کالمز

گلگت بلتستان کی پر امن قومی تحریکیں

تحریر: انجینئر منظور پروانہ

سیاست میں تشدد کا عنصر کسی نہ کسی شکل میں اپنا وجود رکھتی ہے۔ کچھ سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مفادات کے حصول اور تحفظ کے لئے با قاعدہ اور دانستہ طور پر عسکری ونگ تشکیل دیتی ہیں ۔ جوتحریکیں محروم و محکوم قوموں کی بنیادی و انسانی حقوق یا آزادی کے لئے بر سر پیکار ہوتی ہیں ان سیاسی جماعتوں کا با قاعدہ عسکری ونگز ہوتے ہیں جو پر تشدد کاروائیوں کے ذریعے قابض ریاستوں یا جابر حکمرانوں سے اپنی نجات کا راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں ، اور وہ جماعتیں اس تشدد کو اپنا قانونی و اخلاقی حق سمجھتے ہیں ان کا نظریہ ہوتا ہے کہ اپنے حقوق کے حصول کے لئے ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کرنا چائیے ۔ریاست بھی ریاست کے اندر ابھرنے والی ہر طرح کی تحریک کو کچلنے کے لئے تشدد کا راستہ اختیار کرتی ہے اور تشدد کا جواب تشدد سے ہی دیا جاتا ہے۔ ریاستیں ترقی پسند اور حریت پسند تحریکوں کو دبانے کے لئے مختلف حکمت عملی اور پالیسیاں مرتب کرتی ہیں جس میں سخت قسم کے قوانین بنانا سر فہرست ہوتاہے، ریاست قومی و عوامی تحریکوں کو کچلنے کے لئے غداری اور دہشت گردی کے قوانین کے ذریعے تحریکیوں کو قید و بند کی اذیتیں دیتی ہیں انہیں ماورائے عدالت اور جعلی مقابلوں میں بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارے جاتے ہیں، یا انہیں دوسرے ملکوں میں پناہ گزینی پر مجبور کرتے ہیں۔ حریت پسندوں اور حکومتوں کی یہ جنگ دنیا کے کم وبیش تمام ملکوں میں کسی نہ کسی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے۔لیکن ان تمام مشاہدات اور روزمرہ واقعات کے بر عکس دنیا میں ایک ایسا خطہ بھی موجود ہے جو اپنی تمام تر بنیادی و انسانی حقوق کی محرومیوں کے با وجود ریاست کے سب سے زیادہ وفادار سمجھے جاتے ہیں، اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ یہ قوم اپنی غلامی سے نہ صرف خوش ہیں بلکہ غلامی کے لئے آسان شرائظ بھی پیش کرتے رہتے ہیں یہ خطہ گلگت بلتستان کہلاتا ہے ، جو وسطی ایشائی ریاستوں سے متصل بر صغیر پاک و ہند، وسطی ایشیائی ملکوں اور چین کے سنگم پر واقع ہے ۔

