کالمز

برما۔۔۔کوئی تو چارہ گری کو اترے

عسکریت پسند نام سے سب واقف ہیں ۔پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک یہ لفظ  بہ کثرت استعمال ہوتا ہے۔کشمیری ، سواتی، افغانی، عسکریت  پسندوں  کے ناموں سے کون واقف نہ ہوگا ۔اور اب برمی عسکریت پسندوں کا نام بھی  سننے کو مل رہا ہے۔عسکریت پسند دہشت گرد، شر پسند کی تعریف  بھی مختلف ممالک میں مختلف ہے اس بارے  کسی ایک تعریف کو لیکر یقین سے کچھ کہنا یا لکھنا بہت مشکل ہے     ۔کہیں یہ عسکریت شہید کہلاتے ہیں کہیں یہ ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ شہید کون اور ہلاک کون  یہ بھی بڑا ہی بحث طلب مسلہ ہے۔آج کے دور کی جنگی چالوں اور حکمت عملیوں کو دیکھا جائے تو  اس بارے بھی وثوق سے   کوئی  کہہ نہیں سکتا۔اب اس زمرے میں  کون پڑے ۔بس چلتے ہیں برما کی طرف جہاں  برما کے نہتے مسلمان  بھی عسکریت پسندوں کی  فہرست میں آگئے ہیں ۔ ان نہتے مسلمانوں کو یہ نام وہاں کی حکومت نے دیا ہوا ہے ۔ان کا کہنا یہ ہے کہ ۔ حالیہ فسادات کی جڑ  وہ مسلمان اکثریت پسند  ہیں  جنہوں نے ایک  پولیس چوکی پر حملہ کر کے 15 آفیشلز کو مارنے کے بعد کئی گاؤں جلا دیے تھے۔جبکہ دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیموں نے میانمار پولیس اور لسانی راخائن بدھ گروہ  پر روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا الزام عائد کیا ہے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عسکریت پسندوں کی پولیس چوکی پر حملے کا دعویٰ  کتنا سچا ہے ۔اب تک کی آمدہ اطلاعات کے مطابق میانمار میں  جاری تشدد  کاروائیوں  کے نتیجے میں   ستاسی ہزار  روہنگیا مسلمان ہجرت کر کے  بنگلہ دیش  پہنچ گئے ہیں  اور کئی ہزار مسلمان بنگلہ دیش کی سرحد میں پھنسے ہوئے  ہیں ۔ اس ظلم  کے خلاف  اب تک کسی بھی ملک نے  کھل کر  کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی ہے۔ سوائے  انڈونیشیا  کے جہاں  ہزاروں مسلمانوں نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور پرتشدد کارروائیوں کے خلاف میانمار کے سفارتخانے کے سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے اقلیتی برادری کے خلاف جاری تشدد پر سخت ردعمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔یہاں جاری بربریت اور ظلم سے روہینگیا کے مسلمان نسل کشی  کا  شکار ہیں ۔یہاں کے اقلیت کو کسی بھی ملک کی شہریت حاصل نہیں ۔ برما کی حکومت انہیں اپنا شہری ماننے سے انکار کرتی ہے اور دوسرے ملک انہیں اپنانے کے لئے تیار نہیں  ۔ہمارے کچھ لکھاری موم بتی والوں کا کہنا یہ ہے کہ  برما میں  مسلمانوں اور بدھوں  کا مسلہ نہیں بلکہ  آباد کاری سے ہے اور بقول ان کے  کہ  اس کو خواہ مخواہ  اسلامی رنگ دیا جا رہا ہے ۔ ان کی اس منطق پر سوائے ماتم کے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اٹھویں صدی سے لیکر  چودھویں صدی تک آرام اور سکھ کی زندگی بسر کرنے والے برمی مسلمان  ایک دم سے تارکین وطن اور عسکریت پسند  کیسے ہوئے۔اور برمی حکومت ان پر ظلم و ستم  کیوں ڈھا رہی ہے ۔یہ مسلمان آج ہی یہاں آباد نہیں ہوئے ہیں یہ تو یہاں صدیوں سے رہ  رہے ہیں  یہاں کے مسلمانوں نے  تین صدیوں سے زائد یہاں حکمرانی کی ہے ۔اسلام تو یہاں اس وقت سے  پھلنا پھولنا شروع ہوا  تھا جب خلیج بنگال سے آئے ہوئے تاجروں نے تجارت کے ساتھ ساتھ  یہاں  دین حق کی تبلیغ شروع کر دی تھی ۔اور چودھویں صدی میں یہاں ایک مکمل اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالی گئی تھی  اور اسی دور میں بے شمار مساجد اور مدارس اور جامعات قائم کی گئیں جس کا سہرا اس وقت کے حکمران سلطان سلیمان شاہ  کے  سر باندھا جاتا ہے ۔ جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے ان مسلمانوں  پر بھی  ظلم کے پہاڑ اس وقت سے   شروع ہوئے   جب ۱۸۲۶ میں برطانیہ کی  ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس خطے پر  اپنا قبضہ جمایا  ان کی پالیسی  سے برصغیر کے لوگ واقف ہیں  یعنی لڑائو اور حکومت کرو۔انہوں نے  یہاں کے  بدھوں کو مسلمانوں  کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا۔ برما  کی آزادی کے فوراً   بعد  ۱۹۴۲ میں یہاں  مسلمان اور بدھوں کا پہلا فساد برپا ہوا ۔ یہ فسادات جو چالیس دن تک جاری رہے  اپنے اندر ظلم و ستم کی ایک انمٹ نقوش رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد مسلما نوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا  اور نہتے مسلمان بنگال  میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ۔بات یہاں تھمی نہیں  ان برمی مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ  ہوتا چلا گیا اور جب  انگریز برصغیر سے جا رہا تھا تو ایک بار پھر برما میں  مسلم کش فسادات دھرائے گئے۔یہ کوئی فسانہ یا کہانی بیان نہیں کر رہا ہوں  تاریخ  یہ بتا رہی ہے  لیکن ستم یہ ہے کہ ہم حقیقت سے آنکھیں چراتے ہیں  اور ہمارے دلوں میں کینہ اور بغض کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا ہے جس باعث ہم سچ کو جھوٹ ثابت کرنے پر لگے ہوئے  اور سچی بات یہ ہے کہ  ہم نفرت کے  اتنے عادی ہوئے ہیں کہ محبت بانٹنے والوں کو بھی شک کی نگاہ  سے دیکھتے ہیں ۔  ہونا تو یہ چاہئے کہ مسلک مذہب  اور قومیت   کو بالائے  طاق رکھ کر  ظلم  چاہئے وہ کسی بھی ملک میں ہو اور کسی  بھی انسان  یا  مسلکوں اور فرقوں پر ہو  خلاف آواز بلند  کرنی چاہئے ۔لیکن ایسا نظر نہیں آرہا ہے ہر چیز کو تعصب اور نفرت سے ہی دیکھ کر  تبصرے اور تجزیے کئے جاتے ہیں ۔یہ آج کی بات نہیں  کہ برمی مسلمانوں پر ظلم ہوا ہے  اب تک  برما میں آباد مسلمانوں پر

