کالمز

میرے دیس کے بچے

شیرزمان

کائنات میں ہر چیز کی ابتدا بہت ہی خوبصورت، معصوم اور جازب نظر ہوتی ہے لیکن اختتام اتنا ہی بیانک اور سبق آموز. کوئی بھی جاندار جب اس دنیا میں آتا ہے تو وہ ایک جسم ہوتا ہے لیکن معاشرے میں موجود پرورش کے مراحل اسے وہ کچھ بنا دیتے ہیں جو وہ اپنی آخری سانس تک بن چکا ہوتا ہے. سو، زمیں پر انے سے لیکر جانے تک ہر جاندار  مسلسل جسمانی اور شخصی ارتقاء کے عمل میں ہوتا ہے اور آخرکار اس سفر میں کہیں کھو جاتا ہے.کھونے کے اس عمل کی پہلی سیڑھی پر چڑھتی ہوئی چیز کو “بچہ” کہا جاتا ہے. اقوام متحدہ  کے مطابق دنیا میں 18سال سےکم عمرکا انسان “بچہ” کہلاتا ہے. اسطرح پاکستان کی آدھی آبادی(%53) بچوں پر مشتمل ہے. دنیا بھر کے بچے انسانی حسن و جمال  کی خوبصورت ترین عکاس ہیں. بچوں کو پوری دنیا میں بہت زیادہ پیار و محبت دی جاتی ہے اور ان کے لئے بہت سارے حقوق ترتیب دے جاتے ہیں. کئی ممالک اپنے بچوں کو تمام تر حقوق دیتی ہیں اور اس وقت تک ان کا خیال رکھتی ہیں جب تک وہ ریاست سے وابسطہ اپنے فرائض ادا کرنے کے قابل نہ ھوں. جس طرح اچھی ماں نہ صرف ایک بچے کو جنم دیتی ہے بلکہ اسے ایک کامیاب انسان بھی بناتی ہے اور بری ماں صرف ایک بچے کو جنم دینے کا فریضہ انجام دیتی ہے، اسی طرح ایک اچھی ریاست اپنے بچوں کے حقوق کا نگہبان ہوتی ہے اور ناکام ریاست اپنے بچوں سے شناخت کےعلاوہ تمام حقوق چھین لیتی ہے. دنیا میں کئی ایسی بدبخت ریاستیں ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان ان میں سے ایک ہے، جہاں بچے بندر تماشہ ہیں اور پل پل انہیں حقوق کی گالیاں دی جاتی ہیں. بچے یہی گالیاں سن سن فطرت کے اصولوں کی گود میں قدرت کے سہارےزندگی کا سنہرا دور بچپن، کاٹ لیتے ہیں اور جوان ہو کر غیور، باشعور اور غیرت مند شہری بنتے ہیں.

