کالمز

نوجوانوں کا عالمی دن

الواعظ نزار فرمان علی

12 اگست نوجوانوں کا عالمی دن ہے جس کا مقصد بین الاقوامی معاشروں کی بہبودی اور خوشحالی میں نوجوانوں کے مثالی کردار کا اعتراف و ستائش ،قومی و سماجی ترقی میں ان کی شرکت و حصہ داری کو مزید بہتر اور مثبت بنانے کی حوصلہ و ہمت افزائی کرنا بھی ہے۔بلاشبہ دنیا کے کسی بھی حصے کے نوجوان مرد و خواتین، اقوام عالم ،تکثیری معاشروں ،بین الاقوامی و علاقائی اداروں کے لئے موثر افرادی قوت او ر ویژنری لیڈرشپ کو یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔یہ دن زندگی کے تمام اکائیوں مثلاً حکومتوں،والدین /اساتذہ اور سول سوسائٹی کے اداروں کو مل بیٹھ کر نوجوانوں کی ضروریات و مسائل کی گہری سمجھ ،ان کی صلاحیتوں کے اظہار میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا تاکہ یہ طبقہ معاشرے کو اپنی خدمات بھرپور انداز میں پیش کر سکیں۔عصر حاضر کے نوجوانوں کا ایک مسئلہ شناختidentity سے متعلق ہے عالمی گاؤں کے فرد ہوتے ہوئے جہاں تیز ترین ٹیلی کمیونیکیشن پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے بین الاقوامی تہذیبوں، ثقافتوں ، روایتوں اوررویوں میں ٹکراؤ ،معلومات ،واقعات اور علم کے عجیب و دلفریب آمیزش نے اسے شناخت کے بحران سے دوچارکر رکھا ہے،یہ کہ میں کون ہوں ؟ میرا اصل مقام کیا ہے ؟ مقصد حیات کو حاصل کرنے کیلئے دین و دنیا میں توازن کاچیلنج ،میرے مذہبی و معاشرتی اقدار کیا ہیں۔جنہیں پکڑ کرکھرے کھوٹے اور اچھے برے میں امتیاز کرسکوں ؟قارئین کرام 21 ویں صدی کی ہر آن بدلتی ہوئی منتشر و مربوط دنیا میں اپنی اعتقادی،شہر و قومی شناخت کے دائروں کی بہتر آگاہی اور اس کے استحکام و پرداخت کے لئے فکری و عملی بنیادوں پر کام کرنا تاکہ نوجوانوں کو مستقبل کی غیر معمولی اہلیت و قابلیت،پرجوش و پر عزم اور ہمہ جہت لیڈرشپ کیلئے تیار کر سکیں۔اولاً شناخت کے معاملے کو تسخیر خودی کے تصور سے دیکھے جسے مسلم دانش واروں نے خاص طور پر حضرت علامہ اقبال نے نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔خودی یا انا سے مراد تکبر اور برتری کا اظہار نہیں جس کا شکار انسان اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا اور ہمیشہ خود ستائی میں لگا رہتاہے،خود پرستی کی یہ منفی روش اپنی ذات کی پرستش میں مشغول کر کے مخلوق سے بے خبری کے ساتھ خالق سے بھی دور لے جاتی ہے خودی کی لطافت سے عاری انسان معمولی دکھ اور ناکامی پر زمانے کو ملزم ٹھہرانے کا دلدادہ ہوتا ہے ۔دنیا کو برا بھلا کہنے کا کیا فائدہ اس کے خدوخال،لیل ونہار،فنا وبقا اور موسمی تغیرات کے قوانین اٹل اور تمام انسانوں پر یکساں لاگو ہوتے ہیں اگر بدلی ہے تو انسان کی سوچ ،مزاج اورعادت ،انسان جسے فطرت کا عظیم شاہکار،مخلوقات میں صف اول کا کردار ،فرشتوں پر برتری کا علمبردار،ارض وسماء پر خلافت کا سماوی سند یافتہ،ربِ کریم کا محبوب جسے خصوصی طور پر درد دل کے واسطے پیدا کیا گیا جس کے برعکس وہ درد سر بن چکا ہے،طائر لاہوتی اپنی اخلاقی کثافت ،ایمانی نقاہت اور علمی مفلسی کی بنا پر احسن تقویم کی بلندیوں سے کھسکتے ہوئے اسفل سافلین کی کھائیوں میں جا بیٹھا ہے۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ کائنات کی ہر شے انسان کے کام آرہی ہے جبکہ اشرف المخلوقات ایک دوسرے کیلئے غیر اہم اور ارزاں بنتے جا رہے ہیں ،سر سے پاؤں تک ،آفرینش سے لحد تک آسائشوں میں گھرا ہوا انسان!مقام فکر یہ ہے کہ اس یکطرفہ بے پایاں مادی ترقی کے بے رحم مقابلے میں اقدار حیات کی رسی ہاتھوں سے چھوٹتی جا رہی ہے۔نتیجتاً انفرادی،خاندانی و اجتماعی اخلاقیات کی اساسی اقدار محبت،احترام،برداشت،معاف کرنا،سخاوت ، رواداری،سیکھنے اور سکھانے اور تواضع وغیرہ دن بہ دن معاشرے سے ناپید ہورہے ہیں۔یوں لگتا ہے جیسے کشتی حیات میں بیٹھے انسانوں کی آنکھوں پہBlinkers (اندھیری)لگے ہوئے ہیں جو اطراف میں دیکھنے سے قاصر ہیں نہ کسی محتاج و مسکین کی سسکی سنائی دیتی ہے اور نہ کسی کی کامیابی و نیک نامی آنکھوں کو بھاتی ہے۔اس کیفیت سے کم و بیش نوجوان طبقہ بھی گزر رہا ہے اس موڑ پر تخلیق انسانی سے متعلق قرآنی ہدایت کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے جس میں پروردگار آفرینش انسان کو گیلی / چکنی مٹی سے قرار دیتا ہے یعنی انسانی ہستی کے خمیر کو پُر نم رکھا گیا ہے، اس کی فطرت میں بے پناہ قوت اور غیر معمولی لچک رکھی گئی ہے تاکہ وہ کسی بھی زمانے / حالات میں جس کردار/ روپ میں ڈھلنا چاہے با آسانی ڈھل سکتا ہے۔حکیم ناصر خسرو علوی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’اے انسان تیرے اندر دیو،درندہ ،انس و فرشتے کی خصلتیں موجود ہیں،ان میں جو خصلت تجھ پر غالب آتی ہے تو وہ بن جاتاہے‘‘گو یا زندگی خلقی طور پر اپنے اندر تمام تر منفی و مثبت اور تخریبی و تعمیری امکانات لئے ہوئے ہے،بحییثت انسان ہماری کامیابی اسی میں ہے کہ اپنی مثبت و تعمیری قوتوں کو مخالف طاقتوں پر حاوی کرکے حق کا میدا ن مار لیں۔جیسا کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں۔

