کالمز

شاہ کی واپسی

تحریر: محمدنذیر خان

آج جب حسب معمول فیس بک کھولی تو ایک نئی خبر پڑھنے کو ملی ، وہ خبر ھمارے ایک بے وفا دوست اورمشہور شاعر (یاد رہے کہ ان کو بے وفا اس حادثہ نے کردیا جس کا اگے چل کر زکرکرلونگا!)سیداحسان شاہ کےبارے میں تھی، کہ وہ دوبارہ ”مشرف بہ ادب” ہورہے ہیں،اور اپنی سابقہ ”کوتاہیوں” سے توبہ تائب ہوکر حلقہ احباب ادب میں شامل ہوگئے ہیں، چنانچہ وہ خود ہی اپنے بارے میں لکھتے ہیں، : دوستو! میرا ”شعری ایمان” زائل ہونے اور میں ادبی حلقوں میں "مرتد” قرار پانے کے قریب تھاکہ ایک نئی غزل لکھ کر میں مشرف بہ ادب ہوگیا ہوں ۔۔۔۔اور یہ غزل میں پیر کے روز آپ دوستوں ک بینائیوں پر ٹانک کر اپنے ادبی ایمان کی تصدیق ثبت کرنا چاہتا ہوں!!

downloadقارئین کو یاد ہوگا کہ جب شاہ صاحب ”بھابھی کو پیارے ہوگئے تھے” تو ھم نے ان کا مرثیہ بھی لکھا تھا اور چند غزلیں پڑھ کران کیلئے ”ایصال ثواب بھی ”کرلیاتھا،اور یہ ”پیشن گوئی” بھی کی تھی کہ آئندہ کافی عرصہ تک گلگت کی طرف سے ”ادبی افق” کافی ابر آلود”رہےگا!، اور شعروغزل کے وہ سہانے بادل” بجائے ادبی محافل کے،کسی ”اور چھت پہ” یا تو برس جائیں گے ،یا پھر ”کسی انجانے ”خوف میں مبتلا ہوکر برسنا ہی بھول جائیں گے،!اور یاس قنوط کا یہ موسم کچھ طوالت بھی اختیار کرسکتاہے، کیونکہ شاہ صاحب نے اپنی عمر کے ”جس مرحلہ” میں یہ ”نوجوانہ حرکت” کی تھی اس کالازمی اور منطقی نتیجہ” یہی نکلنا تھا،اور ایسا ہی ہوا، گو کہ افسوس صد افسوس” اتنی واضح اور کھری پیشن گوئی” اور اس کی سچائی کے واضح ثبوتوں” کے باوجود ہماری ”بزرگی” کا کوئی قائل ہوا نہ ہی کسی نے ”ہم سے ”بیعت” کی درخواست کی، اب لوگوں کی اس ”ناقدری” اور بےوفائی” پرکبیدہ خاطر اور رنجیدہ طبع ہوکر دل خون روتاہے،کبھی تو دل چاہتاہے،کہ ”اس سلسلہ بیعت وارشاد”کو ہی ختم کردوں،اور اپنا سارا”فیض” سمیٹ کر اپنے گھر کا رخ کرلون ، لیکن پھر سوچتاہوں کہ وہاں تو ”پیری ” کی بجائے پھر سے ”کسی ”کا ”مرید” بننا پڑیگا، تو اس لئے اسی حالت موجودہ کو غنیمت جان کر اس پر صبر شکر کرلیتاہوں ، اور دل کو تسلی دیتاہوں، کہ ”پیوستہ رہ شجر سے امید ”مرید” رکھ ! اس لئے اپنے مخلص دوستوں سے پھر گذارش ہے کہ وہ ”حقائق” کو سمجھیں ۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔بس سمجھ لیں ۔۔۔۔ اور”بائی ون گیٹ ون فری” کے تحت ان کو یہ بھی موقع دیتا ہوں کہ وہ میرے لئے کوئی ”کرامت” بھی تراش سکتے ہیں، کیونکہ ہمارے معاشرے میں کئی ایک ایسے”بزرگان”ہیں جن کے ”مریدین” نے ان کیلئے ہرخوف وقانون حتی کہ شریعت کی پابندی سے بھی نکل کرامتیں ”سرانجام ”دی ہیں ،اور ویسے بھی فارسی کامقولہ ہے” پیراں نمی پرند،مریداں می پرانند! کہ پیر نہیں اڑتے البتہ ان کے مرید ان کو اڑاتے ہیں!،