ہم اپنے آس پاس گومتی شور مچاتی اس چوٹی چوٹی مخلوق کو دیکھتے ہیں اور خوش ہونے کے ساتھ ساتھ نادم شرمندہ اور حسد بھی کرتے ہیں کہ ہم پر سے زمانے نے انسانیت کا رنگ اتار دیا لیکن ان پر ابھی بھی یہ رنگ سلامت ہے. ہمارے ملک میں بچوں کو مختلف اوقات میں کئی قسم کے ٹیکے لگتے ہیں جن کا اثران کی پوری عمر کو کھاجاتی ہے.جب ایک بچہ آنکھ کھولتا ہے تو ریاست اسے پہلا ٹیکا بیرونی قرضوں کی شکل میں دیتی ہے جس کی ہر بچے کے لئے حقیر سی قیمت  80000 روپے ہے. یہ ٹیکا  بچے کو ایک خاص مقام اور رتبہ بخشتی  ہے جو اسے اسکے نام یعنی شناخت سے پہلےملتا ہے جس سے اس کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ لگا لیں کہ ہمارے ملک میں ہر بچے کا پہلا نام مقروض یا بکاری  ہے. اس کے بعد اسے والدین بڑے بڑے  ناموں سے پکارتے ہیں جو کہ سرا سر اس پہلے رتبے کے ساتھ ناانصافی ہے.پھراس کے نام کے ساتھ خاندان کا نام بھی لگا کر اس معصوم کو خاندانی جاہ و جلال کے منوں بھوج تلے دبایا جاتا ہے کہ یہ اس خاندان کا سپوت ہے حالانکہ  اگر خاندانی پس منظر کا جائزہ لیا جائے تو کہیں کوئی ایسا فردنہیں ملتا جس سےغلطی سےبھی، اپنی ذات سے باہر انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی کام سرزد ہوا ہو. پوری خاندانی تاریخ یا تو انگریزوں یا دیسی حکمرانوں کے درباریوں یا خادموں کی فہرست سے بھر پور نظر آتی ہے سو اسطرح دوسرا  ٹیکا یعنی “خاندانی ٹیکا” بچے کو لگ جاتا ہے جو اسے اپنے خاندان پر فخر کرنے، اسکی روایات کو بجالانے کی خصوصیات سے لبریز کردیتا ہے اور اسے ایک ایسی آنکھ عطا کرتا ہے کہ جس سے اسے اپنے خاندان میں سب کچھ درست نظر اتا ہے اور اس دائرے سے باہر ہر چیز اجنبی اور نفرت آمیز دکھتی ہے.اس ٹیکے کا بنیادی مقصد بچے کو غیر خاندانی بیماریوں مثلآ خاندان سے باہر کسی اچھے انسان، قوم یا نظام کی قابلیت، لیاقت، شخصیت اور احترام کو تسلیم کرنے سے بچانا ہے جس سے خاندانی تاج کو زنگ لگنے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے.

دوسری طرف جب بچہ زبان سیکھنے کے مرحلے میں داخل ہوتا ہے تو اسے تیسرا ٹیکا لگتا ہے. ادھر بیچارہ اگر کسی پڑھے لکھے گھرانے میں ھو تو اغیاری انگریزی اور پیاری مادری زبان کے ٹیکے لگنے شروع ہوجاتے ہیں. بچے میں چونکہ ایک وقت میں ایک ہی زبان سیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے اسلئے وہ ان دونوں بلکہ بعض اوقات تین تین زبانوں کو مکس کردیتا ہے اور زبان جو سیکھنے کی پہلی سیڑھی ہے اس پہ ہی اندھے کی طرح رواں دواں ہوتا ہے.اگر کوئی کسی غریب انپڑھ گھرانے میں آنکھ کھولے تو وہ مادری زبان کے بھنور میں ایسے پھنستا ہے کہ عمر بھر ایک ہی حصار میں چکر لگاتارہتا ہے کیونکہ والدین اور معاشرہ کبھی بھی آپس کی گفتگو میں بچوں کی موجودگی کا خیال نہیں رکھتے یا اس بات سے اگاہ ہی نہیں ہیں کہ بچہ سیکھنے کے عمل میں ہے اسلئے الفاظ کے چناؤ میں احتیاط برتنی چاہئے نتیجتاً بچے کی تربیت میں بچپن ہی میں  وہ الفاظ اور انداز شامل ھوجاتے ہیں جو بلوغت میں ہونے چاہییں، اسطرح بچہ عمر اور معاشرتی تربیت کے لحاظ سے وقت کے شدید تناؤ کا شکار ہوتا ہے جس سے شخصیت میں کئی خالی جگہیں رہ جاتی ہیں جو جب جب، جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے تب تب بھرتی جاتی ہیں اور تربیت سدھرتی چلی جاتی ہے

