کالمز

میانمار کے مظلوم مسلمان اور امت مسلمّہ

اخبارات میں روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کے حالات و واقعات پڑ ھ کراورسوشل میڈیا پر دیکھ کر دل خون کے آنسورورہا ہے۔عید قرباں جوکہ خوشیوں اور مسرتوں کا دن ہے روہنگیا مسلمانو ں پر جاری ظلم وتشدد کی نظر ہوگئی۔دل میں ان مظلوم و بے یار ومددگار مسلمانوں کے لیے ہمدردی ہے ۔ دل بے تاب ہے آنکھوں میں آنسو ہے۔ ہر پل ہر لمحہ خیال مسلمانوں پر جاری مظالم پر ہے۔بار ہا اپنی اور امت مسلمہ کی بے بسی کا سوچ کر ناامید ی کے گھٹا توپ بادل میں دل پر چھائے رہے۔دنیا کی مسلم ریاستوں ،مسلم حکمرانوں اور OIC کی جانب جب نظریں دوڑاتا ہوں تو ہر طرف سکوت و خاموشی اور اندھیرا ہی اندھیر اچھایاہوا نظر آتا ہے۔بہر کیف یہ واقعہ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ پہلی دفعہ تو نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس سے قبل بھی روہنگیا کے مسلمان برما کی حکومت اور فوج کے غیض و غضب کاشکار بن چکے ہیں۔ہم سبھی اس سے قبل روہنگیا کے مسلمانوں پر جبر و استعدادکی خبروں سے بے خبر رہتے آئے ہیں۔جب گزشتہ سال روہنگیا کی مسلمانوں پر برما کی زمین تنگ کردی گئی ۔تب ہمیں اخبارات و جرائداور سوشل میڈیاکی مرہون منت کسی حد تک آگاہی حاصل ہوتی رہی تاہم بعد میں ظلم و جبر کا سلسلہ تھم گیا۔اور حالات پر کسی حد تک قابو پالیا گیا۔اچانکہ پھر سے 25 اگست کی شام سے سوشل میڈیا پر روہنگیا کے مسلمانوں پر مظالم کی تازہ خبروں، تصاویر اور ویڈیوز نے مجھ سمیت سبھی کو ہلا کر رکھ دیا۔جنہیں دیکھ کر طبیعت افسردہ ہوگئی ۔مگر ساتھ ہی میں شش و پنج کا شکار بھی ہوا ؟میں نے سوچا میانمار میں توبدھ مت ، عیسائی ،ہندو اور مسلمان سبھی رہتے ہیں مگر برما کی زمین صرف مسلمانوں پر ہی کیوں تنگ کی جارہی ہے۔میرے رب مسلمانوں کے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے۔ان بے چارے مسلمانوں کا قصور کیا ہے؟ انسانیت سوزمظالم ان پر کیوں کر ڈھائے جارہے ہیں۔جنہیں دیکھ کر انسانیت بھی شرماجائے۔مگربدھ مت کے پیروں کاروں کو احساس کیوں نہیں ہورہا ہے ۔ظاہر سی بات ہے میں اس کشمکش کا شکار ہو چکا تھا۔ چونکہ میانمار کی اندرونی حقائق سے ہم نا واقف ہیں۔بہر حال اس حوالے سے تحقیق جاری رکھتے ہوئے جب میں نے تاریخ پر نظر ڈورائی تو پتہ چلا کہ اس کے پیچھے بہت سارے عوامل کرفرما ہیں۔

