کالمز

اصلاح پسنداورانقلابی تحریکوں میں فرق

ہمیں روز اول سے پتہ تھا کہ آزادی یاانقلاب ایسے نہیں آتاجس طرح انقلاب اور آزادی کے متوالے اس کو برپا کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کی اس کا ڈراپ سین آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہیں تو ہو گیا ہوگا یا بہت جلد ہو جائے گا ۔کیونکہ سٹیٹس کو کی حامی قوتوں کو یہ قبول نہیں ہو سکتا کہ پنجاب کے چند غریب لوگ اسلام آباد کی ریڈ لا ئن کراس کر کے شاہی محلات کو مزید کیچڑ زدہ کر دیں۔ ہمیں اس بات کا بھی اندازہ تھا کہ یہ نہ تو آزادی کی تحریک ہے اور نہ ہی انقلاب کی بلکہ یہ ایک اصلاح پسند تحریک ہے جو کسی انقلابی تحریک کی طرح سسٹم سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اور یہ جو پر امن انقلاب کی اصطلاح ہے یہ ہمیشہ اصلاح پسند تحریک میں استعمال ہوتی ہے انقلابی تحریکوں میں نہیں کیونکہ انقلاب کھبی پر امن ہو ہی نہیں سکتا۔ تاریخ گواہ ہے انقلابات ہمیشہ خونی رہے ہیں۔ ایک حقیقی انقلاب کی تحریک ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کی جانیں لے لیتی ہے اس لئے حکمران انقلاب کے نام سے ڈرتے ہیں۔پاکستان میں انقلاب کی اصطلاح ایک رومانس بن گئی ہے۔ ہر اصلاح پسندتحریک اور اس کا رہنماء خود کو انقلابی کہنے میں لذت محسوس کرتا ہے ۔حا لانکہ اصلاح پسند تحریک اور انقلابی تحریک میں بڑا فرق ہوتا ہے۔

ایک عام آدمی چونکہ صرف الفاظ سے متا ثر ہوتا ہے اس لئے وہ کسی بھی لفظ کی اصل رو ح کو سمجھے بغیر اس کے استعمال پر جذباتی ہو جاتا ہے اور اس کی معنی اور مطلب پر غور نہیں کرتا۔ اصلاح پسندتحر یک اور انقلابی تحریک میں بنیادی فرق یہ ہوتاہے کہ اصلاح پسندتحریک سٹیٹس کو توڑنے کی کھبی بھی بات نہیں کریگی جبکہ انقلابی تحریک نظام کے پرخچے اڈانے کا مشن رکھتی ہے۔ اصلاح پسند تحریک نظام کا بنیادی ڈھانچہ برقرار رکھتے ہوئے کچھ تبدیلیوں کا تقاضہ کرتی ہے جبکہ انقلابی تحریک نظام کو ملیامٹ کرکے نئے نظام کی بنیاد رکھنے پر یقین رکھتی ہے۔ اصلاح پسند تحریک چارٹر آف ڈ یمانڈ بناکر اس پر سٹیٹس کو کے رکھوالوں سے مذاکرات کرنے کی بات کرتی ہے جبکہ انقلابی تحریک مذاکرات کی بجائے اقتدار پر قبضہ حاصل کرنے کی بات کرتی ہے۔ انقلابی تحریک کے لئے ضروری ہے کہ ملک گیر سطح پر بغاوت کو فروغ دیا جائے جبکہ اصلاح پسند تحریک بغاوت سے کتراتی ہے۔ اصلاح پسندتحریک ہمیشہ سٹیٹس کو کی اصل طاقت کو چیلینج کرنے سے ڈرتی ہے جبکہ انقلابی تحریک کی ٹکر ہو تی ہی ان لوگوں سے ہے جو نظام کو بچانے کی آخری قوت سمجھی جاتی ہے۔

israrٓانقلابی تحریک نچلی سطح سے لیکر کے اوپر کی سطح تک آمدنی اور اختیارات کے ذرائع پر مکمل قابض ہو کر ان کو نئے نظام کے لئے استعمال میں لاتی ہے ۔ جبکہ اصلاح پسند تحریک ان تمام ذرائع کو زک پہنچائے بغیر اوپر کی سطح پر کچھ تبدیلیوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ 