  بچے کی مضبوط ذہنی اور جسمانی نشورنما کے لئے اچھی خوراک کی اہمیت ایسی ہے جیسے کسی پودے کے لئے زرخیز زمین کی اور پرندے کے لئے طاقت پروازکی لیکن یہاں بھی ریاست اپنے بچوں کو صحت مند خوراک فراہم کرنے سے اسطرح قاصر ہے جس طرح بنجر زمین فصل دینے سے.سو ہمارے بچوں کو غیر متوازن اور گندی خوراک کا ریاست کی طرف سے چوتھا  ٹیکا  لگایا جاتا ہےاور ہمارا معاشرہ اپنے مستقبل کے معماروں کو ملاوٹ شدہ غذا دے کر ان کی بنیاد ہی کو کھوکھلا کر کہ رکھ دیتا ہے. ملک میں ہر سال پیدا ہونے والے 1000 بچوں میں سے 86 بنیادی صحت اور صاف خوراک نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کے پہلے 5 سالوں میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں اسطرح پاکستان 5 سال سے چھوٹے بچوں کی اموات میں پوری دنیا کے 5 چوٹی کے ممالک میں شامل ہے. خوراک کا تعلق براہ راست اچھی صحت سے ہے سو کمزور غذا بیمار جسم کو جنم دیتی ہے اور بیمار جسم کا علاج کرنے کے لئے ریاست اپنے بچوں کے لئے جعلی دوائیوں، ڈاکٹرو ں، حکیموں اور صحت کی سکیموں  کے ساتھ ہر وقت حاضر رہتی ہے. اسوقت ملک میں صرف 168288 MBBS ڈاکٹرز اور 13830 رجسٹرڈ ڈینٹسٹس ہیں.اسطرح 988 لوگوں کے لئے ایک ڈاکٹر دستیاب ہے جب کہ بین ال اقوامی معیار کے مطابق 1000لوگوں کے لئے 200 ڈاکٹرز ہونےچاہییں جس سے ریاست میں صحت کی سہولیات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے سو اسطرح بچوں کو اچھی صحت کا پانچواں ٹیکا لگ جاتا ہے.

