کالمز

اپر چترال میں ضمنی انتخابات!ایک تجزیہ 

خدا خداکر کے ایک سال کی طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد وہ دن بھی آیا جب پاکستان کے سب سے پسماندہ ترین علاقہ سب ڈویژن مستوج سے صوبائی اسمبلی کے لئے رکن منتخب ہو ا،اتوار 13اپریل کو سب ڈویژن کے سات پولنگ اسٹشنوں میں منعقدہ دوبارہ پولنگ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سردار حسین اپنے مخالف اے پی ایم ایل کے امیدوار حاجی غلام محمد کو ہرا کر اسمبلی نشست اپنے نام کر لی۔ یاد رہے اس سے پہلے گزشتہ سال 11مئی 2013ء کو منعقدہ انتخابات میں غلام محمد نے صرف سات ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی انتخابات میں بڑے پیمانے پر ہونے والے بے ضابطگیوں اور دھاندلی پرپی پی پی کے امیدوار نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے الیکشن ٹربیونل میں چیلنج کیا تھا. ایک سال کی طویل جدوجہد اور آئینی و قانونی موشگافیوں کے بعد بالاخر دوبارہ الیکشن کا اعلان ہوا جس میں پی پی پی کوبھر پور انداز سے کامیابی ملی۔

1471338_473815309394644_1979845570_nبنیادی طور پر مہذب معاشروں میں انتخابات عوام کی ذہنی شعور بڑھانے ، نظام کے ساتھ ان کو ہم آہنگ رکھنے اور سب سے بڑھ کرعوام کی سیاسی بلوغت کے فروع میں اہم کردار ادا کرتے ہیں . ترقی یافتہ جمہوری ریاستوں میں الیکشن ذات پات،رنگ و نسل ،مذہب و مسلک یا ذاتی انا کا مسئلہ تصور نہیں ہوتا بلکہ خالصتاََ نظریے اور اہلیت و قابلیت کی بنیاد پر نمائندے چنے جاتے ہیں۔اس کے برعکس ترقی پزیر یا جاہل معاشروں میں سیاست اور انتخابات لوگوں کے درمیان دشمنی اور بعض وعناد بڑھانے کا سبب بنتی ہے ۔مملکت پاکستان میں نظریہ ،علم و قابلیت کوئی خاض معنی نہیں رکھتی شخصیت پرستی ،اسٹیٹس کو اور دولت و ثروت کے دلدل میں لپٹی ہوئی اس سماج میں حسن ماضی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔اس کے علاوہ پاکستان کے گزشتہ 66سالہ تاریخ میں سوائے 1970ء کے باقی کسی بھی الیکشن کو فری اینڈ فیر نہیں کہہ سکتے خفیہ اداروں کی مداخلت،پیسے کا زوراور 35پنکچر کا لقب ہر وقت انتخابات سے منسلک رہتے ہیں حکومت وقت انتخابی نتائج کو اپنی مرضی سے موڑنے کے لئے ہر قسم کے جائز و ناجائز ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہیں ۔سب ڈویژن مستوج کے حالیہ انتخابات تو انتہائی سخت سیکیورٹی میں منعقد ہوئی جس کی شفافیت پر کسی نے سوال نہیں اٹھایا البتہ اپر چترال کے عوام کا پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کو کامیاب کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ یہ جماعت اب بھی چترال میں مقبول ہے اور اگر باہر سے لوگوں کو مسلط کرنے کے بجائے علاقے کے محنت کش سیاسی ورکرز کو ٹکٹ الاٹ کرتے رہے تو ہارنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا. درحقیقت پیپلز پارٹی محنت کشوں،مزدوروں اور پسے ہوئے طبقات کی جماعت ہے محنت کش کبھی بھی اپنی سیاسی وفاداری تبدیل نہیں کرتے سردار حسین کی کامیابی اس امر کی دلیل ہے کہ چترال میں اگر عوام کی خواہشات کو مدِ نظر رکھا جائے تو آج بھی یہ منی لاڑکانہ ہی ہے ۔

