کالمز

منفی سوچ سے معذرت۔۔ ۔۔۔۔!

خبر کچھ یوں تھی کہ شہر کے کچھ علاقوں میں قحبہ خانے کھل گئے اور کھلے عام جسم فروشی کابازار گرم ہونے لگا ، پڑھ کر افسوس بھی ہوا اوراس رپورٹر کی اس حرکت پرحیرت بھی ہوئی۔ نہ جانے کیوں مجھے ایسے میں اس گھناونے فعل میں ملوث خواتین پر ترس آنے لگا، جو اپنا تن بیچ کر دو وقت کی روٹی کھانے پر مجبور ہیں۔ شعبہ صحافت کے ساتھ ایک عشرہ بیت گیا ایسی کئی خبریں ہماری نظر سے بھی گزریں لیکن آج تک ہم اسے رپورٹ نہیں کر سکے کیونکہ ایسے میں ہمیں اپنی روایات اور معاشرتی قدروں نے پابند سلاسل کر دیا، اس طویل عرصے میں ایک ہی بات جو ہم نے سیکھی وہ یہ تھی کہ کسی کی پگڑی اچھالنے کے بجائے سجانے کی زیادہ کوشش کی جانی چاہیے اور منفی صحافت سے پرہیز کرتے ہوئے مثبت صحافت کو پروان چڑھایا جائے، حالات بدل گئے ہیں اور حالات کے ساتھ ساتھ خبروں کے انداز بھی بدل گئے ہیں ۔ کسی کے عزت نفس کو مجروح کرنا کہاں کی صحافت ہے اس رپورٹر کی دیدہ دلیری تو دیکھیں کہ اس نے باقاعدہ شہر کے کچھ پوش علاقوں کی بھی نشاندہی کر ڈالی جہاں ان قبہ خانے چلانے والوں کے علاوہ معزز لوگ بھی رہتے ہیں ۔

یہ بات تو سچ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی عورت خوشی سے جسم فروشی جیسے کاروبار سے منسلک نہیں ہوتی خواہ وہ یورپ کی مدر پدر آزاد کوئی خاتون ہی کیوں نہ ہو،کوئی نہ کوئی مجبوری ایسی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایک عورت اپنے تن کا سودا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ اسلام میں اس کام کو حرام قرار دیا گیا ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ اسلام میں کسی کے عیب پر پردہ ڈالنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ ایسی خواتین جو اس فعل میں واقعی ملوث ہیں کیا کسی نے ایسی خواتین کو اسلام کی تعلیمات کے حوالے سے تبلیغ کی ؟ کیا کسی نے انکی مالی حالت بہتر بنانے کیلئے کوئی کردار ادا کیا؟ کیا ریاست نے ایسی خواتین کو با عزت روزگار فراہم کیا؟ کیا معاشرے کے کسی فرد نے ایسی خواتین کے سر پر ہاتھ رکھا ؟ نہیں بلکہ ہوس کے پجاری اپنی آگ بجاتے رہے ، انہیں قابل نفرت اور اچھوت سمجھا گیا ، تبلیغ کرنے کے بجائے طرح طرح کی گالیاں دی گئیں ۔آخرکیوں ہم مرض کے بجائے مریض کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں ؟

یہاں آج کوئی اپنا تن بیچتا ہے تووہ ہمیں بہت برا لگتا ہے اور جو اپنے من کا سودا چند نوٹوں کے عوض کرتا ہے اسکی معاشرے میں بڑی عزت اور واہ واہ ہے۔ میرے نزدیک کرپشن کے ذریعے من کا سودا کرکے حرام کی کمائی کھانے والوں میں اور تن کا سودا کرنے والوں کی کمائی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ ایک کرپٹ سیاست دان یا بیوروکریٹ اپنا ضمیر بیچ کر دولت کماتا ہے توسب کی چپ لگ جاتی اور اگر یہی کام جسم فروشی کے ذریعے پیسے کمانے والے کرتے ہیں تو ہم سرخیاں لگاکر داد وصول کرتے پھرتے ہیں ۔

شاید میری باتیں زیادہ تر لوگوں کو ہضم نہ ہوں لیکن سچ ہمیشہ کڑا ہوتا ہے ،اور نہ ہی میں منٹو کے متنازعہ افسانوں سے متاثر ہو کر ایسی باتیں کر رہا ہوں، نہ ہی میں ایسے گھناونے فعل کو کوئی اچھا کام سمجھتا ہوں ۔ خبر ہی کچھ ایسی تھی کہ مجھے مجبورا لکھنا پڑا کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ یہاں جسم فروشی کے کاروبار سے منسلک افراد معاشرے کیلئے ناسور بن جائیں۔ بلکہ ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ایسے شعبے سے منسلک خواتین کو راہ راست پر لایا جائے اور انہیں معاشرے کا با عزت شہری بنایا جائے تاکہ ان کے شر سے کئی نسلیں تباہ ہونے سے بچ سکیں۔ آج ایک خبر چھاپ دی اگلے دن تفتیشی آفیسر خبر کی کٹ پیس لیکر نشاندہی کئے گئے اڈوں پر پہنچ جائے گا اور اپنا حصہ وصول کر کے واپس آجائے گا،قبہ خانے بند نہیں ہونگے، بے راہ روی اور بڑھے گی ، کیونکہ یہاں ضمیر کا سودا کرنے والوں کی تعدا د جسم کا سودا کرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔زیادہ سے زیادہ چھاپے کے ڈر سے جسم فروشی کرنے والے اپنی جگہ چھوڑ دینگے لیکن اپنا پیشہ کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ اور یوں معاشرے میں یہ ناسور پھیلتا ہی رہیگا۔

ہمیں معاشرے میں موجود برائیوں کا خاتمہ کرنے کیلئے مثبت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہی کہ مریض کو نہیں بلکہ مرض کو ختم کرنے کیلئے عملی طور پر معاشرے کے تمام افراد کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ایسے افراد جو جبرا خواتین کو ایسے گھناونے کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں انکی نشاندہی کر کے ایسے عناصر کوقرار واقعی سزا دینے کی ضرورت ہے۔ جسم فروشی سے منسلک خواتین کو نفرت اور سختی سے روکنا ناممکن ہے بلکہ ایسی خواتین کی مجبوریوں کا ازالہ کر کے ہی انہیں راہ راست پر لایا جاسکتا ہے۔توبہ کا دروازہ کسی کیلئے بند نہیں ہوا یہ ہم انسان ہی ہیں جو دوسروں کیلئے بند کرنے کے درپے ہیں۔ انہیں موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنے لئے ایک اچھی اور خوشگوارزندگی کی شروعات کر سکیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

ایک کمنٹ

Back to top button