کالمز

سیاست کا ڈینگی وائرس 

ایک مچھر بخار کا ڈینگی وائرس پھیلاتا ہے جو وبائی صورت اختیار کرتا ہے دوسرا مچھر سیاست کا ڈینگی وائر س پھیلاتا ہے جو پہلے سے زیادہ وبائی شکل پکڑ لیتا ہے دونوں اقسام کے ڈینگی خطر ناک ہیں پہلا ڈینگی جان لے لیتا ہے دوسرا ڈینگی ایمان لے لیتا ہے آج کل پشاور ،چارسدہ ،نو شہرہ اور مر دان کے اضلاع بخار والے ڈینگی سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ لاہور سے کراچی ،کوئیٹہ اور مکران کے ساحل سے چترال کی پہاڑی وادیوں تک پورا ملک سیاست کے ڈینگی سے متاثر ہے جوں جوں 2018 کے انتخابات قریب آرہے ہیں سیاست کا ڈینگی انتاہی طاقتور ہوتا جارہا ہے اور خیر سے 2018 کے انتخابات بھی جون کے مہینے میں ہونے جار ہے ہیں اخباری اطلاعات کے مطابق پشاور نوشہرہ ،مردان اور چارسدہ میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد 3 ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ سیاست کے ڈینگی نے 20 کروڑ 77 لاکھ کی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے پاکستان میں اصولی طور پر تین سیاسی جماعتوں کی گنجائش ہے جبکہ الیکشن کمیشن کے پاس 426 سیاسی جماعتیں اب تک رجسٹرڈ ہوچکی ہیں مزید سیاسی جماعتیں منظر عام پر آنے والی ہیں تازہ ترین اضافہ ملی مسلم لیگ یا میم لیگ ہے یہ پارٹی آبپارہ اسلام اباد میں بنی اور پورے ملک میں اس کے دفاتر قائم ہوئے 70 سال پہلے پاکستان وجود میں آیاتو یہاں دو سیکولر جماعتیں تھیں مسلم لیگ اور کانگریس پھر ری پبلکن پارٹی بنی یہ بھی سیکولر پارٹی تھی پھر کمیونسٹ پارٹی وجو د میں آئی یہ بھی سیکولر تھی اس کے بعد دو مزید پارٹیوں کی گنجائش پیدا کی گئی اسلامی نظریے کی بنیاد پر مذہبی جماعت اور قوم پرستی کی بنیاد پر قوم پرست جماعت سیکولر جماعتوں کو ایک پلیت فارم پر لاکر ایک جماعت میں ضم کرنے کی ضرورت تھی مگر یہاں اُلٹی گنگا بہنے لگی ایک مسلم لیگ کے 26 ٹکڑے کئے گئے 39 مذہبی جماعتیں بن گئیں 210 سیکولر جماعتیں میدان میں آگئیں 177 قوم پرست جماعتیں بن گئیں سوال پیدا ہوتا ہے اگر مذہب نظریے کا نام ہے تو اس نظریے کو39 ٹکڑوں میں کیوں تقسیم کیا گیا ہے ؟شاید مذہب کیلئے خلوص رکھنے والا ہر لیڈر امیر بننا چاہتا ہے ایک پارٹی میں 39 امیروں کی گنجائش نہیں ہوتی گنجائش نکالنے کیلئے نئی جماعت بنانے کی ضرورت پڑتی ہے فروری 1983 ء میں پشاور کے جی ٹی روڈ پر حاجی کیمپ اڈہ کے قریب افغان مہاجرین کے کمشنریٹ میں ایک میٹنگ تھی میٹنگ کا ایجنڈا یہ تھا کہ افغان مہاجرین ایک ہی پارٹی کے بینر تلے کام کریں عبداللہ صاحب نے اپنا مدعا بیان کیا تو مولوی یونس خالص نے اپنی حکمت عملی بیان کی مولوی یونس خالص نے کہا ہمیں جہاد کیلئے ہجرت کرنے کی ضرورت پیش آئی ،جہاد میں اسلحہ کا م آتا ہے مجاہدین کیلئے راشن اورگاڑیاں بھی در کار ہیں سعودی عرب ،امریکہ ،برطانیہ ،فرانس اور جرمنی کے امداد دینے والے ادارے کہتے ہیں ایک پارٹی کو اسلحہ ،پیسہ اور امداد دینے کی خاص حد مقرر ہے ہم اس حد سے آگے نہیں بڑھ سکتے تم الگ جماعت بناؤ انتاہی اسلحہ اور اتنی ہی مدد تمہیں دی جائیگی اس لئے مجبوراًہمیں جماعت بنانی پڑتی ہے ہجرت اور جہاد کے ابتدائی 5 سالوں میں پشاور کے اندر افغان مہاجرین کی 47 جماعتیں بن چکی تھیں 1987 ء میں یہ تعداد 78 تک پہنچ گئی 1991 ء میں امریکہ کی جیت اور سویت یونین کی شکست کے وقت افغان مہاجرین 118 سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہو چکے تھے مولوی یونس خالص کا فارمولا صرف افغان مہاجرین کیلئے نہیں تھا یہ فارمولا پاکستان کی سیاسی جماعتون پر بھی حرف بحرف صادق آتا ہے بد قسمتی اور بدبختی کا ایک ہی فارمولا ہوتا ہے چین اور روس میں ایک پارٹی ہے دوسری جماعت کی اجازت نہیں اسرائیل ،امریکہ ،برطانیہ ،فرانس اور جرمنی میں دو دو جماعتیں ہیں پاکستان میں 426 کیوں ؟ مولانا حالی نے کہا تھا ؂

رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے جاکر تھمے

نہ ہاتھ باگ پر نہ پا ہے رکاب میں

پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر شاعر کا وہ مصرعہ بھی فٹ آتا ہے جس میں عکس اور تصویر کے ساتھ خیال اور سوچ کو الگ دکھایا گیا ہے ’’میں خیال ہو ں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے ‘‘سیاست کا ڈینگی وائرس ہم پر حملہ آور ہوا ہے یہ خطر ناک وبائی مر ض کا باعث بنتا ہے ماہرین کہتے ہیں کہ بخار کا ڈینگی وائر س ،گندے پانی کے جو ہڑوں میں انڈے دیتا ہے اور افزائش نسل کرتا ہے سیاست کا ڈینگی وائرس لالچ ،حرص،حسد اور نفرت کے دلدل میں انڈے دیکر اپنی نسل بڑھا تا ہے پاکستانی سیاست میں دوبڑی جماعتیں ہیں اور دنوں سیکولر ہیں پیپلز پارٹی کے چار ٹکڑے ہیں تاہم پارلیمنٹرین ہی اصل پی پی پی ہے مقابلے میں مسلم لیگ کبھی قاف بن کر آتی ہے کبھی نون اور کبھی میم بن آتی ہے باقی جماعتوں کی مثال ایسی ہے جیسے قوالی میں تالی بجانے والے ہوتے ہیں اگر سیاست کے ڈینگی پر قابو پایا گیا تو تو پاکستان میں تین جماعتی نظام ہوگا ،سیکولر ،قوم پرست اور مذہبی جماعت چوتھی جماعت کیلئے جگہ نہیں بنے گی ؂

نہ تیر اخدا کوئی اور ہے نہ میرا خدا کوئی اور ہے

یہ جو راستے ہیں جدا جدا ،یہ معاملہ کوئی اور ہے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button