کالمز

اسلام اور دہشت گردی

تحریر: شکیل احمد جان
شعبہ نفسیات قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی‘ گلگت

اسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی انسان کے لیے ہدایت کی آخری کڑی ہے۔اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو نہ صرف انسانوں کی نجات کا ذریعہ قرار دیابلکہ دین اسلام کو پسند بھی فرمایا۔جیسا کہ فرماتے ہیں ’بیشک اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے‘۔

ادیان عالم کے بنیادی عقائد اور اصولوں کے مطابق کہیں بھی دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں۔تمام ادیان کے بانیوں نے امن و امان اور بھائی چارے کی تلقین کی ہے۔ اسلام کے معنی ہی امن اور سلامتی کے ہیں۔ اسلام نے ہمیشہ امن اور بھائی چارے کا درس دیا ہے۔ اسلام کی آمد کے بعد عرب میں انسان کو نئی زندگی مل گئی۔ جہالت کے تمام اندھیرے ختم ہوئے۔عرب میں جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر جنگیں ہوتی تھی نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا خاتمہ کیا۔

حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ\” اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہِ وَ یَدِ ہِ \”یعنی مسلمان وہ ہے جس کے زبان اور ہاتھ سے دو سرے مسلمان محفو ظ ہوں\”۔ انسان اکثر او قات اپنی زبان اور ہاتھ دوسروں کو نقصان پہنچاتاہے اس لئے اسے اپنے ہا تھ اور زبان پر قابو رکھنے کی ہدایت ہو ئی تاکہ انسان دوسرے لو گوں کو امن و سکو ن کی نعمت سے محروم نہ کر سکے۔

تاریخی اور اصلاحی لحاظ سے اسلام لفظ” سِلم”سے نکلا ہے جس کے معنی صلح وامان اور سلامتی ہے۔اسلام کے اسی معنی اور مفہوم کے پیش نظر ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان سے ملتاہے تو \” السلام علیکم\”کہتا ہے جس کے معنی ہیں تجھ پر سلامتی ہو۔”سلام” ایک دعائیہ کلمہ ہے اور اﷲتعالیٰ کے اسما ئے حسنہ میں سے ایک ہے جس میں اپنے اور دوسروں کے لئے امن و سلامتی کی خو اہش اور آرزو شامل ہے۔ چونکہ اسلام اس نظام حیات کا نام ہے جس میں انسان ہر قسم کی تباہی،آفت اور بر بادی سے محفوظ رہے اور دنیا میں بھی امن و سلامتی اور صلح و آشتی قا ئم کرنے کاموجب ہو۔وہ سفر زند گی میں دوسرے افراد معاشرہ کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ چلے اور کوئی کام ایسانہ کرے جس سے معاشرے کے امن میں کو ئی خلل واقع ہو۔

نبی پاک حضرت محمدؐکی زندگی سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اسلام کس طرح کا دین ہے۔حضرت محمدؐ نے اسلام کی تبلیغ اپنے گھر سے کی۔تبلیغ سے پہلے آپؐ صادق اور آمین کے لقب سے مشہور ہوچکے تھے۔ کفار مکہ بھی آپؐ کی صداقت اور امانتداری سے متاثر تھی۔ آپؐ نے ہمیشہ امن کی مثال قائم کی آپؐ نے سب سے پہلے دین کی تبلیغ اپنے گھر سے شروع کی۔اور ان کو اپنے علم و عمل سے دین کی دعوت دی۔ کچھ عرصہ بعد کوہ صفا پر آپؐ نے دعوت عام کا اعلان کیا۔ان تمام واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمؐ نے کبھی بھی دین کی تبلیغ میں تشدد کا راستہ نہیں اپنایا۔آپؐ نے قرآن کے حکم کے مطابق حسن اخلاق اور دلیل سے دین کی دعوت کی۔ آپؐ کو اپنے علاقے سے نکالا گیا لیکن آپؐ نے کبھی کفار سے تشدد کا نہیں سوچا بلکہ آرام سے شب ابی طالب میں پناہ لی۔یہی نہیں آپؐ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی لیکن کفار کے خلاف تشدد اور نفرت کا اظہار نہیں کیا۔ جب تک کفار نے مسلمانوں پر حملہ نہیں کیا، آپؐ نے کبھی بھی جنگ میں پہل نہیں کی۔تمام جنگوں میں بھی آپؐ نے امن و امان اور انصاف کی مثال قائم کی۔

گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن
ہے ذوقؔ اس چمن کو ہے زیب اختلاف سے

فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نے تمام دشمنوں کو معاف کر دیا اور ابو سفیان کے گھر کو دارالامان قرار دیا۔کفار کے قیدیوں اور دشمنوں سے نیک سلوک کیا۔ عورتوں اور بچوں کو انصاف اور پناہ دی۔ بے قصور لوگوں کو ان کے گھر جانے کی اجازت دی۔

آپؐ کی زندگی میں کہیں بھی تشدد کی کوئی مثال نہیں ملتی۔آپؐ نے ہمیشہ اخلاق دلیل اور محبت کا پیغام دیا۔ آپؐ کی زندگی کی ایک اور مثال یہ بھی ہے کہ جب مکے کی ایک عورت نے آپؐ پر کوڑا کرکٹ پھینکا تو آپؐ نے کبھی بھی اس کو برا نہیں کہا بلکہ جب وہ عورت بیمار ہوئی تو آپؐنے اسکی عیادت کی۔ان تمام واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں امن کا درس دیا جاتا ہے۔قرآن میں بیان کیا گیا ہے ؛ \” لاَ اِکْرَ ا ہَ فِی الدِّیْنِ \” ۲/۲۵۶ ’’دین میں کوئی جبر نہیں‘‘۔

اسلام کی ۱۵۰۰ء سالہ تاریخ کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کی تعلیمات اور اصولوں میں تشدد نہیں بلکہ امن انصاف اور عدل ہے۔مسئلہ دین کا نہیں ملکوں ‘ سلطنتوں اور امارتوں کا ہے۔ جغرافیائی پھیلاؤں، سرحدی تنازعات اور دیگر لسانی، جنسی،ثقافتی ،معاشی رنگ ونسل اور قومیت کے مسائل کو اسلام کے لبادے میں پیش کیا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے ان کے مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہ مسائل اسلام کے نہیں لوگوں کے ملکوں اور ریاستوں کے مسائل ہیں بعض ریاستوں اور بادشاہوں نے ایسے علماء پال رکھے ہیں جو اسلام کی کم ریاست کی زیادہ خدمت کرتے ہیں۔یہ علماء قرآن و حدیث کو سباق و سیاق سے ہٹا کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنی مرضی کے تشریحات کرتے ہیں جس کی وجہ سے اسلام بدنام ہوتا ہے۔ آج دنیا میں جہاں دہشت گردی ہے وہاں طاقتور ملکوں کی پشت پناہی شامل ہیں ریاستوں کے سرحدی تنازعات ہیں جن کو اسلام کی عینک سے دیکھا جاتا ہے۔

حقیقی اسلام کی تعلیمات میں تشددد کی گنجائش نہیں ۔جیساکہ فرمایا گیا ہے؛ ’جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا اور جس نے ایک انسان کو نقصان پہنچایا اس نے پوری انسانیت کو نقصان پہنچایا‘ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تشدد اور دہشت سے دور رکھیں اور امن کے ترجمان بننے کی توفیق دیں۔

جمشید خان دکھی نے کیا خوب کہا ہے۔

تعصب سے بھرا پیغام یہ ہے
بہاؤخون درس عام یہ ہے
مسلمانوں کااگر انجام یہ ہے
میں کافر ہوں اگر اسلام یہ ہے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button