تربیت کے اس سفر میں تعلیم اور تعلیمی اداروں پر بہت بڑی ذمداری عاید ہوتی ہے.ہمارا ائین 5 سال سے  16سال تک کے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتا ہے اور ہم بین ال اقوامی اداروں  کے مختلف اوقات میں تعلیم کے حققوق کے حوالے سے منعقد کئے گئے اجلاسوں میں تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے کا عہد  بھی کر چکے ہیں اور حال ہی میں یونیسکوکی  بین ال اقوامی مہم  تعلیم سب کے لئے اور یو این ڈی پی کی” ملینیم ڈیولپمنٹ گولز”  میں بھی ہم نے تعلیم عام کرنے کی ٹھانی ہےلیکن حققیت یہ ہے کہ ہم 66 سالوں میں %66 شرح خواندگی حاصل نہ کرسکے. ہمارے ملک میں 29 قسم کے تعلیمی بورڈز اور کئی قسم کے مختلف نظام تعلیم ہیں جن میں  کیڈٹ کالج ، فوجی فاؤنڈیشن ، برٹش کونسل ، آغا خان اور دینی مدارس شامل ہیں. ریاست میں اسوقت 220.8 لاکھ  پرائمری اسکول کے بچے ہیں جن میں سے 80.3 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں. جس سے پڑھے لکھے پاکستان کا خواب عذاب بن کر رہ گیا ہے. لیکن جو اس وقت تعلیمی اداروں میں ہیں وہ بھی تعلیم کےاصل مقصد سےمستفید نہیں ہورہے ہیں. ان تمام تعلیمی اداروں اور ان سے ملحکہ بورڈز میں کہیں تو بچے کو، جس نے ابھی اس دنیا میں آنکھ کھولی ہوتی ہے، آنے  والی دنیا کے لئے تیار کیا جاتا ہے تو کہیں اس دنیا کے لئے، ایک طرف اسے اچھا مسلمان بنایا جاتا ہے تو دوسری طرف اچھا انسان، یہاں اگر مجاہد بنانے کے لئے اسکی خراش تراش کی جاتی ہے تو وہاں ایک فوجی بنانے کے لئے گیت، ترانے، توپ، میزائیل، وردی، ڈنڈااور کہانیوں میں غیرت کا تڑکا لگا کر اس کے خون میں غیر فطری طور پر حب الوطنی کا خمیر ڈالا جاتا ہے، کہیں دین کے ٹیکے دنیا کے خلاف لگتے ہیں تو کہیں دنیا کے ٹیکے دین کے خلاف لیکن کسی ایک میں بھی دونوں میں توازن نہیں رکھا جاتا کیونکہ کچھ غلطیاں ٹھیک ہونے میں نسلوں کی عمر درکار ہوتی ہے اور یہ ان میں سے ایک ہے. بچے کے ذہن میں ایک رخ، کتاب سے باہر جھانکنے کے راستے بند کرتی ہے تو دوسرا کتاب کے اندر وسوسے کا شکار ہے.ہمارا نظام تعلیم تقسیم در تقسیم کرتے ہوۓ بچوں کو کئی  غیر متعین منزلوں پہ لا کر دم لیتی ہےاور جب وہ معاشرے میں آپس میں ملتے ہیں تو ایسا لگتا ہے مختلف کیمیکلز اپس میں ایک نہ ختم ہونے والا بے معنی اور لا حاصل عمل کر رہی ہوں.اسلئے اس پرچم کے ساۓ تلے ایک ہونے کے خواب کی تعبیربھی آغا وقارکے پانی سے گاڑی چلانے کے خواب کی تعبیر کی طرح بیانک ہوگیا ہے اور ہوتا چلا جا رہا ہے. اتنی زیادہ رکاوٹوں اور مشکلات سے لڑھ جگڈھ کر جب کوئی بچہ انھیں عبور کر کہ اس بوجھ سے نکل کر آزاد پنچھی بنتا ہے تو وہی کچھ کر گزرتا ہے جسے ہمارا معاشرہ وقتی طور پر بغاوت سمجھتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ہمارے ہیروز تصور کیے جاتے ہیں۔

ہمارے ملک میں بچے اس حال میں بچپن گزار کر جوانی میں پوھنچتے ہیں. یہ زندگی کے ان حسین دنوں میں زمداریوں کے بوجھ تلے ایسے دبتے ہیں جیسے پہاڑ تلے زمین. انہیں،معاش، خاندان، زبان، خوراک، صحت اور تعلیم کے زہریلے ٹیکے تو متواتر لگتے رہتے ہیں لیکن پولیو اور دوسری مہلک بیماریوں کے خلاف تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا.یہ بچے تمام تر حقوق شکنی کے باوجود فرائض کی ادائیگی کو یقینی بناتے ہوۓ اپنی زندگی کے لئے لڑتے ہیں اور ان میں سے کچھ دوسروں کی زندگیوں کو خوبصورت بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں. ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست ان بچوں کو بنیادی حقوق یعنی اچھی غذا، صحت، تعلیم، کھیلنے کے مواقع اورمعیشت کو کندھا دینے سے پاک خوبصورت بچپن عطا کرے.اگر اتنے خراب حالات میں ایسے اچھے بچے پیدا ہوتے ہیں تو مجھے امید ہے کے اگر ان بچوں کو اچھا ماحول اور تربیت دی جائے تو ان میں سے ہر بچہ ریاست کی تقدیر کے افق پر ایک روشن ستارہ بن کر اپنی روشنی سے پوری انسانیت کو مستفید کریگا۔ 

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

ایک کمنٹ

  1. "ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
    آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا”
    کے مصداق ابھی اور بہت سے ٹیکے لگنے ہیں۔ بہت خوبصورت لکھا ہے جناب۔

Back to top button