کالمز

خدارا… انتشار سے بچیں!

ملک عزیز کے موجودہ حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہر آدمی اپنی اپنی ڈیڑ ھ انچ کی مسجد بنائے۔عجیب افراتفری اور نفرت کا دور آیا ہے کہ نہ سچ کا پتہ چلتا ہے نہ جھوٹ کا۔ ایسے میں انسان کو تعلیمات خداوندی اور فرامین رسول ﷺ کی طرف ہی رجوع کرنا چاہیے۔ قرآن و حدیث کا مطالعہ بتاتا ہے کہ امن عالم میں ہی مسلمانوں کی ترقی کا راز مضمر ہے مگر یہاں تو مسلمان ہی امن کی دھجیاں اڑار ہے ہیں۔نفرتوں کے ڈھول اتنے پیٹے جاتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ سچ کیا ہے کہ سلجھ کر سجھائی نہیں دیتا۔ہمارے دانشور اور نظریہ ساز طبقہ محبت کی بیج بونے کے بجائے نفرت کی فیکٹریا ں تعمیر کررہے ہیں جو یقیناًقابل نفرت ہیں۔ایک دوسروں کے غمی کے ایام میں اظہار غم کے بجائے خوشی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں۔ تقابل ادیان کا گہرا مطالعہ کے بعد یہ نکتہ واضح سمجھ آتاہے کہ اسلام و ہ واحد دین ہے کہ جس نے’’خلقُ اللہ‘‘ سے محبت کا درس دیا ہے۔ خلقُ اللہ میں صرف انسان شامل نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ تمام مخلوق شامل ہے۔کتب حدیث کی معروف کتاب ’’مشکوٰۃ شریف‘‘ میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے ارشادکیا ہے کہ’’الخلق عیا ل اللہ ،فاحبُ الخلقِ الی اللہ من احسنَ الی عیالہ‘‘۔تمام مخلوق اللہ تعالٰی کے متعلقین میں سے ہیں۔ پس مخلوق میں اللہ تعالیٰ کو وہ شخص زیادہ محبوب و عزیز ہے جو اس کے متعلقین(خلقُ اللہ) کیساتھ اچھا سلوک کرے۔حدیث مبارکہ سے واضح درس ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ تمام چیزیں قابل احترام ہیں اور قابل محبت بھی۔ آج مغرب انسانیت کے ساتھ جنگلی حیات تک کے حقوق کی بات کرتا ہے مگر یہ سب تو ہمارے آقائے نامدار ﷺ بہت پہلے ارشاد کرچکے ہیں۔کاش ! اسلام کے نام پر ایک دوسروں کا گلہ کاٹنے والے انسانوں کو کچھ سمجھ آجاتا ۔جس نبی کا کلمہ پڑھا جاتا ہے جس نبی اور اس کے آل واولاد پرد رود و سلام بھیجا جاتا ہے آج اس نبی کے امتی آپس میں دست گربیاں ہیں۔ آخر کیوں؟ ہم اپنے کیے کو غیروں کی سازش قرار دیکر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں سیاسی و مذہبی لیڈروں کے بیانا ت سن کر اور دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔یا تو آپس میں دست گریباں ہیں یا تمام تر ذمہ داری بیرونی بلکہ مغربی دنیا پر ڈال کر اپنے فرائض سے سبکدوش ہیں۔مانا کہ مغرب کا قصور ہے مگر اتنا بھی تو نہیں جتنا ہم راگ آلاپتے ہیں۔

ہمارے ہاں عجیب قسم کے رویے پائے جاتے ہیں۔ہمارا ایک سُقراطی طبقہ سمجھتا ہے کہ ہم ہی قصور وار ہیں۔ ہماری تباہی و بربادی میں مغرب بالخصوص امریکہ کا کوئی قصور نہیں۔ہم لوگوں نے تعلیمات نبوی ﷺ کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔اپنے کیے کا ادراک ہمیں نہیں، چیک اینڈ بیلنس سے ہمیں سروکار نہیں۔اندھوں کی طرح اپنی تنزلی اور بربادی کا نزلہ مغرب پر گرادیتے ہیں ۔ دوسرا افلاطونی طبقہ سمجھتا ہے کہ نہیں جناب یہ سب کچھ مغرب کا کرتا دَھرتا ہے۔ وہ اسلام اور اہل اسلام کا ازلی دشمن ہے ، وہ منظم طریقے سے اسلام اور مسلم ریاستوں کے خلاف سازشیں کرتا ہے۔ان کے املاک کو ہتھیا لیتا ہے۔ ان کے حکمرانوں کو خریدتا ہے اور وسائل کو قبضہ کرلیتا ہے۔ ان کی دین و تہذیب کو بگاڑنے کے درپے ہے. اور ہر چیز کا ذمہ دار مغرب، مغربی تھنک ٹینک اور بلخصوص امریکہ ہے. 

