کالمز

وژن

تحر یر: اشتیاق احمد یاد

اندھیرے میں تیر چلانے سے ہدف پر نشانہ ہرگز نہیں لگ سکتا ہے۔ ایک عمیق مشاہدے کے مطابق ہمارے ہاں انفرادی، اجتماعی اور پیشہ وارانہ طور پر تقریباً نوے فیصد لوگ تیر اندھیرے میں ہی چلاتے ہیں۔ خال خال ہی ایسے لوگ اور ادارے موجود ہیں جو ایک وژن (Vision)سیٹ کرنے کے بعد طویل المدتی(long term ) ہدف(Target/goal )مقرر کرتے ہوئے پائیدار اور قابلِ عمل منصوبہ بندی (Planning) کرکے انتہائی انہماک،دیانتداری،عزمِ صمیم،خلوصِ دل اور جہدِ مسلسل سے اُس وژن اور ہدف کے حصول کے لئے کاربند رہتے ہیں اور راہِ عمل میں حائل رکاوٹوں اور چیلنجز کو ریت کی دیوار کی طرح گرا کر اپنا مقررہ ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ایک طالبعلم کو 5th اور10th کلاس کے درمیان مکمل شعور و آگہی ہونی چاہیئے کہ تیس چالیس سال بعد اس کی منزل کیا ہوگی۔اسی طرح ایک معلم،سائنسدان،ڈاکٹر،انجینئیر،وکیل،سماجی کارکن،سیاستدان،مذہبی رہنماء،لکھاری،شاعر،ادیب،صحافی، گورنمنٹ سرونٹ اورسب سے بڑھ کر ایک قوم کو بھی مکمل طور پر ہدف اور منزل کا معلوم ہونا ضروری ہے۔ذرا سوچیئے اور تجزیہ کیجئے کہ کیا متذکرہ بالا پیشہ وارانہ افراد اور ہماری قوم ایسا کر گزرتی ہے؟

Yaad بعض افراد منزل کی ایک دھندلی سی تصویر بنا تو لیتے ہیں یا ادھورا خواب بھی دیکھتے ہیں لیکن صاف ستھری تصویر نہ ہونے اور ادھورا خواب انہیں یا تومنزل سے دور لے جاتا ہے یا نیم منزل تک پہنچاتا ہے یاپھراصل منزل کے حصول میں ضرورت سے زیادہ جتن کرنے پر مجبور کرتا ہے۔منزل کی مکمل تصویر اور صاف شفاف خواب وقت،پیسہ،توانائی اور صحت چاروں بچاتا ہے۔اس تناظر میں آج بہت سارے افراد اور ادارے یا تو منزل سے مکمل محروم ہیں یا نیم منزل پر پہنچ کر جمود کا شکار ہیں۔البتہ انتہائی قلیل تعداد اصل منزل تک پہنچ چکی ہے۔

