کالمز

برمی مسلمانوں کی پکار 

وہ انتہائی سفاک انسان ہوگا جو برما کی موجودہ صورتحال پر غمگین اور مضطرب نہ ہوا ہو، انسانیت کی ایسی تذلیل کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی ،بدھ مت کے پیروکاروں نے ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے، مظلوم روہنگیاکے مسلمان اپنے ہیں گھر میں بے گھر ہو کر رہ گئے ہیں ، درندہ صفت بدھ بھکشو مذہبی انتہا پسندی میں اس حد تک گر چکے ہیں کہ نہ تو کسی عورت کے تقدس کا خیال رکھا جا رہا ہے نہ ہی شیر خوار بچوں اور بزرگوں کا ، انسانیت کا جنازہ نکل چکا ہے ، روہنگیا مسلمانوں کی آہ و بکا جاری ہے جبکہ دوسری طرف اقوام متحدہ، عالمی میڈیا، او ائی سی ، اسلامی اتحاد اور نام نہاد انسانیت کے علمبردار ممالک خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں ۔ اس صورتحال کو سمجھنے کیلئے ہمیں برما کی تاریخ پر نظر دوڑانی پڑیگی ،برما جسے میانمار کہا جاتا ہے، بدھ مت کے پیرو کاروں کا ملک ہے ، اراکان اس کا ایک صوبہ ہے جو بیس ہزار مربع میل پر مشتمل مسلم اکثریتی علاقہ ہے ،جہاں تقریبا 30 لاکھ سے ذائد مسلمان آباد ہیں۔ بد ھ مت کے پیروکاروں کا کہنا ہیکہ مسلمان برما میں باہر سے آئے ہیں اور انہیں برما سے بالکل اسی طرح ختم کر دیں گے جس طرح اسپین سے عیسائیوں نے مسلمانوں کو ختم کر دیا تھا۔ برما کا صوبہ اراکان وہ سر زمین ہے جہاں خلیفہ ہارون الرشید کے عہد خلافت میں یہاں مسلم تاجروں کے ذریعے اسلام پہنچا ۔

اسلام کی فطری تعلیمات سے متاثر ہوکر وہاں کی کثیر آبادی نے اسلام قبول کر لیا ، اور ایک ایسی قوت بن گئے کہ 1430ء میں سلیمان شاہ کے ہاتھوں اسلامی حکومت تشکیل پائی ، اس ملک پر ساڑے تین صدیوں تک مسلمانوں کی حکومت رہی ، مسجدیں بنائی گئیں ، قرآنی حلقے قائم کئے گئے، مدارس جامعات کھولے گئے ان کی کرنسی پر لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کندہ ہوتا تھا، اراکان کے پڑوس میں برما تھا ،جہاں بدھسٹوں کی حکومت تھی۔ مسلم حکمرانی بدھسٹوں کو ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے 1784 ء میں اراکان پر حملہ کر کے قبضہ جمایا اور اسے برما میں ضم کر دیا اور نام بدل کر میانمار رکھ دیا، 1824ء سے 1938ء برما انگریزوں کے زیر تسلط رہا ۔ 1938ء میں انگریزوں سے برما نے خودمختاری حاصل کر کے مسلم مٹاو پالیسی کے تحت اسلامی شناخت کو مٹانے کی پالیسی پر گامزن ہوئے۔

برماکے ناقابل برداشت تشدد کے باعث لاکھوں مسلمان ہجرت پر مجبور ہو گئے اور ہمسایہ ممالک بنگلہ دیش ، سعودی عرب اور پاکستان میں آباد ہوئے۔1982ء میں اراکان کے مسلمانوں کو حق شہریت سے محروم کر دیا گیا، اس اقدام سے ان کی نسبت کسی ملک سے نہ رہی ، گزشتہ ساٹھ سالوں سے اراکان کے مسلمان ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں ، انکے بچے ننگے بدن ،ننگے پیر،بوسیدہ کپڑے زیب تن کئے قابل رحم حالت میں دکھائی دیتے ہیں۔

برما کے مسلمانوں پر مظالم کا یہ سلسلہ ایک مرتبہ پھر زور پکڑ چکا ہے ، روہنگیا اپنے ہی ملک میں بے گھر اور بے ریاست ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں ،یعنی وہ دنیا کے ان بد قسمت اقلیتوں میں شامل ہو گئے جو اس کرہ ارض پر تو رہتے ہیں لیکن قانونی طور پر کسی بھی ملک کے شہری نہیں ہیں، میانمار میں جون کے اوائل سے شروع ہونے والی پر تشدد کاروائیوں کی نئی لہر نے دنیا میں کہرام برپا کر دیا ہے۔برما کے صدر تھین سین نے واضح کر دیا ہیکہ روہنگیا کے مسلمانوں کو کسی تیسرے ملک میں آباد کرنا چاتے ہیں اور وہ انہیں برما میں رہنے کی اجازت نہیں دیتے ، یاد رہے کہ اگر برما تمام مسلمانو ں کو ملک سے نکال باہر کر دیتا ہے تو یہ اسپین کے بعد دوسرا اسلامی ملک ہوگا جہاں سے مسلمانوں کو بزور ختم کر دیا جائیگا۔