جب اس انگارہُ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال وپر روح الامین پیدا

YouthInfographics_MentalHealth_F copyبے شک ایسے ہی یقین کامل کی بدولت نوجوانوں میں امید نو پیدا ہوتی ہے جو ہر قدم پر فصل بہار کا باعث بنتی ہے جس کی خوبصورت مثال’’ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ہے جس طرح پھول کی مہک اور تازگی شاخ سے وابستگی تک موجود رہتی ہے جیسے ہی یہ رشتہ منقطع ہوجائے تو رنگ و بو کے ساتھ اپنی ہستی کو کھو بیٹھتی ہے۔مذہب پر باقاعدگی سے عمل یعنی اطاعت و یاد الہٰی ایک ایسالافانی شجر ثمر دار ہے جس سے منسلک مومن پریشانیوں و مصیبتوں میں مرجھانے ،بکھرنے او ر خوشیوں کامرانیوں میں،اخلاقی کیڑے لگنے اور گرنے سے بچ جاتا ہے۔مطلب یہ کہ ترقی میں مغروری اور تنزلی میں مایوسیوں سے محفوظ رہتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نوجوان جسدِ قومی کے لئے ریڑھ کی ہڈی اورتابندہ مستقبل کے معمار ہیں،آزمائش اور دکھ کی گھڑی میں امید کا چراغ، دور غلامی و اسیری کی شب آشوب میں انقلاب کنندہ،تحریک آزادی و تخلیق پاکستان سے لے کربقائے وطن کی خاطر جہد مسلسل کی علامت ،دھرتی ماں کے سپوت، بہن و بیٹی کے آبرو،بزرگوں بچوں کے روبرو،بوقت ضرورت نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی نگہانی کے لئے سیسہ پلائی کی دیوار،قافلہء تعمیر و ترقی کے میر کاروان،وفاداری، جرات و بہادری کے انمٹ نشان ہیں۔نوجوان اپنے اندر توانائی کا عمیق بحر اور تخلیقیت کی لامتناہی دنیا رکھتے ہیں۔موجودہ زمانے میں بااثر اور طاقت ورترین کامفہوم تبدیل ہوچکا ہے ۔پہلے طاقت ور اسے کہا جاتا تھا جس کا نسب اعلٰی ہو اور زر زمین میں زیادہ ہومگر ممتاز مذہبی و سماجی دانشوروں کے مطابق آج کے علمی معاشرے میں تلوار نہیں قلم، مال نہیں علم،میدان جنگ نہیں لیبارٹری،سنان نہیں سائنس،دفاع کے ساتھ معاش ،لڑائی نہیں ٹیبل ٹاک،نفرت نہیں محبت ،منشیات نہیں اخلاقیات اس کے ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ سوسائٹی کے تمام اسٹیک ہولڈرز نوجوانوں کو بروقت مکمل اور واضح سمِت،مناسب ترغیت و ہمت افزائی،درکار دینی و دنیاوی علم اورزندگی کی ترجیحات کا درست خاکہ جس کا سرچشمہ اسلامی اخلاقیات و روحانی اقدار ہیں۔انشاء اللہ یقینی طورپر وہ خیر پسند ،امن ،آشتی و صلح کے خوگر/علم و حکمت کے متلاشی/حق شناس ،فرض شناس و عہد کے پکے/ امر باالمعروف و نہی عن المنکراور نیکی و بھلائی میں سبقت لے جانے والے،ٹوٹے دلوں کو جوڑنے اور دوریوں کو قربتوں میں ڈھالنے والے ملک و ملت کے نوجوان سفیر کہلاتے ہیں۔بقول علامہ اقبال

یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے

یقیناًجب قلب مومن نور ایمان سے منور ہوجائے اور اس کا نفس طہارت سے معطر ،پرواز تخیل ملائکہ کے سنگ،نگاہیں طائرانہ،جاں پر سوز اور مومن کی خصلتیں فکرِ قرآن کے ہم رنگ ہونے لگیں تو پھر گفتار کے عادی کردار کے غازی بن جائیں،آتش نمرود گل و گلزار اس کے افکار آتشِ زیر پا کر دے،بحدِ امکان کوحد فعل میں لے آئے،ہنگامہ خیز دریا اور چڑھتے طوفانوں کو رستے پر لگا دے اور ریگستان اور بیابانوں کو مرغ زاروں میں تبدیل کردے۔انشاء اللہ ہماری قوم نوجوانوں کا ایسا کردار ضرور دیکھے گی ۔آمین

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button