وژن (vision) بہت آگے (مستقبل میں) نظر آنے والا ایک مقام ہے۔جسے حاصل کرنے کی انسان کے اندر استطاعت موجود ہوتی ہے جو قابل حصول ہوتا ہے یعنی یہ منزل کی انتہائی آخری سطح ہے۔یہ دس، بیس، تیس،چالیس،پچاس،ساٹھ ،ستر،اسی ،نوے اور سو سال تک ہوسکتا ہے۔کوئی شخص ،ادارہ یا قوم ایک مشق (Exercise) جسےStrategic Visioning کہا جاتا ہے کے ذریعے یہ تعین کر سکتی ہے کہ وہ پچاس یا سو سالوں بعد کہاں کھڑا ہوگی۔مثلاً ایک انسان یہ وژن بنا سکتا ہے کہ وہ اتنے سالوں بعد ایسی ایجادات کرے گا جس سے کروڑوں بلکہ اربوں لوگوں کو فائدہ پہنچے ۔جیسے تھامس ایڈیسن نے بجلی ایجاد کر کے اربوں لوگوں کو فائدہ پہنچایا اور قیامت تک کھربوں لوگ فائدہ اُٹھاتے رہیں گے۔کوئی شخص عبدالستار ایدھی،مدر ٹریسا اور رُتھ فاؤ وغیرہ جیسے عظیم خدمت گار(Social Workers) یا ان سے بھی بڑھ کر رضا کار ) Volunteer/Social Worker ( بننے کا وژن سیٹ کر سکتا ہے۔کوئی فرد فلسفی(Philosopher)بننے کے لئے اپنے آپ کو تاقیامت امر کرنے والے فلسفیوں افلاطون،عمانیول کانٹ او ر محی الدّین ابنِ عربی وغیرہ کو سامنے رکھ کر تیس پینتیس سال کا وژن بنا سکتا ہے۔اسی طرح مختلف ادارے دنیا کے کامیاب ترین اداروں کو سامنے رکھ کر ان جیسے یا ان سے بہتر بننے کا وژن تیار کرسکتے ہیں۔بالکل اسی طرح ایک قوم دنیاکی کامیاب ترین قوموں کو دیکھ کر ان جیسے ہونے یا ان سے بھی بہتر ہونے کا وژن سیٹ کرسکتی ہے۔یہ کوئی انہونی بات نہیں۔پاکستان میں انتہائی کم تعداد میں انفرادی اور اداروں کی شکل میں ایسی مثالیں موجود ہیں جو ایک وژن بنا کر اس کے حصول کے لئے کمربستہ ہیں۔جبکہ دنیا کے کئی دوسرے سماجوں میں اس طرح کی زندہ و جاویداور شاہکار مثالیں موجود ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی ریاست اورحکومت نے پچاس یا سو سال کا وژن ترتیب دیا ہوا ہے؟۔کیا ہماری قوم نے مجموعی طور پر ایسا کرنے کی ٹھان لی ہے؟کیا ہمارے سرکاری و نیم سرکاری اداروں سمیت پرائیوٹ اور غیر سرکاری اداروں (NGOs) جن کو عُرفِ عام میں فلاحی یا سماجی ادارے کہا جاتا ہے نے ایسا کچھ کرنے کی زحمت کی ہے؟ کیاہمارے ملک میں انفرادی طور پر افراد نے اپنا اپنا وژن سیٹ کیا ہوا ہے؟

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ وہ کونسے عوامل (Factors )ہیں جو اس سلسلے میں امر مانع ہیں؟ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ اِس کا سیدھا سادھا جواب ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں Visionary سیاستدانوں کا شدید فُقدان ہے۔ ریاست کے کل پرزے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں کما حقہ پوری نہیں کر رہے ہیں۔آج تک ہم ایک قوم نہیں بن سکے ہیں۔ ہم ٹکڑوں بلکہ ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔اِس حال میں کیا خاک ہم ایک قوم بن سکتے ہیں ایک ریاست کے اندر سینکڑوں ریاستیں بنائی گئی ہیں اور ہر ایک نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی ہے۔ اِلّا ماشاء اللہ یہی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہماری قوم کا ’’وژن‘‘ ہے۔ دیگر عوامل میں نا خواندگی، بغیر روح کے تعلیم، اجتماعی کی بجا ئے انفرادی سوچ، بد عنوانی،دہشت گردی، شارٹ کٹ(Criss Cross) ، سیاسی عدمِ استحکام اور بُرا اور بیمار نظم و نسق(Bad Governance )وغیرہ شامل ہیں۔ 

مذکورہ بالا بُرائیوں اور بُری عادات اور رِوایتی سوچ کی بیخ کنی کئے بغیر ہم Visionary بن سکتے ہیں نہ دورِ دانش و بِنیش (Age of Wisdom )میں داخل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی دنیا کے مرکزی دھارے (International Mainstream)میں شامل ہو سکتے ہیں۔

رکھو بلند نظر یہی ہے رازِ حیات
رہو زمیں پہ مگر آسماں کی بات کرو

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button