ان دو متشدددانہ طبقات کے درمیان ایک غالبا معتدل طبقہ بھی ہے جو سمجھتا ہے کہ مسلم امہ اپنے اعمال کی خود ذمہ دار ضرور ہے مگر یہ بھی اٹل ہے کہ مغرب بھی انحطاطِ امت کے لیے ہمہ وقت کوششیں کرتا رہتا ہے۔اور امت کی تباہی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔تاریخ کامطالعہ و مشاہدہ بتاتا ہے کہ کافی حدتک یہ بھی سچ ہے۔مگر یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ اجتماعی طور پر ہم مسلمانوں نے اپنا احتساب کرنا چھوڑ دیا ہے۔ راہ اعتدال سے ہٹ رہے ہیں۔اسلامی تہذیب و تمدن کے بجائے مغربی ثقافت وجمہوریت کا دلدادہ بن چکے ہیں۔مسلم امہ کی تباہی و بربادی میں جتنا مغرب ملوث ہے اتنا ہی مسلم امہ خود بھی قصوروار ہے ۔مسلم امہ بالخصوص مخلص اہل دانش و فکرکو اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔اس حقیر کی رائے میں آج مغرب کا علمی دنیا میں مقابلہ کی اشد ضرورت ہے شاید جس کا ادراک نہیں کیا جارہا ہے۔ہمیں تو اتنا بھی اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ ہمارا سرکون کاٹ رہا ہے اور ہمارے معصوم شہریو ں کو کون بموں سے اڑا رہا ہے۔ بس ہم ایک دوسروں کو بدنام کیے جارہے ہیں۔پشاور میں چرچ پرحملہ ہو یا کراچی کی امام باڑوں میں خون کے لوتھڑے بکھرے۔جامعہ تعلیم القرآن میں قرآن جلے، معصوم طلبہ ذبح کیے جائے۔ عام شہریوں کو موت کا گھاٹ اتار دیا جائے ۔ہر صورت میں ہم یا تو ایک دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں یا پھر غیروں کی بلکہ مغرب کی سازش یا تخریب کاری کہہ کرگہری نیندسوتے ہیں۔ اے کاش ! ہم اس نام نہاد مفروضے سے نکل کر واقعاتی حالات کا ادراک کرتے۔گہرا تجزیہ کرتے اور اس کے نتائج کی روشنی میں کوئی خوبصورت معاشرتی زندگی کے لیے کوئی ضابطہ اخلاق طے کرتے اور عمرانی معاہدہ تشکیل دیتے۔ مانا کہ مغرب کی سازشی تھیوری زوروں پر ہے مگر یہ سازشی تھیوری خود ایک ناقابل تردید سازش ہے۔مغرب خود کچھ کرے یا نہ کرے اس سازشی تھیوری کے ذریعے ہمیں الجھا کر ضرور رکھتا ہے۔خودمغرب نے مسلم امہ کو یہ باور کروایا ہے کہ یہی سب ہم کررہے ہیں حالانکہ حقیقت ایسا نہیں۔ آئیں اس سے باہر نکلتے ہیں۔

حدیث شریف میں آتاہے کہ ’’ المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ‘‘مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرامسلمان محفوظ و مامون رہے۔ تو کیا ہماری زبان اور ہاتھوں سے دوسرے محفوظ ہیں؟ پھر مغربی تھیوری چہ معنی دارد۔دوسری جگہ ارشاد ہے کہ’’ والمؤمن من امنہ الناس علی دماۂم واموالہم‘‘ مومن وہ ہے کہ جس سے لوگوں کا مال و جان محفوظ رہے۔ تو کیا ہم سے دوسروں کی مال وجان محفوظ ہے؟ پھر مغرب پر کیا الزام۔آپ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کا جتنا مطالعہ کروگے اتنا ہی آپ پر حقیقتیں منکشف ہوتی جائیں گی اور انسانی دنیا پر مسلمانوں کا عروج و زوال سمجھ آجائے گا۔مگر ہمیں تو اس کی فرصت کہاں ہے۔ بس گھر بیٹھے ایک بیان جاری کردیا کہ یہ سب کچھ مغرب کا کرتا دھرتا ہے۔خوف خدا کیا جانا چاہیے۔اپنے اندرسے مکر وفریب کے شیاطین کو نکالا جائے، حقیقت پسندی کا مظاہر ہ کیا جائے۔تزکیہ نفس کا اہتمام کیا جائے۔ اپنے مسائل اور محرومیوں کا گہرا تجزیہ کیا جائے اور ماقبل کی انحطاطی صورتوں سے بچنے کی تدابیر کی جائے اور ا پنی کوتاہیوں اور غلطیوں پر اڑ جانے کے بجائے ان سے سیکھا جائے اور ساتھ ساتھ اغیار کی خرمستیوں کا علمی و عملی تعاقب کیا جائے تو کوئی بات نہیں کہ ہم پر زوال کے سونامی آجائے۔