قصہ مختصر نہ معلوم یہ پیری مریدی کاقصہ بیچ میں کہاں سے ٹپک پڑا، جی یاد آگیا اصل میں شاہ صاحب نے ”اپنی راہنمائی ”کیلئے جس خانقاہ سے ناطہ جوڑا بلکہ پنجابی زبان میں کہاجائے تو ”جو بوا مل لیا ہے” وہاں کے ”فیض کے تقاضے ہی کچھ ایسے ہیں،کہ وہ کسی بھی عمل میں ”شراکت داری” برداشت نہیں کرتا، بلکہ صرف اپنا بناتاہے اور اپناہی لیتاہے، اور نتیجۃ ان کی گلی میں کام سے جانے والا”کام” سے ہی چلاتاہے! دوسری بات یہ ہے کہ شاہ جی جس ”عظیم حادثہ زواج” سے گزرے تھے اس کے بعد عموما ایسا ہی ہوتاہے، یہ تو شکر ہے کہ وہ نسبت سادات اور کچھ ”ہم جیسے بزرگوں” کی دعاءوں” کی وجہ سے جلد سنبھل گئے ورنہ تو اس مسافت کوکاٹنے میں آدمی کو بہت دیر لگتی ہے،اور کافی عرصہ سے بعد جب آدمی اندر سے بالکل کھوکھلا ہوکر یہاں سے نکل آتاہے تو کبھی کبھار اس کے دماغ کی سکرین پر یاد ماضی کی فلم چل پڑتی ہے ،جہاں وہ اپنے آپ کو کبھی یاردوستوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے ہوئے پاتاہے، تو کھبی کسی محفل میں غزلیں پڑھتانظراتاہے، کبھی کسی کتاب کے صفحات کھنگالتے دکھتا ہے تو کبھی عزیز واقارب سے ملاقاتیں کرتے،!اس وقت اس کے دل میں درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں، ندامت وانفعال کے انسوں دامن وگریباں سے لپٹنے لگتے ہیں، اور وہ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہتاہے : یاد ماضی عذاب ہے یارب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو،!اور کبھی کبھاراپنی اس ”غلطی” پر پچھتاتے ہوئے کہتاہے:

”شادی” نے ”ھمکو” نکما کردیا،
ورنہ ھم بھی ادمی تھے کام کے!

پھر دوبارہ ہمت کر کے اٹھتاہے ہے قلم وقرطاس کی طرف بڑھتاہے ذہن و تخیل پر زوردیتاہے کہ ”کچھ ورود”ہوجائے لیکن اس کے کانوں سے ایک ہی اواز ٹکراتی ہے: کل میرے لئے اس اس رنگ کا سوٹ لیتے آنا، اور اتنی اتنی رقم۔۔۔۔۔کیونکہ جو10 جوڑے میرے پاس ہیں ، ان میں سے اکثر کو میں ایک ایک بار پہن کر مختلف فنکشنز میں جاچکی ہوں، نیز شام کو ذرا ٹائم سے گھر آئے گا،کہیں اللـے تللے دوستوں کے ساتھ پھر سے ”شاعری ”کرنے نہ بیٹھ جانا، میں نےذرا مارکیٹ جاناہے کیونکہ ”وہ ایک کریم اور کاجل کا اشتہار ٹی وی پر باربار آرہا ہے، توچاہ رہی ہوں کہ خرید لاءوں، اور تیسرے بچے کی کتابیں اور پانچوں بچی کی وردی نہیں ہے۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔بس اس کے بعد ”چراغوں سے روشنی ”پھر غائب ہوجاتی ہے،!

خیر شاہ صاحب کی واپسی ہمارے لئے ٹارزن کی واپسی سے کم نہیں، اس لئے میری حلقہ انحراف کے سنگھاسن پر براجمان ادبی ”باباؤں” سے گذارش ہے کہ وہ اس کئی صبحوں کے بھولے کی ”توبہ” اور ”آدھی رات ”کی واپسی کو قبول فرمالیں اور انکو”راندہ درگاہ” کرنے کے بجائے واپس اپنی صف میں ،میں جگہ دیں ، ”کیونکہ ان سا بھی کہاں باقی ہے؟!

تاہم سزا کے طور پر اس کو ”ادبی گنگا” میں اشنان ضرور کروائیں تاکہ وہ جو”بھرشٹ ” ہوچکے ہیں ،اس کا مداوا ہو سکے، اور فی الحال ان پر قافیہ، ردیف اور وزن کی کوئی قدغن نہ لگائیں، اور ان سے ”پہلی سی شاعری میرے ادیب نہ مانگیں، نیز دوسرے وہ حضرات جو اس طرح کے ”حادثہ زوجیت” کا شکار ہوچکے ہیں وہ بھی ہمت نہ ہاریں، اورکوشش کریں کیونکہ اگر شاہ صاحب جیسے ”سن رسیدہ” زخمی ”صحت یاب” ہوسکتے ہیں ، تو ابھی تو ”آپ جوان ہیں،” ماشاءاللہ، ہمت مرداں مدد خدا!!

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button