میانمارمیں شروع ہی دن سے مسلمان کمیو نٹی کا اثر و رسوخ اور مسلمانوں کی بدھ مت کے مقابلے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی بدھ مت کے پیروں کاروں کو سے ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔جس کی روکھتام اور اس سلسلے کو ختم کرنے کے لیے ایک سیاسی کھیل کھیلی گئی ۔1974ء میں میانمار کی فوجی حکومت نے حیلے نہانے سے سے ملک میں مسلم دشمن قانون وضع کیا۔جسے کی اساس پر میانمار کو سوشلسٹ ریپبلک قرار دیا گیا۔ اس قانون کی وجہ سے مسلمان اجنبی اور غیر قانونی شہری قرار پائے۔مسلمان کیمونٹی کے مال جائیدادضبط اور سرکاری عہدوں سے فارغ کردئیے گئے۔میانمار کی آبادی تقریبا 6 کروڑ ہے جس میں سے صرف4 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ میانمار میں بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت ہے۔مزید 1982ء میں فوجی حکومت کی جانب سے قانون میں ایسی اصلاحات لائے گئے جن کے نتیجے میں مسلمان ایک کمزور اقلیت بن کر رہ گئے۔ان پیچیدہ اور مسلم دشمن اصلاحات کی وجہ سے مسلمان کیمونٹی تعلیم سے لیکر زندگی کے باقی ماندہ شعبوں میں پھیچے رہ گئے ۔جس کی بناد پر مسلمان کمیونٹی پسماندگی سے دوچار ہوئے ۔ میانمار میں مسلمان کمیونٹی کی ناخواندگی کی شرح 80 فیصد ہے ۔ان عوامل کی وجہ سے میانمار کے مسلمان دن بدن ترقی کی بجائے زوال کی جانب سفر کرتے رہے۔جس کے باعث مسلمانوں میں شدت پسندی وجود میں آئی۔میانمار کی مسلم کیمونٹی کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بینادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا۔مسلمانوں کی نقل وحرکت پر بھی پابندی عائد کردی گئی یہاں تک کہ شادی کرنے کے لیے بھی فوجی حکومت سے اجازت لینی پڑتی ۔جس کے رد عمل میں مسلم کیمونٹی سے چند افراد اٹھے اورحکومت کے خلاف طاقت کاغلط استعمال شروع کردیا۔بدھ مت کے مذہبی عبادت گاہوں کو نشانہ بناگیاجس میں بدھ مت کے کافی پیروں کار ہلاک ہوئے ۔حالیہ دنو ں میانمار کی مسلم جہادی تنظیموں نے حکومتی بارڈر گارڈز پر حملہ کیے جس کے نتیجے میں 9 بارڈر گارڈز ہلاک ہوئے ۔جس کے رد عمل میں میانمار کی حکومت بدھ مت کے پیروکاروں کے ہمراہ راخائن صوبے میں مسلمان کمیونٹی کے گھروں کا گھیراؤ کرکے جلا کر انہیں خاکستر کردیا۔

میانمار کاصوبہ راخائن جسے اراکان بھی کہا جاتا ہے انسان اور اسلام دشمنی کی علامت بن چکی ہے ۔بدھ مت کے شدت پسند پیروکار اپنی مرضی سے مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں۔ جن میں بچے, بوڑھے, عورتیں اور مرد سبھی شامل ہیں۔عورتوں کی عزتیں لٹ رہی ہیں۔بچوں اور بوڑھوں پر ترس کھانے والا کوئی نہیں۔اس تناظر میں میانمار کی عالمی امن نوبل انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی کی خاموشی بہت سارے سوالات جنم دے رہی ہے۔میڈیا کے سامنے آکر وہ یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ میانمار کے صوبے راخائن میں کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے سب ٹھیک ہے ۔میڈیا میں جو کچھ دیکھا یا جا رہا ہے یہ ماضی سے جڑی خبریں ،تصاویر اور ویڈیوز ہیں جنہیں ایک خاص طبقہ میانمار کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کررہا ہے۔آنگ سان سوچی جھوٹ بول رہی ہے دنیا کو سب پتہ ہے کہ میانمار میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہور ہا ہے ۔آنگ سان سوچی کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ امن کا جو نوبل انعام اسے میانمار میں جمہوریت کی خاطر لڑنے کے لیے دی گئی ہے اس سے واپش بھی لی جا سکتی ہے ۔ کیونکہ آج برما میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار آنگ سانگ سوچی ہے ۔

