تعلیمی پسماندگی ہے اور دیامر ایک گنجان آباد علاقہ ہے داریل تانگیر سے لیکر گوہر آباد تک لاکھوں کی آبادی ہے یہاں کے ہزاروں طلبہ یونیورسٹی نہ ہونے کی وجہ سے ملک کے طول و عرض میں حصول علم کیلے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں پچاس فیصد طلبہ تو ایسے ہیں جو اپنے ڈسٹرکٹ سے باہر جانے کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے اور مجبورً اعلی تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں خاص کر داریل تانگیر جو دیامر میں سب سے بڑے علاقے ہیں اور پیدائشی طور پر یہاں کے لوگ زہنی طور پر انتہائی قابل ٹایلنٹڈ ہیں لیکن بدقسمتی سے اب تک یہاں پر کالجز کے کلاسز کا باقاعدہ اجرا تک نہیں ہوا۔

ایک اعداد و شمار کے مطابق داریل و تانگیر سے میٹرک کے بعد محض دس فیصد طلبہ کالجز میں داخلہ لیتے ہیں اور نوے فیصد طلبہ وسائل کے کمی کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں یقیناًبہترین معاشرے کی تشکیل علم سے ہی ممکن ہے لہذا صوبہ بھر کے عوام کو یکساں تعلیمی مواقع ملنے چا ہیے اور معاشرے کو بہتر بنانے کیلے علم سب کی ضرورت کا عملی مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے اس وقت دیامر میں اس ایک معمولی کیمپس کی تعمیر میں تاخیر کی وجہ سے مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔

ایک کیمپس کی تعمیر سے کوئی کرشمہ تو نہیں ہوگا مگر ایک حد تک عوام کے اندر جو گٹھن ہے اس میں کمی ضرور واقع ہوگی۔ میں پر امید ہوں کہ صوبائی حکومت کم از کم اس ایک کیمپس کا کریڈیٹ ضرور لے گی ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button