کالمز

نوروز – تاریخ اور ارتقا

نوروز فارسی زبان کے دو الفاظ’’ نو‘‘ یعنی’’ نیا‘‘ اور’’ روز‘‘ یعنی’’ دن‘‘ کا مرکب ہے بہت سارے ادبی اورتاریخی حالات وواقعات اور اصطلاحات کی طرح ’’نوروز‘‘ کی ابتدا کے متعلق کوئی واضح موقف موجود نہیں مختلف اسکالر ز نے اپنی اپنی روایات کے مطابق نوروز کی ابتدا اور ترقی سے متعلق مختلف نظریات دیئے ہیں مشہور کردش اسکالر اورشاعر یاسین عارف اپنی ایک مضمون میں’کرد ‘ روایات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سینکڑوں برس قبل کردستان میں ’’زہاک‘‘ نام کا ایک ظالم و جابر حکمران ہوا کرتا تھا جس کے دونوں کندھوں میں سانپ اُگ آئے تھے جنکی خوراک انسانی دماغ تھا ’’زہاک‘‘ روزانہ کرد قوم کے دو افراد کو قتل کر کے مغز ان سانپوں کو کھلاتے تھے اسی قوم میں’’ کاوا‘‘ نام کا ایک شخص بھی رہتا تھا جس کے تین بیٹے تھے بادشاہ کے حکم پر دو بیٹوں کو سانپوں کی خواراک بنائی گئی جب تیسرے بیٹے کی باری آئی تو انہوں نے انکا رکر دیا اور عوام میں اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ترغیب دی اس کے قوم نے ان سے کہا کہ کیا آپ ہماری قیادت کر سکتے ہیں تو ’’کاوا‘‘نے اس مطالبے کو تسلیم کیا اور ایک بڑے جلسے کی صورت میں ’’زہاک‘‘ کے قلعے کی طرف مارچ شروغ کی قلعہ پہنچنے کے بعد دروازہ توڑتے ہوئے اندر داخل ہوئے اور ظالم’’ زہاک‘‘ کا کام تمام کر دیا یاسین عارف کے مطابق چونکہ اس دور میں کمیونیکشن کا کوئی خاض نظا م موجود نہیں تھاکہ اس خبر کو عوام تک پہنچائی جائے اس لئے انہوں نے اونچے ٹیلوں میں جا کر آگ لگا دی اور ’’زہاک ‘‘کی ہلاکت پر خوشی میں ناچنے گانے لگے اس کے بعد ہر سال’’ نوروز‘‘ کو کرد قوم جشن آزادی کے طور پر مناتے ہیں۔