 چودہ سے زائد مرتبہ فوجی اپریشن  کئے گئے ہیں ۔ ہر فوجی اپریشن  کی  رونگگھٹے کھڑی کر دینے والی کہانی ہے  اگر کسی کو یاد ہے تو  ذرا یاد کریں انیس سو اٹہتر کے فوجی اپریشن کو  جہاں ظلم کی انتہا ہی کر دی گئی کون بھولا ہے ہزاروں شہیدوں کو  کس کو یاد نہیں درجن سے زائد بستیوں کی جل کر خاکستر ہونے کی لا تعداد  بے گناہ مسلمانوں کو جیلوں میں ٹھوسنے جانے  کی ، قران کی بے حرمتی اور مساجد اور مدارس کو تباہ کرنے  کے واقعات کو کیا کوئی بھول سکتا ہے۔۔جس کے نتیجے میں  برمی مسلمان اپنے علاقے سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور تین لاکھ سے زائد  برمی مسلمان  بنگلہ دییش میں دو لاکھ سے زائد پاکستان میں اور ہزاروں کی تعداد میں سعودی عرب اور ملائیشیا  میں پناہ گزین ہوئے ۔معمالہ  یہاں رکتا یا تھمتا تو پھر بھی  بات  بنتی  لیکن نفرت اور تعصبی بدھوں نےمسلمانوں کے خالی کردہ علاقوں میں راخین بدھوں کو آباد کیا اور مسلمان علاقے کا نام بھی تبدیل کر کے  ہندو نام رکھ دیا ۔وہ حضرات جو اسے آباد کاری کا مسلہ گردانتے ہوئے  یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ  مسلمان  بات کا بتنگڑ بنادتے ہیں ان کو موجودہ صورت حال  سے اگاہی دیتے ہوئے  صرف یہ پوچھنا ہے کہ  وہ اپنے دلوں کو ٹٹولیں اور اپنے آپ سے سوال کریں کہ  کیا واقعی یہ آباد کاری کا مسلہ ہے یا کچھ اور۔ سچ  یہ ہے کہ آج   یہاں کے مسلمانوں کو لائوڈ سپیکر پر آزان  کہنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔انہیں نماز پڑھنے سے روکا جا رہا ہے۔ ذبیح اور قربانی پر پابندی لگا دی گئی ہے  یہاں کا مسلمان حکومت کی اجازت کے بغیر نہ شادی کر سکتا ہے اور نہ بچے پیدا کر سکتا ہے۔وہ ایک شہر سے دوسرے شہر حکومتی اجازت کے بغیر جا نہیں سکتے  اس کے اوپر  پہ ستم یہ کہ برمی قانون کے تحت  ان کو شہریت سے بھی محروم کر دیا گیا  ہے ۔ پندرہ لاکھ کی آبادی والے علاقے  ارکان میں  جہاں  اب نقل مکانی اور ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو منہا کرکے دس لاکھ  مسلمان رہ گئے ہیں  ان سے بھی برمی حکومت کا یہ کہنا کہ  وہ نقل مکانی کر کے بنگلہ دیش  کی زمین کو اپنا لیں مسلمانوں سے  بدھوں کا  تعصب اور نفرت   نہیں تو اور کیا ہے ۔چاہئے کوئی کچھ بھی کہے ایک بات تو بلکل واضح ہے کہ روہینگیا کے مسلمان  اس وقت مسلسل سخت تکلیف میں ہیں ۔۔کوئی تو چارہ گری کو اترے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button