گلگت بلتستان کے عوام سے ایک اپیل ہے کہ وہ ہر مشکل میں تعلیمات اسلامی کا دامن پکڑے۔خدارا! اس علاقے کو نفرتوں کا دارالخلافہ نہ بنایاجائے۔ امن کی خاطر اگراپنی انا کی تسکین نہ بھی ہوجائے توکوئی مضائقہ نہیں۔علاقائی امن کے لیے ہر ایک کو اپنی انا کا بت توڑنا چاہیے ۔ہر سانحہ کے بعدباوثوق اطلاعات یہی گردش کرتی ہیں کہ اس میں صف اول کا کردار اہل گلگت نے ہی ادا کیا۔ کیوں اے گلگیتیو! تمہیں کیا ملتا ہے ایسا کرنے سے؟سانحہ لالو سر ہوا تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ گلگت والے ملوث تھے۔ تعلیم القرآن جل کر خاکسترہوا تو اطلاعات گردش کررہی ہیں کہ دستہ اول گلگیتیوں کا تھا، کیوں آخر کیوں؟اگر آپس میں تنازعہ ہو تو حکم خدا یہی ہے کہ قرآن کی طرف رجوع کیا جائے۔یعنی اللہ اور اس کے رسول کی طرف۔ آخر ہم قرآن کو اپنا حَکم کیوں نہیں مانتے؟یہاں ایک اہم بات نوٹ کی جائے کہ فیس بک میں عجیب وغریب تصاویر پوسٹ کی جاتیں ہیں۔ ان سے صرف نفرت ہی فروغ پاتا ہے۔ ایسی چیزوں سے گریز کیا جانا چاہیے۔اور ضروری بات یہ ہے کہ فرضی ناموں سے نفرت بھری پوسٹس قابل نفرت ہیں ۔ یقیناًان کا ازالہ ہونا چاہیے اور دوسروں کے نا موں سے یا فرضی ناموں سے اسلام کی ایسی خدمت انجام دینے سے گریز کیا جانا ہی سب کے حق میں بہتر ہے ۔کیا یہ بھی مغربی سازش ہے۔یاد رہے کہ مغرب اور فکرِ مغرب خدا دشمن ،مذہب دشمن، وحی دشمن ،اسلام دشمن اور روایات دشمنی پر مبنی ایک مکمل تہذیب ہے۔ مگر اے دعویدارانِ اسلام! تم تو توحید پرست،عشق رسول ﷺ، خوف آخرت، سزا و جزا، عفت و حیا،توکل، تفکر وتدبر،قناعت و عزیمت،حاملین قرآن و حدیث،عشاق نبی و آل نبی ہو ، تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم مغرب سے بھی دس ہاتھ آگے جاچکے ہو۔اگر تم اسلام کی ان اعلیٰ صفات و اخلاقیات کا پَرتو نہیں بننا چاہتے تو نہ بنو مگر اسلام ہی کے نام پر، رسولؑ ہی کے عشق پر، حسنؓ وحسینؓ ہی کے نام پر،قرآن ہی سے استدلال کرکے، حدیث ہی کا سہارا لے کر،فقہاء کرام کا ہی نام لے کر،روایات اسلامی ہی پر تکیہ لگاکر کیوں آپس میں دست وگریباں ہو؟ کیوں غیروں کا آلہ کار ر بنے ہوئے ہو؟کیوں ایک دوسروں کو ذبح کررہے ہو؟ کیوں آخر کیوں؟کیا یہ بھی آپ کو مغرب نے سکھایا ہے یا مغرب کی سازشی تھیوری ہے کہ خدا، رسول، ابوبکر، فاروق ، عثمان و علی ، حسن و حسین کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کرو۔ اوراس پر مستزاد قرآن و حدیث سے دلیل پکڑو۔خدارا! بچو اس انتشار سے ورنہ سب کو سر پکڑ کررونا پڑے گا ایک دن۔ اور بچو اس دن سے اور اس کی خوفناکیوں سے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو. 

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button