کالمز

15اگست بمقابلہ19اگست

کہتے ہیں کہ کوئی منصب محترم یا نامحترم نہیں ہوتا، اس کا انحصار اہل منصب پر ہوتا ہے۔۔۔۔

چربی۔۔۔۔ ایک حد کے بعد دل، دماغ اور آنکھوں پر چڑھنے لگتی ہے۔۔۔۔۔

انصاف کے حصول سے لے کر بلوں کی ادائیگی تک لگی ہوئی لمبی، لمبی قطاریں دارصل ہماری اجتماعی بدنصیبی کی قطاریں ہیں۔۔۔۔۔

اور یہ بھی سنا ہوگا یا پڑھا ہوگا اگر نہیں تو میں آپ کو بتادیتا ہوں کہ۔۔۔ محبت ہی نہیں، حکومت بھی اس نرم و نازک پرندے کی طرح ہوتی ہے، جس کے بارے میں محاورہ مشہور ہے کہ ’’زور سے پکڑو گے تو مرجائے گا، ڈھیلا چھوڑو گے تو اڑ جائے گا۔‘‘ یعنی محبت ہی نہیں ، حکومت قائم رکھنا بھی بہت نازک کھیل ہے اور تنے ہوئے رسے پر چلنے بلکہ پل صراط پر ٹہلنے کے متراد ف ہے۔۔۔۔۔

اور جس کسی نے بھی کہا ہے ، کیا خوب کہا ہے کہ ’’تشدد کے بغیر جبراور ضعفکے بغیر نرمی ایک اچھی حکومت کی علامت ہے۔‘‘

لیکن رونا یہ ہے کہ ایسے نازک، گہرے ور حکیمانہ فلسفے ہمارے حکمران طبقات کیلئے بالکل بیکار ہیں۔۔۔۔۔

اب اصل موضوع کی طرف رخ کرتے ہیں۔۔۔۔

عوامی ایکشن کمیٹی نے 15اگست کو شٹرڈاؤن ہڑتال کی کال دی تھی، آغا راحت اور قاضی نثار احمد نے اس شٹرڈاؤن ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا تھا، دونوں مذہبی رہنماوں کے بیانات تمام اخبارات کے صفحہ اول پر نمایاں طور پر شائع ہوچکے تھے اور حمایت کے اعلان کے ساتھ ہی سب کو اندازہ تھا کہ ہڑتال کی کال کامیاب رہے گی۔۔۔۔۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن عوامی ایکشن کمیٹی کے ذمہ داروں سے مذاکرات کے لئے کمیٹی تشکیل دے کر معاملات کو کم از کم اس حد تک درست کرسکتے تھے کہ شٹرڈاؤن ہڑتال 15اگست (ہندوستان کی یوم آزادی) کی بجائے کسی اور دن تک موخر کرکی جائے۔۔۔۔

اس بات سے کوئی انکار کرے گا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر گلگت بلتستان میں تاریخی شٹرڈاؤن ہڑتال ہوئی؟۔۔۔۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات سے کوئی متفق ہو یا نہ ہو۔۔۔۔۔ اس بارے میں متضاد رائے موجود ہے اور رہے گی لیکن حکمرانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ کسی علاقے، کسی ضلعے، کسی گاؤں میں پیدا شدہ بے چینی کے اسباب ڈھونڈے۔۔۔۔ اپنے چند معاحبین کے ساتھ بیٹھ کر عوامی ایشوز پر احتجاج کرنے والوں کے بارے میں ریمارکس دینا کہ ’’فلاں کی حیثیت کیا ہے، فلاں تواپنے ذاتی ایجنڈے پر کام کررہاہے۔۔۔اس کے اپنے محلے والے بات نہیں سنتے ہیں، یہ طرز عمل افسوسناک ہے۔

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اس شہر کے وسط میں رہتے ہیں، ان کا حلقہ بھی ہے، جعفر اللہ خان ڈپٹی سپیکر ہیں، ڈاکٹر اقبال صوبائی وزیر تعمیرات ہیں، ارمان شاہ گلگت بلتستان کونسل کے ممبر ہیں، دونوں معاونین خصوصی کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے تو پھر بعض حلقوں میں یہ سوال اٹھ رہاہے تو کیا غلط ہے کہ جب بھی کوئی مشکل صورتحال درپیش ہوتی ہے تو عوام کے منتخب نمائندے غائب ہوجاتے ہیں اور میدان کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔

