شعر و ادبکالمز

فریدہ سلطانہ ۔۔۔۔۔ایک سچی شاعرہ

تحریر ارشاد اللہ شادؔ
بکرآباد چترال

فریدہ سلطانہ فریؔ کھوار شاعری کا فخر ہے۔ فریؔ کھوار شاعری میں ایک تتلی کی طرح رونما ہوئیں اور قوس قزح کے رنگ بکھیر کر فضا کو معطر کیا۔ پھول سے بچھڑی خوشبو جب اپنی آنکھیں بند کر لیتی ہے تو پھر اس سے ایسے ہی سخن کی خوشبو فضا کو معطر کر دیتی ہے، جیسے ہماری محترمہ فریدہ سلطانہ فریؔ نے اپنی پہلی مجموعہ کلام’’ژانو دُشمن‘‘ اور اپنی شاعری کی خوشبو سے دنیائے ادب کو معطر کر دیا۔فریؔ صاحبہ ایک ہونہار طالبہ تھی دوران تعلیم بھی وہ مختلف ادبی مباحثوں میں حصہ لیتیں رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ شاعری کا شوق فریؔ کو بچپن ہی سے تھا۔ فری ؔ کی پوری شاعری مجموعہ( ژانو دُشمن) ان کے اپنے جذبات و احساسات کا اظہارہے جو درد کائنات بن جاتا ہے ، اسی لئے انہیں دور جدید کی شاہرات میں نمایاں مقام حاصل ہے، اس کا احساس ان کی نظموں اور غزلوں دونوں سے ہوتا ہے، مثال کے طورپر ایک شعر ملاحظہ فرمائیں۔

کاکی عشقو سوم نابلت،ہسے انسان نو بوئے البت

سرخرو کوئی تہ ہر ژغا ، ژان کی ہوئی تہ صداقت

تو دی قرار یہ ہردیو، تو مہ سکون تو مہ راحت

اسپہ موژہ پردہ بانی، اوا دنیا تو قیامت

ہسے کی ہوئی کافی وا نا، فریؔ کیا کوس شان و شوکت

ان میں الفاظ کا چناؤ بہت عمدہ ہے اسی طرح خیالات میں بھی وسعت ہے۔ فریؔ نے حسن کو زبان دی، اس نے ہر جگہ حسن کو درج کیا ، اس حسن کو صفحہ قرطاس پر بکھیرا، جو قاری کی روح کو بھی سیراب کرتے ہیں۔ درد اپنے احساسات کی ترجمانی نہایت سہل، ہلکی پھلکی اور عام فہم زبان میں کرتے ہیں ۔ ان کے اشعار میں سلاست اور روانی ہے جو ان کے کلام کو نہایت پر اثر بناتا ہے ، اور قاری نہایت آسانی سے سمجھ جا تا ہے ۔ بقول فریؔ

کو مہ بے قرار کوسان، زندگیو ژار کوسان

گیتی ڈونڈے مہ ہردیو، ہانی کو دُرونگار کوسان

رقیب تا ہمدرد نو کیا، توسار کو باوار کوسان

مہ سورا ظلمان ما دنیا ، تو کو ہے اشمار کوسان

دنیا تو دی غریبو سوم ، مذاق کیچہ ہزار کوسان

مہ لو کارا تہ نو دونیان، ہروش کیچہ تو کار کوسان

گیتی یادی تان فریوؔ ، تو گل گلزار کوسان

میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ سچا اور کھرا قلمکار وہی لکھتا ہے جو اس کامن کہتا ہے ، اس کا تحریر اس کا پر تو ہوتی ہے ، وہ اپنی تحریر ہی سے پہچانا جاتا ہے ۔ اگر ایسی بات نہ ہو تو اس کی تحریر قاری کو متاثر نہیں کر سکتی ۔ انہوں نے زندگی کے ہر دکھ سکھ، حالات حاضرہ ، دکھی انسانیت ، انسانی نفسیات ، حالات نسواں ، محبت ، پیار، نفرت، دھوکہ ، فریب غرضیکہ زندگی کے ہر تما م عناصر پر نہایت خوبی سے قلمکاری کی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میری ذاتی لائبریری میں کم از کم 600کتب موجود ہیں مگر آج تک اس قدر خوبصورت کتاب نہیں دیکھی ۔ مئیر آرگنائزیشن چترال ، گندھارا ہندکو اکیڈمی پشاور نے کتاب کو قیمتی کاغذوں سے مزین ، عمدہ جلد بندی ، نہایت اعلیٰ کوالٹی کی پرنٹنگ ، اس پر فریؔ صاحبہ کی خوبصورت تصویر کے ساتھ اعلیٰ و ارفع شاعری سونے پر سہاگا ۔ کتاب ہاتھ میں لی تو جیسے سارے گلستان سے چنے ہوئے خوبصورت پھولوں کا گلدستہ ہاتھ میں آگیا ۔ میں مبارکباد دیتا ہوں محترمہ فریدہ سلطانہ فریؔ کو کہ ان کے اعلیٰ ذوق و پسند اور خوبصورت درد سے بھری شاعری پر۔

