کالمز

بے وطن لوگوں کی غم داستان 

تحریر : عارف نواز بلتی

میا نمار ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہے جو کہ جنوب مشرقی ایشیا میں واقع ہے اس کو برما کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اس کے مغرب میں بھارت ا ور بنگلہ دیش ، مشرق میں لاوس ، تھائی لینڈ اور چین شمال ا ور شمال مشرق میں واقع ہے۔نہیپائیتو اس کا دارلحکومت ہے او ر موجودہ صدر کا نام ہیتن کیو ہے جو کہ ہندو مت کے پیروکار ہیں

2012 کی ایک سروے کے مطابق میانمار میں ہر سال قتل کی شرح 100,000 لوگوں کی آبادی کا 15.2 فیصد تھا وہاں 2012 میں ہی 8044 قتل وغارت کے واقعات سامنے آئے تھے ان میں سے زیادہ تر قتل فرقہ وارانہ تشدد اور مسلح افواج کے ہاتھوں ہوئے اور میانمر دنیا کی بد عنوان ترین مملک میں سر فہرست بھی ہے

میانمار میں بہت سارے مذاہب کے لوگ آباد ہیں او ر 2014 کے ایک سروے کے مطابق اس ملک کا کل آبادی 4 کروڑ ہے ان میں 87.9 فیصد بت مت ،4.3 فیصد مسلم اور تقریبا 6.2 فیصد کے قریب عیسائیت ، 0.5 فیصد ہندو اور0.7 فیصد دوسرے مذاہب کے پیروکار آباد ہیں۔ویسے تو میانمار میں تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کا اختیار موجو د ہے لیکن یہ با ت صرف کہنے کی حد تک ٹھیک ہے کیو نکہ مسلمان اور عیسائیت کے پیراکاروں کو اپنے کسی بھی تہوار کو منانے میں بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنے پڑ جاتے ہیں۔ہندو مت کے علاوہ باقی مذاہب کے لو گوں کو فوج اور دوسرے سرکاری ملازمتوں کے حصول میں بھی نظر انداز کیا جاتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ برما میں ہر آئے روز مسلم ہندو فساد کی وجہ اس بات کو بھی سمجھا جاتا ہے کہ طالبان نے افغانستان میں موجود بامیان بدھ ( Buddhas of Bamiyan) کو تباہ کیا تھا جو کہ ہندوں کے لئے بہت مقدس تھی جس طرح مسلمانوں کے لئے بیت اللہ عزیز ہے اس لئے بت مت راہبوں نے مسجدوں کو شہید کر نے اور مسلمانوں کو برما سے بے دخل کرنے کو ہندوں کے لئے جائز قرار دیا ۔ اس دن سے لے کر اب تک جو بھی فسادات ہوئے ہیں اس کی اصل وجہ یہی ہے۔

برما کے علاقے رخین او ر بنگلا دیش کے علاقے چٹا گا نگ میں بسنے والے مسلمان کو رو ہنگیا مسلمان کہا جاتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق ان علاقوں میں بسنے والے مسلمان اتنے غریب ہیں کہ ان کے پاس سر کو چھپانے کے لئے چھت بھی نہیں ہے اور یہ لوگ سال بھر آم اور پانی پی کر گزارا کر تے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق روہنگیا کے مسلما نوں کو دنیا کے مظلوم ترین اقلیت قرار دیا ہے کیوں کہ روہنگیا مسلمانوں کو انسانی حقوق تو دور کی بات کسی ملک کی شہری ہونے کا بھی حق موجود نہیں ہے ۔اگر تاریخ کا مطالہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ کم از کم 1200 سال پہلے عرب ممالک اور آس پاس کے ممالک سے مسلمان تاجر تجارت کے خیال سے یہاں آئے اور یہاں کے ہو کر رہ گئے۔ چین او ر ملائیشیا سے بھی مسلمان یہاں آکر آباد ہو ئے اس طرح اسلام یہاں پھیلتا گیا۔

ویسے تو بت مت اور اسلام میں شروع سے ہی اختلاف چلا آ رہا ہے کیوں کہ بت مت اور اسلام کے تعلیمات اور تصورات میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ یہی تصوورات میں اختلاف ان دونوں مذاہب کے لوگوں کے درمیان باہمی کشمکش کا سبب بنتا آرہا ہے۔اسی لئے 1564 عیسوی میں جانورں کے قربانی پر پابندی عائد کی گئی اور 1700 عیسوی میں کسی بھی جانور کو ذبح کرنے کو خلاف قانون او ر حرام قرار دیا گیا اور مسلمانوں کو سو ر کا گوشت زبردستی کھلایا جاتا اور جو سور کا گوشت کھانے سے انکار کرتے ان کو شہید کر دیا جاتا ۔