اصلاح پسندتحریک کے نتیجے میں عوام کو وقتی طور پر کچھ ریلیف مل جاتا ہے جس کی مثال ایسی ہے کہ ایک بیماری کا علاج آپریشن کے بغیر ممکن نہیں ہے مگر وقتی آرام کے لئے ڈاکٹرpain killerدے دیتا ہے ۔ جیسے اسلام آباد کے دھرنوں کے نتیجے میں وزیر اعظم،پنجاب کے وزیر اعلیٰ، وفاقی اور صوبائی وزراء اور کئی اہم شخصیات پر ایف آ ئی آر درج ہو ئی۔ ہو سکتا ہے استعفعےٰ بھی آجائیں اور ہو سکتا ہے ری الیکشن بھی ہو مگر سسٹم جوں کا توں ہی رہے گا۔ اسمبلیاں سسٹم کا ایک حصہ ضرور ہیں جن سے عوام کو کچھ تسلی مل جاتی ہے کہ وہ اقتدار میں شریک ہیں اسی لئے تو ضیاء جیسا ڈکٹیٹر بھی اسمبلیوں کے سہارے عوام کو جمہوریت کے نام پربیوقوف بناتا رہا ہے۔ وگرنہ یہاں ہر با شور آدمی جانتا ہے کہ اسمبلیاں کتنی طاقتور ہیں؟ اسمبلیوں کے اندر بیٹھی ہوئی جماتیں موجودہ تحریکوں کی مخالفت میں اس لئے اکھٹی ہوئی ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہے کی ان تحریکوں کے نتیجے میں اسمبلیوں کو خطرہ ہوسکتا ہے جہاں سے ان کی تنخواہیں چلتی ہیں۔سسٹم صرف اسمبلیوں پر مشتمل نہیں ہے وگرنا تمام سیاسی قوتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ موجودہ سسٹم اسمبلیوں کے علاوہ بہت مظبوط ستونوں پر کھڑاہے جس کو چلینج کرنا کسی بھی اصلاح پسندتحریک کے بس کی بات نہیں ہے۔ اسمبلیوں کے آنے جانے سے موجودہ استحصالی نظام پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ پاکستان میں تبدیلی سے مراد مارشل لا ء ہے یا اگر مارشل لاء قائم ہے تو اس کو ختم کرکے برائے نام اسمبلیوں والی حکومتیں قائم کی جاتی ہیں ہر دو صورتوں میں نظام وہی کا وہی رہتا ہے اس لئے عوام کی زندگیاں وقت گزرنے کے ساتھ بد سے بد تر صورتحال سے دو چار ہو جاتی ہیں۔

اصلاح پسند تحریکوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ سسٹم کی حامی بڑی قوتیں اکثر ایسی تحریکوں کی پشت پناہی کرتی ہیں جس کی باز گشت موجودہ دھرنوں کے حوالے سے بھی سنائی دے رہی ہے ۔ اصلاح پسند تحریکوں کو اکثر سسٹم کی حامی طاقتیں ہی فروغ دیتی ہیں تاکہ سماج کے اندر پائی جانے والی فرسٹریشن کو اس مشق کے ذریعے کم کیا جاسکے۔ورنہ سماج کے اندر بڑھتی ہوئی محرومیاں اصل انقلاب کی راہ ہموار کر سکتی ہیں۔سسٹم کی حامی طاقتیں بعض دفعہ ایسی تحریکوں کا بھی انتظار نہیں کرتی ہیں بلکہ محروم طبقوں کے لئے خود ہی گاہے بگاہے اصلاحاتی پیکیجز دے دیتی ہیں تاکہ انکی محرومیوں کا درجہ حرارت اتنا نہ بڑھے کہ وہ آتش فشاں کی صورت اختیار کرلے۔ جیسے گلگت بلتستان کو ایسے پیکیجز دئیے جاتے رہے ہیں جن کے حصول میں گلگت بلتستان کے لو گوں کی اپنی جدو جہد صفر تھی۔ 1974 ؁ء میں ایف سی آر کا خاتمہ ایک پیکیج تھاجس پر یہاں کے لوگ وقتی طبڑھی تبدیلی کی امید نہیں رکھی جانی چاہئے جو کسی انقلابی تحریک سے رکھی جا سکتی ہے۔ اصلاح پسند تحریکوں کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کے بڑھتے ہوئے احساس محرومی کو کچھ کم کرنے میں مدد مل جاتی ہے۔ مگر اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اصل انقلاب کے امکانات مزید کم ہو جاتے ہیں۔وہ لوگ جو ظلم ،نا انصافی اور سماجی عدم مساوات کی عدم موجودگی کا ہمیشہ رونا روتے ہیں انقلاب ان کا ایک خواب ہوتا ہے مگر لوگ جب اصلاح پسند تحریکوں کو انقلاب سمجھ کر ان کے پیچھے چل دیتے ہیں اور مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہو نے پر مایو س ہو کر جدوجہد ترک کر دیتے ہیں تو اصلی انقلاب کے شیدائی بڑے مایوس ہو جاتے ہیں۔ 

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button