شاعر ہمیشہ دوسرے کے دکھوں کو اپنے اندر سمو کر محسوس کرتا ہے اور اپنے قلم سے اس کا اظہار کرتا ہے ۔ بلاشبہ یہ کام ہماری شاعرہ نے کیا جو قابل تحسین ہے۔ فریؔ کے شاعری سے جو مجموعی تاثر ملتا ہے کہ انہوں نے جھوٹی روایات کے بجائے مثبت قدروں سے رشتہ جو ڑا ہے ، ان کی شاعری ایسا آئینہ دار ہے جس میں ان کے احساسات و جذبات کی نزاکتیں،لطافتیں ، ان کے متخیلہ کا انداز ، ان کی فکر کی گہرائیوں اور وسعتوں میں یکجا ہوکر کلیتہََ نظر آتی ہے۔انہوں نے اپنی اس خوبصورت مجموعے کو جہاں کئی رنگوں سے سجایا ہے وہاں وہ خود کہتی ہے کہ انہوں نے اپنے قلم سے لفطوں، خیالوں ، دکھ اور سکھ سے سجے موتیوں ، یادوں کے ڈھیروں پر اٹھنے والی چنگاریوں کو شعلہ بنانے اور دل کی بنجر زمین پہ پھول اُگانے کی تمنا کی ہے اور پھر ان تمام تمناؤں کو سخن کا بیج کی طرح کاغذ کی زمین میں بو دیا۔اس خوبصورت مجموعہ کلام ’’ ژانو دُشمن‘‘ میں غزلیں ، نظمیں شامل ہیں جو الگ الگ حصوں میں تقسیم کی گئیں۔ قاری کی دلچسپی بر قرار رہتی ہے جب وہ مختلف اصناف میں پڑھتا رہے ۔ اس طرح یکسانیت کی بوریت نہیں رہتی ۔88صفحات کی ضخیم کتاب جس میں شاعرہ اپنی آنکھیں بند کرکے مگر دل کے ساتھ اپنے من کی باتیں اپنے دل کی باتیں کر تی چلی جاتی ہے ۔ وہ گلہ کرتی ہے کہ ۔۔۔۔۔

شکستہ آرزوان تو نو پاشیسان، غیچہ مہ اشروان تو نو پاشیسان

متے دی ڈوک نیزیکو کیہ تو دی ، وا تان ہے کاردوان تو نو پاشیسان

ای شور چموٹ اوسنینیان مہ ووشکی تان، فلکو می لووان تو نو پاشیسان

عشقو دریاہو موژو نیقڑب بتی ، اوغو بوغدووان تو نو پاشیسان

کیہ کیہ آرزو گنی حیاتو ژانگہ، شکستہ بیرووان تو نو پاشیسان

عشقو یہ دشتہ بو لوہتیرو فریؔ ، چھوچھو پھوردووان تونو پاشیسان

میں جوں جوں اس کتاب کے اوراق پلٹتاگیا اس کی کہکشان میں چمکتے ستارے میری آنکھوں کو خیرہ کرتے گئے ۔ میری انگلیاں بے تابی سے صفحوں پر رقصاں ہونے لگے اور الفاظ کا جھرنا بہنے لگا جو اپنی وسعتوں میں ایک عمیق سمندر لئے ہوئے کہیں رُکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ مگر افسوس کاغذ کا پیرہن تنگ سے تنگ ہوتا مجھے مجبور کررہا ہے کہ میں دعائیہ کلمات کے ساتھ اپنے مضمون کا اختتام کردوں۔

ان کا تخلیقی عمل ایک طرح کا اعتراف خود شناسی ہے جو اشعار کے نزول کا صرف باعث بنتا ہے بلکہ ان کے اور قاری کے درمیان ایک نہ مٹنے والا ذہنی و قلبی رشتہ بھی استوار کرتا چلا جاتا ہے ۔ میں دوسروں کی مانند مجموعہ کلام’’ ژانو دُشمن ‘‘ کے چیدہ چیدہ اشعار سے کاغذ کا پیٹ نہیں بھرتا ۔ یہ کام آپ کا ہے کہ کتاب حاصل کرکے محترمہ فریدہ سلطانہ فریؔ کی خوبصورت شاعری کا لطف اٹھائیں ۔ میرا کام ان کا اور ان کے اس مجموعے کلام سے تعارف کرانا ہے۔

مجھے قوی یقین ہے کہ ان کے پہلے مجموعہ ’’ ژانو دُشمن‘‘ قارئین کی تمام توجہ حاصل کریں گے ۔ اسی طرح انشاء اللہ ان کا یہ خوبصورت دیدہ زیب مجموعہ کلام بھی دنیائے ادب کے پروانوں کو اپنی جانب کھینچ لے گا اور پوری پزیرائی حاصل کرے گی۔ اللہ کرے آپ کی قلم ہمیشہ محبتوں کی داستانوں کو حسن و لطافت سے بھر پور شاعری میں ڈھالتی رہیں اور آپ کے گلستان ادب میں سخن کے پھول مہکتے رہیں ۔ آمین

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button