کالمز

ایم پی اے اپر چترال کا دورۂ گلگت بلتستان، چند تجاویز

موجودہ گلوبلائزیشن اور میڈیا کی ترقی نے برسوں سے منتشر قوموں اور ثقافتوں کو ایکدوسرے سے ملانے میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ ٹیکنالوجی کے اس عروج نے دنیا کے ایک کونے میں وقوع پزیر ہونے والے حالات و واقعات کو اسی وقت پوری دنیا میں پھیلاکر ان کے ممکنہ نتائج سے خبردار کرنے میں مدددی ہے یہی وجہ ہے کہ آج ا قوام کے درمیان ذہنی ہم آہنگی پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔

1471338_473815309394644_1979845570_nپاکستان کے شمال میں واقع ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان رہائش پزیر اقوام (چترال اور گلگت بلتستان )کی ثقافت و تہذیب ،زبان او رہن سہن کے طریقے ایک ہے بلاشک وشبہ دونوں خطوں میں ایک ہی تہذیب وثقافت کے لوگ بس رہے ہیں ۔زمانہ قدیم میں چترال اور گلگت بلتستان کا بڑا حصہ ایک ہی ریاست میں ضم تھے البتہ 19وین کے آخری عشروں میں نااہل خودعرض ریاستی حکمرانوں کی وجہ سے فرنگیوں نے 1895 میں اس ثقافت و تہذیب کے دل میں چھری گھونپ کر ان کو مختلف ٹکڑوں میں بانٹتے ہوئے ہوس اقتدار کے پوجاریوں کے حوالے کی دئیے ،یوں’’ تقسیم کرو اورحکومت کرو‘‘کی پالیسی سے اس قوم کو برباد کر دیا گیا اسکے بعد کے حکمران اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہے جنہوں نے عوامی مسائل اور علاقے کی تباہی کی جانب توجہ دینے کے بجائے اپنی حکومتوں کو استحکام بخشنے اور بیرونی استحصالی قوتوں سے مراغات حاصل کرکے’’ گریٹ گیم ‘‘میں انگریزوں کی معاونت کرتے رہے جس کی وجہ سے معمولی مسائل الجھ کر گھمبیر ہوگئے ہیں اور اب وہ تنازعات کی صورت اختیار کر گئی ہے ۔آفسوس کا مقام یہ ہے کہ چترال جابرانہ شاہی حکومت سے خلاصی 1969))کے بعد بھی اسی ہی خاندان کے زیرِ تسلط رہا۔ گزشتہ تقریباََ 44برسوں میں سے تین دہائیوں سے زائد فردِ واحد کی حکومت رہی جنکو عوامی مسائل اورقومی پسماندگی کا کوئی ادراک نہیں تھا ویسے بھی ’’اسٹیٹس کو ‘‘کے حامیوں کی ساری توجہ ووٹ بینک کی جانب ہوتی ہے ۔روایتی سیاست دان عوام کی فلاح وبہبود اور علاقے کی ترقی کو روکنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں کیونکہ علاقے میں ترقی آنے سے عوام میں ذہنی شعور پیدا ہوگی او ریوں ان کی سیاست خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔

اس لمبی تمہید کے بعد اصل موضوع کی طرح لوٹ آنا چاہونگا ان دنوں اپر چترال کے نومنتخب ایم پی اے سردار حسین شاہ گلگت بلتستان کے دورے پر ہے اس سے پہلے ان کا ایک بیان اخبارات کی زینت بنی تھی یہ کہ چترال او رگلگت بلتستان کی ترقی میں’’ چمرکن ٹنل‘‘ کی تعمیر ناگزیر ہے۔ اس موقع پر جبکہ دونوں خطوں میں تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے ایم پی اے اپر چترال کا دورۂ گلگت بلتستان انتہائی اہمیت کے حامل ہے کیونکہ چند ماہ قبل گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی نے ایک قرارداد پاس کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ قراقرم ہائی وے کی مخدوش صورتحال اور پے در پے وقوع پزیر ہونے والے حادثات کے بعد اب اس امر کی ضرورت ہے کہ گلگت چترال روڈ کو آل ویدر روڈ میں تبدیل کر کے اسکا نام ’’ہندوکش ہائی وے‘‘ رکھا جائے اس سے گلگت بلتستان کے عوام کو محفوظ راستہ مل سکتی ہے ۔بنیادی طور پر’’ ہندوکش ہائی وے ‘‘کی تعمیر سے نہ صرف گلگت بلتستان کے عوام کو سفری سہولیات میسر آسکتی ہے بلکہ اس سے چترال میں ٹرانسپورٹ کی تباہ کن صورتحال پر قابو پایا جاسکتاہے چترال کی ترقی میں اس روڈکی تعمیر ناگزیر ہے۔اس کے ساتھ ساتھ قراقرم ہائی وے میں کوہستان کے مقام پر کئی دفعہ مسافروں کو بسوں سے اتار کر گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا اور یوں سینکڑوں معصوم اہل وعیال ،والدین او ربال بچوں سے ملنے کی تمنا دل میں لئے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں اپنے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اس قسم کی مزید ناخوشگوارواقعات سے بچاؤ کا سب سے آسان طریقہ متبادل راستے کا بندوبست ہے ’’ہندوکش ہائی وے‘‘ کی تعمیراس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے یہ سڑک مسافت کے لئے نسبتاََ محفوظ راستہ ہے کیونکہ ملاکنڈ ڈویژن میں پاک فوج کی کامیاب آپریشن کے بعد علاقہ مکمل طور پر انتظامیہ کے کنٹرول میں ہے علاوہ ازین اس سڑک کی تعمیر سے حسن ابدال سے آگے قراقرم ہائی وے میں بے تحاشہ رش میں کمی آسکتی ہے اس سے ٹریفک حادثات کے کنٹرول میں مدد ملے گی چترال کے ممبران اسمبلی بالخصوص ایم پی اے اپر چترال سردار حسین کو اس جانب بھر پور توجہ دینی ہوگی اطلاعات کے مطابق سردارحسین اس دورے کے دوران گلگت بلتستان کے گورنر ،وزیر اعلیٰ ،وزرأاو ر قائد حزبِ اختلاف سے ملاقات کرئینگے اس ملاقاتوں میں خصوصی طور پر گورنر گلگت بلتستان ،دوسرے حکومتی عہدے داراں اور نیٹکو حکام کے سامنے یہ بات رکھنی چاہئے کہ وہ چترال میں ٹرانسپورٹ کے گھمبیر مسائل کو حل کرنے کے لئے نیٹکو سروس( جو کہ گلگت ٹو مستوج گزشتہ تقریباََ دس بارہ سالوں سے سروس دے رہی ہے) کو پورے چترال تک بڑھایا جائے بلکہ چترال ٹو پشاوراور اسلام آباد کے لئے بھی ان کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اسکے ساتھ گلگت ٹومستوج نیٹکو سروس کی حالتِ زار کو بھی بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھانی ہوگی۔قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت بلتستان اور چترال کے طلبہ وطالبات کو علم کی روشنی سے منور کرنے میں مصروف ہے اسکے علاوہ آغاخان سکولوں میں بھی چترالی اسٹوڈنٹس زیرِ تعلیم ہے چونکہ چترال میں تعلیمی حالات گلگت بلتستان کے مقابلے میں پسماندہ ہے اسلئے چترال کے طلبہ و طالبات کے لئے ان اداروں میں مخصوص کوٹہ سسٹم متعارف کروانا ہوگا ایک ملاقات کے موقع پر نومنتخب ایم پی اے نے راقم الحرو ف کو بتایا تھا کہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں چترال کے اسٹوڈنٹس کے لئے پہلے ہی سے علیٰحیدہ کوٹہ سیٹ حاصل کی گئی ہے اس کے علاوہ اسی یونیورسٹی کا ایک کیمپس مستوج میں بھی قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے جو کہ انتہائی قابلِ تعریف امر ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسی ادارے کے ہاسٹلز میں بھی چترالی اسٹوڈنٹس کے لئے علیٰحدہ کوٹہ سیٹس حاصل کرنی کی کوشش کرنی چاہئے ۔۔

کسی بھی علاقے کی تعمیر وترقی ، عوام کی ذہنی نشونما اور تعلقات کو مضبوط بنانے میں میڈیا کا اہم کردار رہا ہے چونکہ چترال ادبی وصحافتی لٹریچر کے حوالے سے خستہ حالی کا شکار ہے جبکہ گلگت بلتستان میں بیسیوں اخبارات اور میگزین شائع ہورہے ہیں ایم پی اے صاحب کو چاہئے کہ وہ ادبی وصحافتی حلقوں سے ملاقات کرکے ان کو چترال میں بھی انٹروڈیوس کرنے کی حوصلہ افزائی کریں اس سے چترال اور گلگت بلتستان کے عوام کو ایکدوسرے کی قربت حاصل کرنے ،ایکدوسرے کے مسائل سے اگاہی اور اور شہریوں کے درمیان ذہنی ہم آہنگی میں مدد ملے گی دیر پا ترقی آزاد اور ذمہ دار میڈیا کے بغیر سراسر ایک سراب سے بڑھ کراور کچھ نہیں ۔علاوہ ازین ایم پی اے کو مختلف ادبی تنظیموں اور اسٹوڈنٹس سے ملاقات کرکے ان کو چترال کے دورے کی دعوت دینی کی ضرورت ہے اس سے تعلقات کے استوا ہونے اور مثبت رویوں کے فروع میں مدد ملے گی۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button