کالمز

تھری جی ٹیکنالوجی اور گلگت بلتستان

عصر حاضر میں انٹرنیٹ ایک بنیادی ضرورت اورانسانی زندگی کا ایک جزو بن چکا ہے۔خیالات کی ترسیل کیلئے پہلے زمانے میں خط لکھے جاتے تھے مگر زمانے نے ترقی کرکے کاغذ کی جگہ کی بورڈ اورکتاب کی جگہ ای کتاب خط کی جگہ ایمیل نے لے لی۔آج پاکستان میں بھی انٹرنیٹ کوجدید دنیا سے منسلک کرنے کی خاطر 3G اور 4G ٹیکنالوجی متعارف ہو رہاہے .ہم اپنے قارئین کی معلومات میں اضافے کیلئے کوشش کریں گے کہ تھری جی ٹیکنالوجی کیا ہے ؟ اوراسکی کیا افادیت ہے۔ تھری جی کا لفظی معنی تھرڈ جنریشن ٹیکنالوجی ہے آئی ٹی ماہرین کے مطابق عام طور پر موبائل فون کے ذریعے ویڈیو کال ویڈیو کانفرنسز انٹرنیٹ کی کم رفتار کے باعث انسانی شعور کی ترقی میں رکاوٹ بن رہی تھی اس خامی پر قابو پانے کیلئے دنیا میں ون جی ٹوجی اور تھری جیسے نئی ٹیکنالوجی متعارف کرایا اس سہولت کی بدولت موبائل فون ٹی وی کا کام دیں گے موبائل پر ویڈیو کالز کی سہولت میسر ہو گی کمپیوٹر پر کرنے والا کام نسبتا موبائل پر آسانی سے ہو گاای کامرس ای بینکنگ ای سروسز کو فروغ حاصل ہوگا۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک اس دور سے بھی آگے نکل کر4G ایڈوانس تک پہنچ  چکی ہے۔