ضمنی انتخابات میں مجموعی طور پر کسی قسم کا ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا جو کہ حوصلہ افزا ہے. البتہ مخالفین کے درمیان گرما گرم بحث اور اخباری بیانات سے ماحول میں خاصی دلچسپی رہی لیکن سوشل میڈیا میں بعض افراد نے نسل و نصب پرستی اور ذاتیات کو اچھالنے کی کوشش کی جو انتہائی تشویش ناک امر ہے روایتی انداز سے اس الیکشن میں بھی حکومت(صوبائی)غیر جانب دار رہنے میں ناکام رہی.

انتخابات سے چند روز قبل پی ٹی آئی کے صوبائی صدر اعظم سواتی کا چترال کا دورہ، اے پی ایم ایل کے امیدوار کے ہاں مہمان ٹہرنااوران سے منسلک کچھ نازیباالفاظ کا سوشل اور الکٹرانک میڈیا میں گشت کرنااور پھر اس غیر منتخب سیاست دان کا مختلف علاقوں کا دورہ کرکے ترقیاتی اسکیموں اور بڑے بڑے منصوبوں (ضلع مستوج کو علحٰیدہ ضلع کا درجہ دینے ،چترال میں علحٰیدہ یونیورسٹی کے قیام )کا اعلان سراسر انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کے لئے کیا گیا ۔کیونکہ اے پی ایم ایل کے امیدوار غلام محمد نے ایک خبر رسان ادارے کو انٹرویودیتے ہوئے کہا تھا کہ میں غیر مشروط طور پر پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی حمایت کر رہا ہوں اسلئے پی ٹی آئی اور اعظم سواتی کا میرے انتخابی مہم میں شرکت کوئی انہونی بات نہیں ۔

تبدیلی کے دعوے دار وں پر لازم تھا کہ دو مختلف پارٹیوں کے امیدوارں کی رسہ کشی میں غیر جانب دار رہ کر عوام کے مینڈیٹ کا اخترام کرتے لیکن ہمارے معاشرے میں اصولیات صرف دوسروں کو پڑھانے کے لئے ہوتا ہے ۔اس سلسلے میں پی ٹی آئی چترال کے عہدے داروں کا موقف یہ تھا کہ اعظم سواتی کے دورے کا ان انتخابات سے کوئی تعلق نہیں تھا وہ پارٹی معاملات میں چترال تشریف لائے تھے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اعظم سواتی یا پی ٹی آئی کا کوئی اعلیٰ عہدے دار اس سے پہلے چترال کا دورہ نہیں کرسکتے تھے ؟؟ جولائی 2013کے تباہ کن سیلاب جس نے چترال میں مکمل تباہی مچا دی تھی کے بعد کسی صوبائی وزیر بھی علاقے کے دورے کی زحمت گوارا نہیں کی جبکہ صوبائی حکومت میں اپنے حمایتی جماعت کے امیدوار کے انتخابی مہم میں شرکت کئی ایک سوالات کو جنم رہاہے۔یہ بھی حقیقت ہے اعظم سواتی کے دورے سے انتخابا ت پر کوئی خاض اثر نہیں پڑا کیونکہ عوام کی اکثریت تو اس موسمی پرندے کے نام سے بھی واقف نہیں ۔

جس طرح اعظم سواتی کا انتخابی مہم میں شرکت قابل مذمت ہے ٹھیک اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی عہدے داروں کا چترال کا دورہ بھی ناقابل تشریح ہے ان کے چترال آنے پر بہت سے تعلیم یافتہ لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ وہ لوگ جو اپنے حلقوں میں بد ترین شکست سے دوچار ہوے  تھے وہ چترال کی سیاست میں  کیا گل کھلاتے. ان کے دورہ چترال سے بھی الیکشن پر کوئی فرق نہیں پڑا ۔