مسلمان آج کے دور میں دنیا کی سب سے زیادہ پسی ہوئی قوم ہے دنیا میں جہاں بھی ظلم و تشدد ہو مسلمان ہی اس کا نشانہ بنتے ہیں۔کشمیر سے لیکر فلسطین اور فلسطین سے لیکر شام ،عراق اور اب برما تقریبا ہی سبھی جگہ مسلمانوں پر ظلم و جبر جاری ہے۔کیا ہم نے اس کے درپردہ محرکات سے آگاہ ہیں؟آخر کار ہر جگہ مسلمان قوم کو ہی کیوں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اس کے وجوہات کیا ہیں؟ میرے محدود خیال میں اس کے وجوہات تعلیم و تربیت کی کمی ،خدمت خلق کے جذبے کا نا ہونا، سائنس و ٹیکنالوجی سے عدم دلچسپی اور اسلامی اقدار سے روگردانی وغیرہ شامل ہیں۔۔۔

ہم میں بحثیت ایک مسلمان قوم نرم و شرین ہونے کے بجائے سخت خو، بے صبری، شدت پسندی او ر عدم برداشت کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ صرف مسلمان ہی شدت پسند ہیں بلکہ شدت پسند ہرمذہب اور ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں ۔اگر بدھ مت کے بانی گوتم بدھ کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو کہا جاتا ہے ان کے نزدیک ایک چیونٹی کو بھی نقصان پہنچانا گنا ہ عظیم ہے ۔ برما میں گوتم بدھ کے پیروکارلاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ہیں ۔ گوتم بدھ کے یہی پیروکار معصوم مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں ۔ بدھ مت کے ان پیروں کاروں کو شدت پسند کہیںیا دہشتگردمرضی آپ کی اسی لیے کہا جاتا ہے کہ شدت پسندوں اور دہشتگروں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔۔۔

امت مسلمہ اوردنیا کی ساری اسلامی ریاستیں اور مسلم بین الاقوامی اشخاص مظلوم روہنگیا پر جاری مظالم خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہے۔ اور تعجب ہے کہ کسی نے مسلمانوں پر جاری ظلم و جبر پر کچھ بولا ہو۔دنیا بھر میں انسانی حقوق کے عالمی دعویدار اقوام متحدہ اور ہیومین رائٹز اور OIC برما میں جاری انسانیت سوز مظالم پر چپ سادہ لی ہوئی ہے ۔یہاں تک کہ دنیا کی 57 اسلامی ریاستیں بھی بے غیرتی کی چادر اوڑھ کر سورہے ہیں۔ماسوائے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے جنہوں نے کھل کر برما کی حکومت کو للکار ا ہے اور مظلوم روہنگیا کی مدد کے لیے پیش پیش ہے ۔مسلم دنیا کی طاقتور شخصیتوں کے زبان پر بھی تالے لگے ہوئے ہیں۔مغربی میڈیا اور پاکستانی میڈیا پر سکوت طاری ہے۔مگر عین اس لمحے سوشل میڈیا نے ہر لمحہ ہر پل ایک ایک خبر اور واقعے سے ہمں آگا ہ رکھا۔جس کی وجہ سے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑگئی۔مسلمانوں نے جب اپنے مسلمان بھائیوں ،بہنوں کو مصیبت اور کرب کے عالم میں پایا تو سب کی چیخیں نکل گئی ۔اب تک پاکستان سمیت دنیا بھر کی عوامی حلقوں کی جانب سے شدید احتجاج سامنے آیا ۔مجبورا پاکستانی اور مغربی میڈیا کو عوامی تشویش دینا کو دیکھانی پڑی۔جس کی وجہ سے میانمار کی حکومت اور فوج پر دباؤ بڑھ رہاہے ۔ہمارا ایک چھوٹا سا عمل بظاہر چھوٹا ہی صحیح مگر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ہمیں ہر فورم ہر سطح اورہر جگہ برما کے مسلمانوں کے حق میں اور برما کی حکومت اور فوج کے خلا ف اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا چاہیے اس لیے کہ ہماری ہر ایک عمل کو دینا دیکھ رہی ہے۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button