کالمز

سیّا حوں کی جنت وادئ نلتر میں چند روز – ١

وادئ نلتر کی قدرتی رعنائیوں ، جادوئی جھیلوں ، دلفریب آبشاروں ، ٹھنڈے میٹھے چشموں ، نیلگوں بل کھاتے گُنگُناتے ندی نالوں ، گھنے جنگلوں ، جنگلی خوشبودار پھولوں اور منفرد گلیشیئرز کی سیر و سیاحت کی روداد گلگت بلتستان کے قلم کار اشتیاق احمد یاد ؔ کے اس سفر نامے میں ۔

تحریر: اشتیاق احمد یادؔ ۔ گلگت 

گرمیوں کے موسم میں وقتاً فوقتاً ہم دوست سیر و سیاحت کے لئے گلگت بلتستان کی دلفریب وادیوں کا رخ کرتے ہیں ۔ جہاں نہ صرف قدرتی حُسن سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ وہاں کی ثقافت اور سماجی و معاشی صورت حال کو سمجھنے کی سعی بھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اکھٹے سفر کرنے اور ساتھ رہنے سے چھوٹی موٹی کدُورتیں دور ہوجاتی ہیں اور ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے ۔

New Image18اِمسال ہم نے گلگت بلتستان کی حسین و جمیل وادی ’’ وادئ نلتر ‘ ‘ جانے کا فیصلہ کیا ۔ یہ وادی ضلع گلگت میں واقع ہے ۔ گلگت شہر سے قریب ترین سیرگاہوں میں سے یہ حسین ترین سیرگاہ ہے ۔ اس کی بے پناہ دلکشی کی وجہ سے اسے ’’پاکستان کا سوئٹزر لینڈ ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ وادئ نلتر دنیا کے مشہور پہاڑی سلسلہ ’’ سلسلہ ء قراقرم ‘‘ پر واقع ہے ۔ نلتر پائین ، نلتر بالا اور نگرے اس کے اہم گاؤں ہیں ۔

گلگت بلتستان کے دارالخلافہ اور ہیڈ کوآرٹر ’’ گلگت شہر ‘‘ سے نلتربالا کا فاصلہ 40کلومیٹر ہے ۔ گلگت شہر کے شمال کی جانب یونیورسٹی روڈ سے ہوتے ہوئے براستہ وادئ نومل ، نلتر پائین اور نلتر بالا پہنچنا پڑتا ہے ۔ گلگت سے نلتر پائین تک سڑک پکی ہے جہاں تک تقریب سوا گھنٹہ کا سفر ہے ۔ وہاں سے آگے سڑک کچی اور قدر ے دشوار گزار ہے ۔ جہاں سے نلتر بالا تک پندر ہ بیس منٹ کا سفر ہے ۔ ہم دوستوں نے وادئ نلتر میں تین دن قیام کا فیصلہ کیا اور اس کیلئے 29, 28, 27جون 2013ء کی تاریخیں طے کیں ۔ دوتین دن پہلے اس پروگرام کی منصوبہ بندی کی اور انتظامات کو حتمی شکل دی ۔ روانگی سے قبل گلگت کے بازار سے اشیائے خوردونوش کی خریداری کی۔ بالآخر 27جون کی سہ پہر تین بجے گلگت سے اپنی منزل کی جانب رختِ سفر باندھ لیا ۔ ہم دوستوں کا گروپ عاصم بشیر، محمد جمیل ، طفیل عباس، قاسم ولی اور راقم پر مشتمل تھا۔ چونکہ سڑک کافی دشوار گزار اور چڑھائی پر مشتمل ہے ۔ اس لئے ہم نے اپنے دوست قاسم ولی کی Wills Jeepمیں نلتر جانے کا فیصلہ کیا۔ یوں تین روز تک یہ جیپ شریکِ سفر رہی ۔ امریکہ کی بنی ہوئی یہ جیپ Four Wheel Driveہے اور اس میں اسپیشل گیر بھی ہوتا ہے ۔ جس کی وجہ سے یہ انتہائی دشوار گزار اور کچی سڑکوں پر بھی خوب دوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ جبھی تو اسے ’’پہاڑوں کی شہزادی ‘‘ کہا جاتا ہے ۔