اسی انتخابات کے آخری دنوں میں ایم این اے چترال شہزادہ افتخار الدین بھی اپر چترال تشریف لے آئے. یاد رہے افتخار صاحب کو اپر چترال بالخصوص یارخون ،لاسپور اور تورکہو کے بالائی اور پسماندہ علاقوں سے بڑی تعداد میں ووٹ ملے تھے اور انہی علاقوں کی وجہ سے وہ کامیاب ہوگئے۔لیکن گزشتہ ایک سال سے عوام ان کی ایک جھلک دیکھنے کوترس رہی تھی وہ ان علاقوں میں جانے کی زحمت گوارا نہیں کی ۔جونہی ضمنی انتخاب کا وقت قریب آیا فوراََ علاقے کے دورے پر روانہ ہوگئے مستوج میں رونما ہونے والا ناخوشگوار واقعہ اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہمارے راہنمااپنی مقاصد کے لیے ہر ایک گھر کا دورازہ کھٹکھٹاتے ہیں لیکن کامیابی کے بعد اپنے حلقوں کو ممنوعہ علاقہ تصور کرتے ہوئے بھولے سے بھی اس جانب توجہ نہیں دیتے. انہی دنوں ایم پی اے لوئر چترال اور پی پی پی ضلع چترال کے صدر سلیم خان ںے بھی اپر چترال کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا ان پر بھی فرض بنتا تھا کہ وہ پہلے بھی اس علاقے کا دورہ کرتے رکنیت سازی مہم شروع کرکے پارٹی کو فعال بناتے اور اپر چترال کے سیاسی ڈیڈ لاک میں عوام کے ساتھ ہمدردی کے علاوہ ان کے مسائل بھی سنتے لیکن انتخابا ت کے دنوں میں گھر گھر جاکر ووٹ مانگنا اور جیتنے کے بعد بوتل سے نکلنے والے جن کی طرح تحلیل ہونے والارویہ مناسب نہیں ہوتا ۔

اب جبکہ انتخابات مکمل ہونے کے بعد چترال کے مقبول سیاسی راہنما سید سردار حسین کامیاب ہوچکے ہیں تو ان کے سامنے مسائل اور چیلنجز کا انبار ہے. علاقے میں جاری سارے ترقیاتی منصوبے کرپشن کی نزر ہو چکے ہیں انفراسٹرکچر کا نظام درہم برہم ،لاقانونیت عروج پر ،تعلیم اور صحت کے ادارے زبون حالی کا شکار ہے غربت وافلاس نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے. یونیورسٹی ڈگری ہولڈرنوجوان روزگار کی تلاش میں دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے ،کنٹریکٹر یا باالفاظ دیگر ٹھیکیدار مافیاز نے سارے ترقیاتی فنڈز اپنی جیبوں میں بھر دیے ہیں.

ان گھمبیر مسائل کو سلجھانا بڑا ہی جان جوکھوں کا کام ہے چلنجز بہت زیادہ ہے جبکہ عوام کا اعتمادا نتہائی ہائی۔ نومنتخب ایم پی اے ان مسائل کو کسطرح ڈیل کرتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتا ئے گا البتہ ناامید نہیں امید پر دنیا قائم ہے علاقے کا آخری آپشن اور عوام کی آخری امیدشائد عوام کو ناامید نہ کرے ۔ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی اور عوام کو بحفاظت منزل تک پہنچانا اب سردار صاحب کی ذمہ داری ہے کیونکہ’’ سیاست دان اگلی انتخابات کے لئے سوچتا ہے جبکہ سیاسی مدبر اگلی نسلوں کے لئے‘‘ اپر چترال کے عوام نے انہیں سیاسی راہنما سمجھ کر منتخب کیا ہے اگلے نسلوں کا مستقبل اب نومنتخب ممبر صوبائی اسمبلی کے ہاتھ میں ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button