my Logoآج ہم گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ سہولیات کی دستیابی اور عوامی ضروریات کے حوالے سے چند باتیں سپرد قلم کرکے ارباب اختیار کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کروں گا کیونکہ اس خطے کی اکثریتی علاقے آج بھی اس سہولت سے محروم ہے۔اس حوالے سے ہمیں سب سے پہلے اس خطے کی ٹیلی کام سسٹم کو سمجھنا ہوگا کیونکہ گلگت بلتستان میں ٹیلی کام سیکٹر براہ راست PTCLکے زیر نگرانی نہیں آتا اس وجہ سے پاکستان میں ہونے والی ٹیلی کام کی ترقی سے اس خطے پر اثرانداز نہیں ہوتا۔ اس خطے میں ٹیلی کام کا ادارہ افواج پاکستان کے ماتحت ہے جسے SCOکہا جاتا ہے یہ ادارہ گلگت بلتستان اور آذاد کشمیر کی سطح پر عسکری مواصلاتی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے 1976میں قائم کیا تھا جسکا دائرہ رفتہ رفتہ سولین تک بڑھا کر آج گلگت بلتستان میں SCOMکے نام سے موبائل اور انٹرنیٹ سروس کی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔ SCOگلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا گواہ ایک ہی سرکاری ادارہ ہے کیونکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق یہ خطہ متنازعہ ہے لہذا یہاں کسی بھی حوالے سے ٹیکس کا نظام نافذالعمل نہیں ہوسکتا یہی وجہ ہے کہ SCOM اور SCOکی تمام خدمات ٹیکس فری ہے لیکن اس نظام میں جہاں اچھائیاں ہے وہاں اس نظام کو بہتر کرنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ آج دنیا اکسویں صدی میں داخل ہو چکی ہے سائنس اور ٹیکنالوجی ترقی کے کئی مراحل طے کر چکے ہیں مگر گلگت بلتستان پاکستان میں ہونے والی آئی ٹی کی ترقی سے استفادہ نہیں کر پا رہے ہیں ۔اگر ہم موجودہ صورت حال کی بات کریں تو پاکستان میں 3Gٹیکنالوجی متعارف ہو چکی ہے لیکن اس خطے کے عوام آج بھی ٹیلیفون اور موبائل فون کی سہولیات سے محروم ہے انٹرنیٹ کی بات کریں تو اس ادارے کی طرف سے دی جانے والی سہولت بھی صرف شہری آبادیوں تک محدود ہے جس کی وجہ سے نجی موبائل کمپنیوں نے اس خطے کا رخ کیا اور غیرقانونی طور پر روازنہ لاکھوں روپیہ ٹیکس کی مد میں وصول کیا جا رہا ہے اب 3Gسروس کے بعد اور اضافہ ہوگا ۔ لیکن کیا کریں بدقسمتی سے یہاں کی حکومت نہ اس حوالے سے کوئی فکر ہے نہ ہی یہاں آج تک آئی ٹی کی منسٹری قائم کر سکا ایسے میں عوام کس کے پاس فریاد لیکر جائیں ۔ آج جس طرح پاکستان کے عوام کو جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا حق ہے بلکل یہی حق گلگت بلتستان کے عوام کو بھی ہے یہاں کے عوام بھی جدید دنیا سے متصل ہونا چاہتے ہیں کیونکہ اس خطے سے تعلق رکھنے والے بھی بیرونی ممالک میں خدمات دے رہے ہیں اس خطے سے تعلق رکھنے والے بھی ملکی معیشت کی بہتری کیلئے کردار ادا کر رہے ہیں لہذا خطے کو بھی جدید دنیا سے رابطے کیلئے وسائل مہیا کیا جانا چاہئے ۔اس مضمون کی وساطت سے گلگت بلتستان کے عوام SCOکے حکام بالا کی نوٹس میں یہ بات لانا چاہتے ہیں کہ اس خطے میں موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولیات کو شہری علاقوں کی طرح کر بالائی علاقوں کو بھی فراہم کیا جائے ۔اس وقت خطے تقریبا 50 کے قریب ایس سی او سنٹرز ٹیلی کام کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جس میں صرف20مقامات پر انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے جوکہ آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہے لہذا ادارے کو چاہئے کہ پہلی ترجیح کے طور پر تمام سنٹرز میں DSLکی سہولت فراہم کریں کیونکہآج جب پاکستانی عوام ایڈوانس ٹیکنالوجی کی طرف سفر کر رہے ہیں تو اس خطے کو بنیادی سہولت سے محروم رکھنا اس خطے کی عوام کے ساتھ زیادتی ہو گی اسطرح کے اہم شعبوں میں نظراندازی سے یہاں کے عوام میں احساس محرومی اور بڑھے گی کیونکہ جب دفاع کی بات آتے ہیں تو اس خطے کے لوگ سب سے آگے کھڑا ہوکر دشمن کے سامنے سیسہ پلائی بن جاتے ہیں جب پاکستان کا نام روشن کرنے کی بات کریں تو اسی سرزمین بے آئین سے تعلق رکھنے والے خودمختار صوبوں سے ذیادہ کارکردگی دکھا رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جب یہاں کے مسائل اور سہولیات کی بات کریں تو متنازعہ کا طوق پہنایا جاتا ہے جو کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس خطے کے عوام نے ماضی میں بہتر مستقبل کیلئے پاکستان کے ساتھ غیرمشروط الحاق کیا تھا لیکن بدقسمتی سے اس جذبے کو غلامی میں تبدیل کرکے اس خطے کو دیوار سے لگائے رکھا لیکن کبھی یہاں کے عوام نے مملکت کے خلاف ایک نعرہ بھی بلند نہیں کیا حالانکہ پاکستان کے آذاد اور خود مختار صوبوں میں تمام تر سہولیات کے باوجود آج بھی کہیں سندھو دیش، تو کہیں پنجابی گریٹ ،تو کہیں آذاد بلوچستان کے نعرے لگ رہے ہیں ۔لہذا اس خطے کی دفاعی جعرافیائی اہمیت کو سمجھتے ہوئے خطے کو قومی دھارے میں لانے کیلئے حکمت عملی کرنے ہونگے اور یہاں کے عوام کو وہ تمام حقوق دی جانے کی ضرورت ہے جو دوسرے صوبوں کو مل رہے ہیں۔اس طرح کی سہولیات دینے سے عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو قابو کرنے میں مدد ملے گا کیونکہ یہاں کے عام آدمی کاسیاسی محور معاشی اور معاشرتی بہتری ہے یہاں کے عوام جب باہر کی دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو کئی سولات جنم لیتے ہیں انہی سوالوں میں انقلاب کی پہلی صدا شامل ہوتی ہے جسے حالیہ تحریک کے دوران دیکھا بھی گیا۔ لہذا یاد رہے کہ اس خطے میں جہاں آپ کی حاکمیت ہے اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ آپ ذمہ داری صرف سرحدوں کی حفاظت تک محدود ہے بلکہ اس سرحد پر رہنے والوں کی معاشی معاشرتی ضروریات کوپورا کرنا بھی وفاق کی ذمہ داری ہے کیونکہ یہاں کے عوام بھی ایک طرح سے ملک کا پاسبان ہے ۔آج گلگت بلتستان کے عوام اپنی تمام تر وفادریوں کے بعد بھی تعلیم ،سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ،انٹرنیٹ کی جدید سہولیات سے محروم ہونا اس خطے کے عوام کے ساتھ دشمنی ہے لہذا امید کرتے ہیں کہ یہ ادارہ چونکہ عسکری نظام کے ماتحت ہے اور ماضی میں بھی راقم نے اپنے آبائی گاوں میں اس نظام خرابی کے حوالے سے قلم اُٹھایا تھا جس پر عملی ایکشن ہوا اور راقم کو ادارے کی طرف سے باقاعدہ تحریری جوابی رقعہ بھی آیا تھا۔ آج وہاں یہ نظام بہتر انداز میں کام کررہے ہیں لیکن ابھی تک DSLسہولیات موجود نہیں جبکہ بلکل اسی سنٹر سے ملحق مہدی آباد میں حال ہی میں یہ سروس شروع کر چکی ہے لہذا امید کرتے ہیں کہ ڈائریکٹر جنرل ایس سی اور اس حوالے سے بہت جلد عوام کی اس دیرینہ مطالبے کو محسوس کرتے ہوئے اس حوالے سے کوئی بہتر حکمت عملی طے کریں گے تاکہ گلگت بلتستان کے عوام اگر 3Gکی سہولیات نہیں دیکھ سکے تو DSLکی سہولیات سے مستفید ہو سکے۔

(اس کالم کو لکھنے کیلئے ایس سی او اور پی ٹی اے کی ویب سائٹ سے مدد لی گئی)

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button