بعض حلقوں کا خیال ہے کہ15اگست کو نریندر مودی نے بلوچستان اور گلگت بلتستان کے بارے میں ریمارکس دیئے، 15اگست کو مقبوضہ کشمیر کے عوام نے یوم سیاہ منایا جبکہ15اگست کو گلگت بلتستان میں شٹرڈاؤن ہڑتال رہی، کیا یہ ہڑتال ہندوستان کے خلاف تھی؟ اگر ہندوستان کیخلاف نہیں تھی تو سیاسی قیادت کا فرض بنتا تھا کہ وہ ہڑتال کی کال دینے والوں کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کرتے۔۔ ۔۔

دوسرا سوال یہ اٹھایا جارہاہے کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اپنے وزراء، پارلیمانی سیکریٹریز، پارٹی کے سینئر رہنماوں اور ممبران قانون ساز اسمبلی کو اعتماد میں لے کر15اگست کی شٹرڈاؤن ہڑتال کو ناکام بنانے کیلئے حکمت عملی بناتے جبکہ ایسا نہیں ہوا۔۔ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ وزیر اعلیٰ تمام وزراء، اراکین قانون سازاسمبلی اور پارٹی کے سینئر رہنماوں کو واضح ہدایات کے ساتھ اپنے اپنے حلقوں کیلئے روانہ کردیتے کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے شٹر ڈاؤن ہڑتال کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔۔۔۔۔

تمام تر توجہ کا مرکز گلگت شہر تھا، وزیر اعلیٰ، دو معاؤنین خصوصی، ڈپٹی سپیکر، ممبر گلگت بلتستان کونسل اور صوبائی وزیر تعمیرات کو ہمت کرکے آگے آنا چاہئے تھالیکن ایسا نہ ہوسکا۔۔۔۔۔۔

15اگست کو پورے گلگت بلتستان میں تاریخی شٹرڈاؤن ہڑتال رہی ،او ر سیاسی قیادت اور صوبائی حکومت کے پاس سوائے بیانات دینے کے اور کچھ نہیں تھا۔۔۔۔

19اگست کو گلگت بلتستان کے عوام نے بھارتی وزیر اعظم کو واضح الفاظ میں بتادیا کہ گلگت بلتستان میں کوئی ایسا مائی کا لعل نہیں جو مملکت خداداد پاکستان کیخلاف کوئی ایک لفظ بھی زبان پر لائے۔۔ 19اگست کو گلگت بلتستان کے تمام اضلاع کے لوگ نریندر مودی کیخلاف سڑکوں پر نکل آئے اور ثابت کردیا کہ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ15اگست کی شٹرڈاؤن ہڑتال پاکستان کے خلاف تھی، ہڑتال کیلئے15اگست کی تاریخ مناسب نہیں تھی لیکن مطالبات جائز تھے اور15اگست کو مطالبات کے حق میں شٹرڈاؤن ہڑتال کرکے ہم نے اپنے ہی ملک کے حکمرانوں سے اپنے جائز حقوق مانگے ہیں، کسی غیر سے نہیں۔

مجھے 15اگست بمقابلہ 19اگست دونوں میں پاکستان سے والہانہ محبت کا اظہار نظر آیا لیکن حکمران کہیں نظر نہیں آئے۔

جمشید خان دکھی کے ان تازہ اشعار کے ساتھ اجازت:۔

راز کیا مولا ہے بتادے دل نادان کو

موت کیوں آدمی کو دی اور زندگی شیطان کو

موت سے مرتے ہیں کم بے موت مرجاتے ہیں لوگ

کچھ اماں مل جائے دنیا میں بشرکی جان کو

کون ہے ان وحشیوں میں اے خدا نائب تیرا

دیکھنے کا شوق ہے میرا بھی اس انسان کو

خود عمل مسلم کا ہے اب باعث شرمندگی

کفر سے ہر گزدکھی خطرہ نہیں ایمان کو

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button