گلگت بلتستان 2ملین آبادی پر مشتمل ایک ایسا خطہ ہے جو دنیا کے کسی بھی ملک کا آئینی طور پر حصہ نہیں اور نہ ہی اس خطے کا اپنا کوئی آئین و قانون ہے،یہ خطہ انتظامی طور پر Manzoorپاکستان کے زیر انتظام ہے ، یہاں پاکستان کے قوانین کا اطلاق جزوی طور پر ہوتا ہے اور یہاں کے عوام اپنی تمام تر انسانی بنیادی و جمہوری حقوق سے محروم ہونے کے باوجود پاکستان سے بے لوث محبت کرتے ہیں ، ان کا یہ خیال ہے کہ ہمیں حقوق نہ دینا ریاست پاکستان کی عظیم تر مفاد میں ہیں اس لئے ہمیں چاہئیے کہ ہم حقوق مانگ کر ریاست کے مفادات کو نقصان نہ پہنچائے ، اکیسویں صدی کے اس بے آئین سر زمین پر کچھ محب وطن اور ترقی پسند افراد جنم لے چکے ہیں جو اپنے بنیادی و انسانی حقوق کی باتیں کرتے ہیں جبکہ ریاستی ادارے اور مقامی آبادی انہیں\” قوم پرست \”اور\” اینٹی سٹیٹ\” سے پکارتے ہیں ۔ ان افراد کو \” قوم پرست\” اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ گلگت بلتستان کے لوگوں کو ایک محروم قوم سمجھتی ہیں اور ان اس قوم کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتے ہیں ،\” اینٹی سٹیٹ\” اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ پاکستان سے اپنے حقوق مانگتے ہیں اور پاکستان کو اپنے حقوق سے محروم رکھنے کا الزام دیتے ہیں کیونکہ پاکستان سے اپنا جائز حقوق مانگنا عام آدمی کی نظر میں ریاست کی مخالفت کے مترادف ہیں ، سرکاری مشنری نے یہاں کے لوگوں کی اس طرح سے تربیت اوربرین واش کی ہے کہ پاکستان سے حقوق کا مطالبہ کرنا جرم سمجھا جاتاہے اور اس جرم کے مرتکب افراد کے لئے خصوصی قوانین بنائے گئے ہیں جو وقتا فوقتا گلگت بلتستان کے قوم پرستوں اور ترقی پسندوں پر آزمائے جاتے ہیں۔

پاکستان کی آئین اور آئینی حقوق سے متعلق ایک قانونی دفعہ124A موجود ہے ، اس دفعہ کے مطابق پاکستان کے شہری یا باشندے اگر آئین پاکستان سے متصادم کوئی کام کرے تو وہ قابل مواخذہ ہے ۔ آئین کے اندر ذکر تمام حقوق کی سہولت موجود ہونے کے باوجود ملک کے خلاف کام کرنے پر اس شہری کے خلاف اس دفعہ کے تحت کاروائی ہوتی ہے یہ دفعہ غداری کا دفعہ بھی کہلاتا ہے۔ یہ قانون پاکستان کی اسمبلیوں نے پاکستان کے آئینی شہریوں کو محب وطن بنا کر رکھنے کے لئے وضع کیا ہواہے لیکن اس قانون کا اطلاق پاکستان میں کم و بیش ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی حصہ نہ ہونے اور یہاں کے لوگ آئینی طور پر پا کستان کا شہری نہ ہونے کے باوجود غداری کا یہ قانون گلگت بلتستان کے عوام کے لئے مختص ہیں۔