رائج ہے میرے دیس میں نفرت کا قاعدہ

ہو جس سے اختلاف، اسے مار ڈالیے۔۔۔

بلکل اسی طرح برما میں فوجی حکومت نے Citizenship کا قانون لاگو کر کے وہاں روہنگیا ،چین اور بنگلہ دیش میں موجود روہنگیا مسلمانوں کو اپنا شہری ماننے سے انکار کیا گیا حالانکہ روہنگیا مسلمان 1200 سال پہلے سے وہاں آباد چلے آرہے ہیں پھر بھی انہوں نے اس قانون کے ذریعے مسلمانوں کی زندگی تنگ کر دی۔اس طرح یہ غریب لوگ سرکاری ملازمتوں کے حصول ،آزاد نقل و حرکت اور ظالم کے ظلم سے نجات کے لئے قانون کی مدد لینے سے بھی محروم کر دیئے گئے۔اسی لئے آج کل ہر آئے روز ا ن کو قتل کرنے ،د ھمکانے، ا ور گھروں سے بے دخل کرنے کی باتیں خبروں کی ذینت بنی ہوئی ہیں۔

2012 میں یہاں کے مسلمان مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے اور ہندو انتہا پسندوں نے سارے مسلمانوں کو شہید کر دیا ۔ بلکل ا سی طرح 2015 میں یہاں کے مسلمانوں کو تین کشتیوں میں سوار کر کے بیچ سمندر میں دھکیل دیا گیا تھا ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد 10 ہزار کے قریب تھی او ر یہ وہ لوگ تھے جن کو کسی بھی ملک کے ساحل پے اترنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ان سب کے پس پردہ ایک ہندو انتہا پسند تنظیم سر گرم ہے جیسے ما با تا ( Ma Ba Tha ( بھی کہا جاتا ہے۔

Patriotic Association of Myanmarایک ہندو انتہا پسند تنظیم ہے جس کو Association for the Protection of Race and Religion, اور Committee for the Protection of Nationality and Religion بھی کہا جاتا ہے ۔اس تنظیم کو 52ممبرز کی ایک ٹیم چلا رہی ہے ان ممبرز میں سینئر راہب اور قوم پرست لیڈرز بھی شامل ہیں۔ ایشین وارتھو ( Ashin Wirathu ) اس تنظیم کا سربراہ ہے جو کہ مسلمانوں کے خلاف تحریک چلانے اور ہندو انتہا پسندوں کو مسلمانو ں کے خلاف اکسانے کے لئے بہت مشہور ہے ۔ ابھی حال ہی میں جو کشیدگی سامنے آئی ہے اس کے پیچھے بھی اسی کا ہاتھ ہے۔ایشین وارتھو کو اس وقت کے صدر نے اپنے خفیہ منصوبے کے تحت روہنگیا کے مسلمانوں کو کسی دوسرے ملک بے دخل کرنے کے مقصد سے وہاں بھیجا گیا تھا ۔ یہ موجودہ کشیدگی بھی اسی مقصد کی ایک وجہ ہے۔

ابھی حال ہی میں جو کشیدگی سامنے آئی ہے اس میں ایک اندازے کے مطابق 25 ہزار کے قریب لوگوں کو شہید کیا گیا ہے جن میں حاملہ خواتین اور بچے وغیرہ بھی شامل ہیں۔ تقریبا 5.5 لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ ابھی حال ہی کی ایک رپورٹ کے مطابق چند ہی ہفتوں میں تقریبا 164,000مسلمان بنگلہ دیش ہجرت کر گئے ہیں ۔۔ اور بہت سے حمل شدہ خواتین نے تو ہجرت کے دوران راستے میں ہی اپنی بچوں کو جنم دے رہی ہیں یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھی نہیں ہے۔

ا قوام متحدہ کے اداروں کے مطابق یہ شرح آنے والے دنوں میں 300,000 تک جا سکتی ہے ۔ ویسے یہ سب صرف ہند و انتہا پسند نہیں کر رہے بلکہ اس میں وہاں کے مسلح افواج بھی مظلوم مسلمانوں کو ما رنے، لوگوں کو بے گھر کرانے ، گھروں کو جلانے اور مسجدوں کو شہید کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔

روہنگیا کے بے بس او ر لاچار لوگوں کے موجودہ تناظر میں یہ سو ال پیدا ہوتا ہے

کیا یہ لوگ انسان نہیں ہیں؟

کیا یہ اللہ کے بندے نہیں ہیں ؟

کیا ان کے بھی کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں؟

کیوں مسلم ممالک اس بات پے خاموش ہیں؟

کہا ں ہے اقوام متحدہ جو ہمیشہ انسانی حقوق کی علم بردار ہونے کی بات کرتی ہے؟

برما کے نوبل امن انعام یافتہ لیڈر آنگ سانگ سو چی اب تک مسلمان اقلیت کے ساتھ اتنا بڑا ظلم ہونے کے بعد بھی خاموش کیوں ہے؟

عجیب روگ لگا مغربی ممالک کو

جو دیکھتے ہیں وہ پورا نظر نہیں آتا

دکھائی دیتا ہے سب کچھ انہیں زمانے میں

بس ایک خطہ برما نظر نہیں آتا۔۔۔۔۔۔

جہاں پے راج ہے چنگیز ی بربریت کا۔۔۔

کسی کے دل میں بھی بدھا نظر نہیں آتا

جہاں ہیں فوج کشی کے لئے انھیں لیکن

سوائے مسلم خستہ نظر نہیں آتا۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button