1045077_475637939196357_446658804_nہم براستہ یونیورسٹی روڈ اور نومل روڈ سے ہوتے ہوئے وادئ نومل پونے چار بجے پہنچے۔ وہاں ایک ہوٹل میں چائے پی اور گاڑی میں سوار ہوکر نلتر کی جانب چل دیئے۔ آگے بڑھتے ہوئے وادئ نومل سے بائیں جانب نلتر نالے میں داخل ہوئے ۔ یہ دو پہاڑوں کے درمیان کافی تنگ نالہ ہے جہاں بائیں جانب سڑک بنی ہوئی ہے ۔ نالے میں پہنچتے ہی آب و ہوا تبدیل ہوئی ۔ ہم دوست کبھی سنجیدہ گفتگو کرتے ، کبھی طنز و مزاح اور کبھی گنگناتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے اور سفر کو انجوائے کر رہے تھے ۔ نلتربالا سے پہلے نلتر پائین کے قریب ’’ نلتر ہائیڈرو پروجیکٹ ‘‘ کے پاور ہاؤسز اور عمارتیں بنی ہوئی ہیں ۔ اس پروجیکٹ کی پیداوار 18میگا واٹ ہے ۔ جس سے ضلع گلگت اور دیگر کئی علاقے بجلی کی نعمت سے مستفید ہوتے ہیں۔ چین کے تعاون سے بنائے گئے اس منصوبے سے موسم گرما میں وافر مقدار میں بجلی حاصل ہوتی ہے جبکہ سردیوں میں اس کی پیداوار بہت کم ہوجاتی ہے ۔ جس کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ کی اذیت جھیلنی پڑتی ہے ۔ تقریباً چار بج کر دس منٹ پر ہم نلتر پائین سے گزرے ۔ نلتر پائین شرح خواندگی اور سماجی و معاشی ترقی کے اعتبار سے نلتر بالا سے کافی آگے ہے۔ کچھ ہی دیرمیں کچی سڑک اور چڑھائی شروع ہوئی۔ جس میں قاسم نے کمالِ مہارت سے گاڑی چلائی ۔ اس دوران ہم نے دیکھا کہ کافی تعداد میں کاریں بھی نلتر کی طرف جارہی تھیں ۔ مگر روڈ کی ناگفتہ بہ حالت اور چڑھائی کی وجہ سے انہیں سخت دشواری کا سامنا ہورہا تھا ۔ یہاں تک کہ چڑھائی عبور کرنے کیلئے دو یا تین سواری کار سے اترکر کار کو دھکے دے رہے تھے ۔ تب جاکے بڑی مشکل سے کاریں چڑھائی عبور کر رہی تھیں ۔ بس ذرا سی تبدیلی کے ساتھ ایسا کچھ موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ بھی ہورہا تھا ۔ یہ سیاح ایسا نہ کرتے بھی تو کیا کرتے ۔۔۔ آگے دلکش نظار ے نظریں بچھائے ان کے منتظر تھے ۔ ہم تقریباً پانچ بجے نلتر بالا کے ابتدائی حصہ میں داخل ہوگئے ۔ یہاں داخل ہوتے ہی ہمارے احساسات و جذبات میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی ۔ کیونکہ واقعتا گھنے جنگل ، ترو تازہ سبزہ ، گنگناتی ندیاں ، جھرنے ، دل و آنکھوں کو لبھانے والے آبشار اور ناچتے کھیلتے بادل نظریں بچھائے ہمیں خوش آمدید کہنے منتظر تھے۔ہم لطیف احساسات و جذبات اور مسرورکن کیفیات کے ساتھ ان نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے نلتر بالا کے مرکز پہنچے ۔ یہاں قلیل تعداد میں دکانیں اور ہوٹلز ہیں جبکہ کافی تعداد میں مقامی لوگوں کی رہائش گاہیں ہیں ۔ نلتر بالا کے درمیان سے نلتر کا خوبصورت نالہ بہتا ہے ۔ یہ گاؤں سطح سمندر سے تقریباً 8000فٹ بلندی پر واقع ہے۔

بلتر بالا کے مشرق کی جانب مقامی آبادی ، دوکانیں ، ہوٹلز اور کھیت کھلیاں ہیں ۔ یہاں کی مقامی زبان گوجری ہے ۔ لوگوں کا ذریعہ معاش زیادہ تر کاشتکاری ہے ۔تاہم شعبہء سیاحت بھی انکم کا ذریعہ ہے۔ یہاں کے آلو ذائقے اور بناوٹ کے اعتبار سے بہت مشہور ہیں ۔ کاروباری حضرات انہیں بڑے بڑے شہروں میں لے جا کر فروخت کرتے ہیں ۔ صحت عامہ کی صورتحال ابتر ہے اور تعلیمی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے شرح خواندگی بھی قابلِ رحم ہے جبکہ غربت کی یہ صورتحال ہے کہ تقریباً 65فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے (Below poverty line) زندگی گزار رہے ہیں، سخت سردی اور برفباری کے باعث سردیوں میں لوگ یہاں سے نلتر پائین یا گلگت ہجرت کرتے ہیں ۔ یہاں کا مشہور جنگلی پرندہ رام چکور اور جنگلی جانور مارخور ہے ۔

نلتر بالا کے مغرب کی جانب نالے سے اس پار نگرے کا ایریا ہے ۔ جو قدرتی حُسن کے اعتبار سے لاجواب ہے ، گھنے درخت ، سرسبز و شاداب گھاس سے ڈھکا ڈھلوان ، بل کھاتے گنگناتے ندی نالے ، انگڑائیاں لیتے ہوئے آبشار ، ٹھنڈے میٹھے چشمے ، خالص اور صحت بخش ہوا اور ذرا سے فاصلے پر اُوپرکی جانب دلفریب گلیشیئرز اور برف ۔۔۔۔یہاں متنوع قسم کے قدرتی مناظر گویا بامِ عروج پر ہیں اور انسانوں کو لطف اندوز ہونے کا بھر پور سامان فراہم کرتے ہیں ۔ جنوب کی جانب نلترپائین ہے ۔ جہاں سے گزرتے ہوئے ہم نلتر بالا پہنچے تھے ۔ جبکہ شمال کی جانب نلتر کی جادوئی جھیلیں، گلیشیئرز اور مشہور درّے ہیں۔ جس کی وجہ سے موسم گرما میں یہاں موسم بڑا معتدل اور خوشگوار رہتا ہے ۔ آج کے روز یعنی 27جون 2013ء کو یہاں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 15ڈگری سینٹی گریڈ رہا جبکہ گلگت میں تقریباً 30ڈگری سینٹی گریڈ اور پاکستان کے بڑے شہروں میں تقریباً 35سے 38ڈگری سینٹی گریڈ رہا ۔

(جاری ہے)

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button