unnamedنامور ایرانی اسکالر ڈاکٹر علی شریعتی لکھتے ہیں ’’ یہ (نوروز)کائنات کا جشن ہے زمین کی خوشی ،سورج اور آسمان کی تخلیق کادن۔وہ عظیم فاتح دن جبکہ ہر ایک مظہر پیداہواترقی کی اور خوشحالی حاصل کرتے ہیں‘‘،جبکہ شیعہ مکاتب فکر کے لٹریچر کے مطابق نوروز کے دن ان کے پہلے امام حضرت علیؓ کی تاج پوشی ہوئی تھی ۔ایک اور روایت یہ موجود ہے کہ اسی دن عظیم فارسی شہنشاہ جمشید کی تخت نشینی ہوئی تھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسی دن کائنات تخلیق ہونے کے بعد پہلی مرتبہ اپنی حرکت شروع کی تھی۔ تمام روایات اپنی جگہ یہ بھی حقیقت ہے کہ فارسی زبان ،ادب اور تہذیب کے اثرات دنیا کے بیشتر حصوں میں نمایاں نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ تین ہزار سال سے جاری یہ تہوار اب بین الاقوامی حیثیت اختیارکی ہے آج تقریباََ ساری دنیا میں اس دن کو عقیدت واخترام سے منایا جاتا ہے ایران کے علاوہ بہت سارے ممالک میں نوروز کو سرکاری طور پر منایا جاتا ہے افعانستان،البینا ،آزربائجان،جارجیا،کوسوو،کرغزستان،ازبکستان،ایران،عراق،قازقستان،تاجکستان،ترکمانستان،عراقی ترکستانوغیرہ میں نوروز کے دن سرکاری چھٹی ہوتی ہے اس کے علاوہ دنیا کے جن خطوں پر فارسی تہذیب کے اثرات پڑے ان میں بھی یہ تہوار کسی نہ کسی صورت زندہ ہے پاکستا ن کے شمالی علاقے(گلگت بلتستان اور چترال) بھی زمانہ قدیم سے فارسی تہذیب کے زیرسایہ رہی یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں کی زبان ،ثقافت اور لباس وغیرہ میں اس تہذیب کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں یہاں کے بعض علاقوں میں جشن نوروز ثقافتی ا ور مذہبی عقیدت سے اب بھی منائی جا رہی ہے اگرچہ ان علاقوں میں اس تہوار کی آغازسے متعلق کوئی مستند لٹریچر موجود نہیں یہاں کے لوک روایات میں نوروز کو پیدائش کائنات اور حضرت علیؑ کی تاج پوشی کا دن قرار دیتے ہیں چترال کے بعض حوالوں میں لکھا ہے کہ سابقہ ریاستی دور میں نوروز ریاستی طور پر منایا جاتا تھا اسی دن بہار کی آمد کی خوشی میں پولو کا میچ ہوتا جس کو دیکھنے کیلئے مہتر چترال بھی گراؤنڈ میں تشریف لے جاتے مختلف قسم کے روایتی کھانے پکائے جاتے تھے اور رات کو محفل موسیقی ہوتی تھی روایتی کھانے بالخصوص نوروز کے دن تیار ہوتے ان میں خوبانی کے خشک میووں کو پانی میں بھگو کر بنائی گئی خورراک(چمبوروغ)،چترالی حلوہ(کلیل شوشپ)جسمیں دودھ ملاکر کھایا جاتا ہے ’’ڑیگانو‘‘ اور خشک میوے قالب ذکر ہے چترال اور گلگت بلتستان کی ثقافت میں دودھ کی اہمیت و تقدس کسی سے پوشیدہ نہیں خو شی کے موقعوں پر دودھ کا استعمال(اشپری) اب بھی ہوتا ہے چترال میں نوروز سے ایک ہفتہ قبل بدھ کے روز گھر،چاردواری اور پورے محلے کی صفائی کی جاتی ہے نوروز کے دن صبح سویرے سب گھر والے اٹھ کر نماز پڑھتے ہیں اس کے بعد گھر کا سربراہ ’’جو ‘‘کے آٹے سے گھر کی ڈیکوریشن (پھتاک)کرتے ہیں جو نوروز کی خاض علامت ہوتی ہے پھر سربراہ گھر سے باہر جا کر برامدے میں بھی تھوڑی بہت آرائش کرنے کے بعد جب واپس آتے ہیں تو گھر کے دروازے کو بند کر کے اندر سے پوچھا جاتا ہے کہ کون ہے تو جواب ملتا ہے ’’میں ہوں نوروز‘‘ گھر کے اندر سے پھر پوچھتے ہیں کیا لائے ہیں ؟ اسکے جواب میں کہاجاتا ہے کہ’’ میں اپنے ساتھ خوشحالی،ا ھی فضل،تندرست و توانا صحت ،دولت اور بچوں اور بچیوں کے لئے خوش قسمتی لیکر آیا ہوں گھر سے تمام بلائیں اٹھوانے آیا ہوں‘‘ تب دروازہ کھول کراسے اندر آنے دیا جاتا ہے گھر میں داخل ہوتے ہی تھوڑا آٹا دروازہ کھولنے والے کی پیشانی میں بھی ڈال دیتے ہیں جس کو یہاں کی روایت میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اس کے بعد سب گھر والے مل بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں ایکدوسرے کو نئی سال کی آمد کی مبارک باد دیتے ہیں اس دن دہقان کھیت میں جاکر کام کا آغاز کرتے ہیں یاد رہے نوروز کی آمد سے پہلے زمینوں میں کام کرنے کو بد شگونی تصور کیا جاتا ہے ۔اگر کوئی کسان نوروز سے پہلے کھیتوں مین کام کی شروغات کرے تو ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے اور یہ بھی کہاجاتا ہے کہ نوروز سے پہلے کام شروغ کرنے سے سال بھر بندے کو فرست نہیں ملتی ۔

جشنِ نوروز کا آغاز آج سے تین ہزار برس قبل ہوا تھا ترقی کے مختلف مدارج طے کرتے ہوئے اب یہ تہوار باقاعدہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکی ہے اقوام متحد ہ کی جنرل اسمبلی نے 2010ء میں نورو ز کو انٹرنیشنل فیسٹول قرا ر دیا اس موقع پر ایران نے خصوصی ڈاک ٹکٹ کا اجرا کیا جو کہ پہلی انٹرنیشنل نوروز ڈے منعقدہ تہران 27مارچ 2010کو ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کی موجودگی میں عوام کو جاری کر دی گئی اس موقع پر احمدی نژاد کا کہنا تھا کہ’’ جشن نوروز نہ صرف کلچر کو پروموٹ کررہی ہے بلکہ یہ قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کے فروغ ،امن اور ایکدوسرے کو عزت دینے میں مدد دیتی ہے‘‘ اقوام متحدہ کے غیر محسوس تہذیبی وراثتوں کے انٹر گورنمنٹل کمیٹی 28ستمبر سے 2اکتوبر2009ء کو دبئی میں منعقدہ اپنے ایک میٹنگ میں نوروز کو سرکاری طور پر یونیسکو کے انٹینجیبل کلچرل ہیریٹج آف ہیومنیٹی کے ساتھ رجسٹرڈ کر دیا ۔30مارچ 2009ء کو کینڈین پارلیمنٹ نے اپنی اجلاس میں ایک بل پاس کرتے ہوئے نوروز کو قومی کلنڈر میں شامل کیااس کے ساتھ ہی امریکہ کے ایوان نمائندگان نے بل پاس کرتے ہوئے نوروز کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت کو تسلیم کیا ۔نوروز ایک ایسا مذہبی و ثقافی تہوار ہے جو اپنے ساتھ علم دوستی،مساوات اور بھائی چارگی کی روایات کے ساتھ طلوع ہوتا ہے ۔ 

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button