انسان نما درندوں نے برمی فوج کے ساتھ مل کر کئی بستیوں کو جلا کر خاکستر کر دیا ہے، 4000 گھروں کو مسمار کر دیا ہے ، 25 ہزار سے ذائد مسلمانوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹ چکے ہیں ، لاکھوں مسلمان ہجرت پر مجبور ہوکر بری اور بحری راستوں سے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ، مسلمانوں کی قاتلہ حکمران حسینہ واجد نے داخلے پر پابندی لگا دی ، جبکہ مسلمانوں کا قتل عا م جاری ہے، عالمی میڈیا اور انصاف کے دعوے دار ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں ، مسلمانوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس قتل عام کو منظر عام پر لایا تب مسلم حکومتوں نے بھی تشویش ظاہر کی ، مگر ہم اس موقع پر مسلم دنیا کے ٹائیگر طیب اردگان کو سیلوٹ پیش کرتے ہیں جس نے روہنگیا کے مظلوموں کی داد رسی کیلئے آواز بلند کی افسوس صد افسوس کہ برمی مسلمانوں کی تشویش ناک صورتحال پر سعودی عرب خاموش ہے ۔

آج مسلم دنیا کے حکمران مادی ترقی کیلئے برق رفتاری پر مشتمل پالیسیاں تشکیل دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں، آج ہماری تلواریں جنگوں کے بجائے رقصوں میں لہراتی نظر آتی ہے ، ہماری مضبوط و مربوط ، مستقل اور موثر خارجہ پالیسی نہ ہونے کے باعث آج عالمی طاقتوں کے درمیان ہماری پوزیشن دھوبی کے کتے کے مصداق ہے۔ اگر ہمارے تعلقات امریکہ کے ساتھ نا خوشگوار ہیں تو وہاں پاک چین دوستی پوری دنیا کیلئے ایک مثال ہے۔ایسے موقع پر ہم سمجھتے ہیں کہ چین واحد ملک ہے جو برما کی پالیسیوں پر صحیح معنوں میں اثر انداز ہو سکتا ہے، سفارتی کوششوں میں اس پہلو کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ کاشغر تا گوادر پاک چین راہداری کے بارے میں تو ہم بہت جانتے ہیں لیکن چین کی ایک اور راہداری چین ،برما ، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان بھی ہے یہ راہداریاں مکمل ہوں تو یہ پورا خطہ ایک تجارتی زنجیر میں بندھ ہو جائیگا، ان بڑے منصوبوں کی تکمیل کیلئے علاقائی امن کی شدید ضرورت ہے ، چین کو اس صورتحال پر غیر جانبدار پالیسی کو ترک کر کے عملی کردار ادا کرنا ہوگا ۔سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں اگر روہنگیا کے مسلمانوں کیلئے مجاہدانہ کردار ادا نہیں کر سکتے تو کم از کم ہندوستان اور برما کے ساتھ تجارتی تعلقات فوری طور پر منقطع کر دیں۔ پاکستان بے بسی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ترک ، ایران اور مالدیپ کی طرح دلیرانہ موقف اختیار کرے اور چین کی عالمی اثر رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے روہنگیا کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا سدباب و تدارک کرے ، روہنگیا کے مسلمانوں کو زیادہ دیر شہریت کے حق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ وہ سینکڑوں سالوں سے میانمار میں آباد ہیں اور عالمی قوانین کے تحت انکو برما کا شہری تسلیم کیا جائے اور فوری طور پر ظلم و بربریت کا یہ سلسلہ روکا جائے،مظلوم، نہتے ، بے گھر اور روہنگیا کے مہاجرین کو محفوظ ٹھکانا فراہم کرنے کیلئے عالمی برادری اپنا کردار ادا کرے، ضرورت اس امر کی ہیکہ تمام ہمسایہ ممالک نہ صرف غذائی اخراجات بر داشت کریں بلکہ روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کیلئے اپنی سرحدوں کے دروازے کھول دے ۔چونکہ آج دنیا ایسے دنگل میں پھنستی جا رہی ہے کہ کسی بھی ملک میں ایسے گھناونے حالات پیدا ہو سکتے ہیں اور کسی بھی ملک کو دوسرے ملک کی ضرارت پڑ سکتی ہے، اسلامی ممالک پر مشتمل اسلامی اتحاد چپ کا روزہ توڑدے ، لادین تہذیبوں اور نظریات کی صبح و شام پرچار کرنے والی نام نہاد اسلامی میڈیا روہنگیا کے مظالم کو دنیا کے سامنے منظر عام پر لائے۔

گلگت بلتستان سمیت ملک بھر میں برما کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ، جبکہ الخدمت فاونڈیشن پاکستان نے ترکی کے فلاحی اداروں TIKA اور حرات فاونڈیشن کے ساتھ مل کر روہنگیا کے مہاجرین کیلئے امداد کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جو کہ قابل ستائش ہے ، حکومت پاکستان اور دیگر فلاحی اداروں کو بھی اس موقع پر اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button