کالمز

10 ملکی اتحاد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضیؔ

اقتصادی تعاون تنظیم ECO در اصل 10 ملکی اتحاد ہے، تنظیم کا تیر ھواں سربراہ اجلاس اسلام اباد میں ایک جامع اعلامیہ کی منظوری کے بعد اختتام پذیر ہوا۔ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے اجلاس میں شرکت سے معذرت کی۔ ایرانی صدر حسن روحانی اور ترک صدر رجب طیب اردگان نے خصوصی طور اجلاس میں شرکت کی۔ آزر بائجان ،ترکمنستان ،ازبکستان ،کر غیزتان،تاجکستان اور قزاقستان کے سربراہانِ مملکت نے اجلاس میں شرکت کی ۔مشترکہ اعلامیہ کے اندر کوئی نئی بات نہیں کی گئی۔ تنظیم کے قیام کے وقت 1985 میں جو اہداف مقرر کئے گئے تھے ان کا اعادہ کیا گیا، مثلاًیہ کہ ممبر ملکوں کے درمیاں تجارت کو فروغ دیا جائے گا، ممبر ممالک آپس میں توانائی ،مواصلات اور دیگر شعبوں میں تعاون کرینگے ،علاقے کے ممالک تاریخی ،ثقافتی اور علمی روابط کو فروغ دینگے۔ یہ خوب صورت باتیں ہیں، بہت اچھی باتیں ہیں مگر ان باتوں پر عمل کرنے کے لئے میکنزم ہونا چاہئے، طریقہ کار وضع کیا جانا جاہیے، سرگرمیاں تجویز کی جانی چاہئیں، سرگرمیوں کے لئے نظام الا وقات مقرر ہونا چاہئے۔ مثلاً یہ کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کیلئے کتنے تجارتی میلے تہران ،شیراز اور اصفہان میں ہونگے اور کتنے میلے اسلام اباد ،کراچی اور لاہور میں ہونگے؟ پاکستان اور قزاقستان کے درمیان علمی وفود کے کتنے تباد لے ہونگے اور کن کن تاریخوں میں ہونگے ؟ ایران اور آذر بایئجا ن سے گیس پائپ لائن کے ذریعے پاکستان کو کتنا گیس ملے گا، کب ملے گا اور کسطرح ملے گا؟ ترکی پاکستان میں اگلے 10سالوں میں کتنی سرمایہ کاری کرے گا اور کن کن شعبوں میں سرمایہ لگائے گا ؟

مشترکہ اعلامیہ میں اس طرح کی ٹھوس ،مجسم اور منظم و منضبط تجاویز نظر نہیں آتیں۔ اس وجہ سے افغان میڈیا نے اسلام اباد اجلاس کو بے نتیجہ قرار دیا ہے لیکن افغان میڈیا نے یہ نہیں بتا یا کہ بفر ض محال افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اجلا س کا بائیکا ٹ نہ کرتے تو مشترکہ اعلامیہ کو کس طرح بہتر بناتے ؟ اس میں ٹھوس تجاویز ڈالنے کے لئے کسطرح اپنا کردار ادا کرتے ؟ افغان میڈیا نے ایسی باتوں کو جان بوجھ کر گول کر دیا ہے کیونکہ ایسی ٹھوس تجویز افغانستان کے پاس بھی نہیں تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ 69برسوں میں پاکستان نے بین لاقوامی اور علاقائی سطح کی جن تنظیموں کی رکنیت حاصل کی ہے ان میں سے کسی بھی تنظیم میں پاکستان نے اہم کردار ادا نہیں کیا اور ان میں سے کوئی بھی تنظیم کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئی۔ 1964 میں پاکستان ،ایران اور ترکی نے آرسی ڈی بنائی تھی جو ناکامی سے دو چار ہوئی۔ اس کی ٹھنڈی راکھ سے 6 سال بعد ای سی او نےجنم لی۔ ہم نے جنوبی ایشا کے ممالک کی تنظیم سارک (SAARC) کے ناکام تجربے سے سبق نہیں سیکھا۔ سارک کا تجربہ اس لئے ناکام ہوا کہ اس میں بھارت کو شامل کیا گیا تھا۔ بھارت نے پاکستان کی دشمنی میں سارک کی کسی بھی میٹنگ کو کامیاب ہونے نہیں دیا۔ اس تجربے کے بعد ای سی او کے اندر افغانستان کو جگہ نہیں دینی چاہیے تھی۔ افغانستان بھی بھارت کی طرح پاکستان کے ساتھ دشمنی رکھتا ہے۔ افغانستان اور پاکستان مل کر جس تنظیم میں آئینگے وہ تنظیم کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ اگر افغانستان کو ECOکا ممبر نہ بنایا جاتا تو اب تک ECO کے اہداف اور مقاصد کی طر ف پیش رفت ہو چکی ہوتی اب حال یہ ہے کہ بقول غالب ۔

لیتا ہوں مکتب غمِ دل میں سبق ہنوز
مگر یہ کہ رفت گیا اور بود تھا

ECO کے حوالے سے تین اہم حقائق سے صرف نظر کیا گیا ہے۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب ،بھارت اور امریکہ کسی بھی ایسی تنظیم کو کامیاب ہونے نہیں دینگے جس کا فائدہ پاکستان کو پہنچتا ہو۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والے ممالک پاکستان کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں، دہشت گردی کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر وہی ہے جو امریکہ ،بھارت ،سعودی عرب اور افغانستان کا موقف ہے۔ یعنی پاکستان پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔ تیسری بڑی حقیقت یہ ہے کہ بھار ت کے ساتھ وسطی ایشیا ئی ریا ستوں کے گہرے مراسم ہیں۔ پاکستان کیلئے ان کے دلوں میں میں کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔ یہ ایسے حقائق ہیں جن کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔ان سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ایران اور ترکی کے دانشوروں کا یہ کہنا ہے کہ یورپ کے ممالک جرمنی،فرانس اور برطانیہ کے درمیاں بھی پکی دشمنی تھی مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد وہ ایک دوسرے کے قریب آگئے، ان میں دوستی ہو گئی، یہ دوستی یورپی یونین کی صورت میں مستحکم ہوئی۔ ایشیا ،وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں ایسا کیوں نہیں ہوتا ؟ 100 باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ یہاں جہالت کا دور دورہ ہے وہاں علم ہے حکمت ہے اور کامیاب سفارت کاری علم و حکمت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اگر چہ اسلام اباد اعلامیہ کے ذریعے کوئی بڑا قدم نہیں اُٹھایا گیا تاہم ECO سکر یٹریٹ کے ذریعے اگلے3 سالوں میں چند ٹھوس کام ہونے چاہیں ورنہ اس نشست کو ’’آمدن و نشسن و گفتن و خوردن و بر خاستنن” کے سوا کوئی اور نام نہیں دے سکیں گے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button