اس وقت گلگت بلتستان کے درجنوں سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں پر دفعہ124A کے تحت غداری کے مقدمات درج ہیں اور سینکڑوں کارکن قید و بند کی صہوبتیں جھیلنے کے بعد عدالتوں سے باعزت بری ہو چکے ہیں۔ جن قوم پرست اور ترقی پسند سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں پر جنہیں ملک دشمن کہہ کر غداری کے مقدمات بنائے گئے ان میں بالاورستان نیشنل فرنٹ کے نواز خان ناجی، عبدالحمید خان، علی حیدر تاج، صفدر علی، منظور شاہ، بشارت شفیع، سید حیدرشاہ رضوی ، قراقرم نیشنل موؤمنٹ کے افسر جان، شہید غازی انور، افتخار حسین گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ کے منظور پروانہ،غلام شہزاد آغا، ترقی پسند گروپ کے رہنما باباجان اور کامریڈ امیرخان کے علاوہ سینکڑوں افراد شامل ہیں ۔ ان میں سے اکثر افراد مقدمات سے با عزت بری ہو چکے ہیں ۔ ان افراد کا مقدمات سے بری ہونے کی وجہ عدالتی رعایت یا سیاسی سمجھوتا نہیں بلکہ پاکستان کا قانون ہے کیونکہ گلگت بلتستان کے باشندے پاکستان کا آئینی شہری نہیں لہذا دفعہ124A کے تحت گلگت بلتستان کے باشندوں کے خلاف مقدمہ نہیں بنتا۔تاہم اس حقیقت سے آگاہی ہونے کے باوجود افتخار حسین گزشتہ دو سالوں سے سلاخوں کے پیچھے ہیں ، منظور پروانہ اور بابا جان جیل سے رہائی کے بعد کئی سالوں سے عدالتوں میں اپنے خلاف قائم بے بنیاد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں ۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ منظور پروانہ پر الزام ہے\” کہ انہوں نے کرگل سکردو تجارتی روڈ کوکھولنے کامطالبہ کیا ہے ،جو کہ ملک سے غداری ہے\’، \” باباجان افتخار حسین اورکامریڈ امیرخان پر عطا آباد ہنزہ کے متاثرین کی آباد کاری کے لئے احتجاج کرنے کا الزام ہے۔ جو کہ پاکستان سے غداری ہے\”۔ قوم پرست اور ترقی پسند رہنماؤں کو اس طرح کے اوچھے مقدمات میں الجھائے رکھنے اور ہراساں کرنے کا مقصد عوام کو اپنے حقوق کی جد و جہد سے خوف زدہ رکھنا ہے تاکہ ریاست اپنے سٹیٹس کو کو برقرار رکھ سکے اور خطے کے وسائل کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ باز گشت شدو مد کے ساتھ سنائی دیتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور مذہبی پارٹیاں نہ صرف عسکری ونگ رکھتے ہیں بلکہ خودکش اور ٹاگیٹ کلرز بھی رکھتے ہیں ،ملک کے آئین میں موجود تمام سہولتیں میسر ہونے کے باوجود سیاسی و مذہبی جماعتوں کی دہشت گردانہ واقعات پاکستان کا سیاسی کلچر بن چکا ہے۔ لیکن پاکستان کی سیاسی ماحول کا ایک خاص اثر ہونے کے باوجود گلگت بلتستان کی قومی تحریک اب تک کی دنیا کی مثالی اور پر امن سیاسی تحریک ہے، ان قومی تحریک کے اندر تشدد کا عنصر سرے سے ہی موجود نہیں ،قوم پرست جماعتیں گزشتہ دو عشروں سے انتہائی سرگرم عمل ہیں اور تحریکی ساتھیوں پر تشدد اور ظلم و زیادتیوں کے پہاڑ توڑے گئے ہیں، جیلوں اور ٹارچر سیلوں سے گزارے گئے ہیں ، ان تمام اذیتوں سے گزرنے کے باوجود گلگت بلتستان کی قومی تحریکوں سے وابسطہ کسی فرد کے خلاف چاقو رکھنے کا کیس نہیں اور نہ ہی دفعہ 144 کی خلاف ورزی کا مقدمہ ہے۔ کوئی بھی کارکن کسی معمولی نوعیت کے مجرمانہ کیس میں ملوث نہیں رہے ہیں ۔ اس پر امن قومی حقوق کی جدو جہد اور بے مثال حریت پسندی دنیا کے دوسرے تحریکوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ گلگت بلتستان کے قوم پرستوں اور ترقی پسندوں کی پر امن جد و جہد سعی لاحاصل نہیں کیونکہ تشدد کی سیاست کے ذریعے جلدی مقاصد کی تکمیل سے پرامن جد و جہد کے ذریعے تاخیر سے منزل مقصود تک پہنچنے میں ہی بھلائی ہے۔

حکومت پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے زیر انتظام متنازعہ خطہ گلگت بلتستان کی اس پر امن سیاسی تحریک کا رخ تشدد کی طرف موڑنے کے لئے حالات پیدا کرنے بجائے یہاں کے سیاسی کارکنوں پر قائم غیر قانونی سیاسی مقدمات ختم کرتے ہوئے ان کے ساتھ با مقصد مذاکرات کئے جائیں اور گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے جائز بنیادی و انسانی حقوق دینے کے لئے اقدامات کئے جائیں ۔ گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا سلسلہ بند کرے اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کی حوصلہ شکنی کرے۔ اگر ریاست اور ریاستی ادارورں سے برسر پیکار مسلح تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو اپنے حقوق کے لئے پر امن اور غیر مسلح جد و جہدکرنے والے گلگت بلتستان کی قو م پرست تحریکوں کی جائز مطالبات مان لینے میں کیا حرج ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button