کالمز

’’آخر کو ہارگئی وہ‘‘

تحریر: محمد جاوید حیات

میری اور اس کی اکثر لڑائی بچوں کی تربیت پہ ہوتی ہے۔میں ہارتا ہوں وہ جیتی ہے۔وہ اپنی ضد پہ آڑتی ہے میں بے بس ہوجاتا ہوں ۔اس کی تیز زبان،پھر آنسو اس کے ہتھیار ہیں میری خاموشی میرا ہتھیار ہے۔وہ جب تقریر شروع کرتی ہے تو میں دعاؤں میں مصروف ہوتا ہوں۔کہتا ہوں یا اللہ اس کی قوت گویائی سلب کردے ورنہ میرے قوت سماعت زائل ہوجائیگی۔الفاظ کے سارے خزانوں کا منہ میرے جانب کھول دیتی ہے۔لڑائی کا موضوع بچوں کی تربیت ہوتی ہے۔میں تربیت کے معاملے میں بہت پیچھے جاتا ہوں اور بہت نیچی بھی اُوڑان کرتا ہوں۔جب سفر نیچے کی طرف ہوتا ہے تو میرے راستے میں وہ ننگے تڑنگے اور بھوکے بچے آتے ہیں۔جن کے افسردہ چہروں پر سوال بھی ہے ،معصومیت بھی اور شکوہ وشکایت بھی۔اُن کی آنکھیں بولتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اگر پاؤں جوتا پہنے کے لئے ہوتے ہیں تو کیا خیال ہیں کہ ہمارے پاؤں ننگے ہی اچھے لگتے ہیں۔اگر بدن کپڑوں سے ڈھانپنے کے لئے ہیں تو کیا ہم بے لباس یا چھتیڑے نکالے بھلے لگتے ہیں۔اگر پیٹ بھرنے کے لئے ہیں تو ہمارے یہ خالی کیوں ہیں؟آپ لوگ تربیت ،تربیت کہتے ہیں ہماری وہ تربیت گاہ کدھر ہے۔۔۔۔میں تڑپ اُٹھتا ہوں میرے بچے کھانا کھاتے ہیں۔جوتے کپڑے پہنتے ہیں۔۔۔پھر میں بہت پیچھے جاتا ہوں حضرت فاطمہؓ کھبی ننگے سرنہیں ہوئیں۔حضرت عائشہؓ نے کھبی دنیا کی چکاچوند کی آرزونہ کی۔حضرت عمیرؓ 16سال کی عمر میں جہاد میں شرکت کی اجازت نہ ملنے پر روئے اجازت لے کر شامل ہوئے شہادت سے سرفراز ہوئے۔۔۔میں واپس آتا ہوں میرا گھر ننگے سروں بھرا ہوا ہے۔ماں بیٹی ننگے سر،سرخ ہونٹ ناخن لمبے لمبے چہرے رخسار پھر بال۔۔۔پھر گڑیا جیسی ۔۔۔۔پھر باتیں بے ترتیب۔۔۔میں ٹوٹ جاتا ہوں ہماری لڑائی ہوتی ہے ہاں بہت لڑائی ہوتی ہے۔۔۔میں کہتا ہوں بچے ٹوپی پہنیں ۔۔۔وہ کہتی ہے پاگل ہوتم بچے ہیں گرمی میں سر پک جائیں گے۔۔۔پتلون شرٹ کی حمایت میں کہتی ہے کہ وہ کپڑے دھو دھوکے تھک جاتی ہے۔ان کو مہینوں دھونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔بال کٹوانے پہ کہتی ہے۔ان کے سرٹنڈ کرکے کیا کرتے ہو میرے بچوں کے کتنے خوبصورت بال ہیں۔۔۔۔

محمد جاوید حیات
محمد جاوید حیات

بچی سرننگی کرے کوئی پرواہ نہیں۔ناخن بڑھانے کوئی مزئقہ نہیں میک اپ کرکے چڑیل ہے تو کوئی اعتراض نہیں۔۔یہ گھر کرہتی اس کی تعلیم کی راہ میں روکاوٹ ہیں یہ بچی اگر کسی گھر میں بیاہی جائے گی تو بڑے فخر سے یوں ہی کہے گی۔۔۔کہ میری ماں نے مجھ سے کھبی چائے تک نہیں پکوائی۔۔۔میں تیری لونڈی تھوڑی ہوں۔۔۔۔میں یہ سب ماننے کے لئے تیارنہیں اس لئے روز لڑتے ہیں۔میں نے اپنی ماں کوکام کرتے دیکھا ہے۔سرڈھانپتے ،ناخن کاٹتے،پردہ کرتے اور اپنے آپ کو سنبھالتے دیکھا ہے۔میں نے اپنے باپ کو محنت کرتے،سچ بولتے،شکرکرتے ،اللہ سے ڈرتے دیکھا ہے۔مجھے ان کے الفاظ اور ان کی باتیں یاد ہیں۔ان کا غریبوں کے لئے درد،بچوں پہ شفقت ،ہمسایوں کی خدمت اور بزرگوں کا احترام یاد ہے۔میں نے سیکھا بھی ہے اس لئے اپنے گھر میں پرانی تہذیب کی اکیڈیمی کھولنا چاہتا ہوں میم صاحبہ اس راہ میں بڑی روکاوٹ ہیں۔حالانکہ میری نہیں اس کی گود پہلی تربیت گاہ ہے۔میرے بچوں کا بگاڑ وہاں سے شروع ہوتا ہے اصل تعلیم تربیت اور کردار ہے۔ایک عظیم ماں ایک عظیم استاد ہوتی ہے۔پہلی تربیت گاہ کی پہلی سربراہ۔۔۔ایک دن ہم پھر لڑرہے تھے ۔میری ساری دلائل بے کار ہورہی تھیں میں بس ہارنے ہی والا تھا۔کہ میرا بیٹا اور بیٹی لڑتے لڑتے آدھمکے بیٹے کی شرٹ کے بٹن ٹوٹے ہوئے تھے۔بیٹی کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ہونٹوں کے کنارے تھوڑی سی سرخی تھی ۔۔۔۔بیٹی نے چیخ کرکہا کہ اس ناہنجار نے میرا برش توڑا۔۔۔

بیٹے نے دانت پیس کرکہا اس نے میری شرٹ کھینچ کربٹن توڑدی۔قریب تھا کہ یہ پھر گھتم گھتا ہوجاتے۔میری میم نے چیخ کرمجھ سے التجا کی کہ ان کو سنبھالو۔میں کھڑا ہوگیا دونوں کو ایک ایک ’’مردانہ وار‘‘تھپڑ رسید گیا۔’’چاخ‘‘کی آواز سے قریبی پہاڑ گونج اُٹھے۔پھر میں نے کہا 10منٹ کے اندر اگر انسانی لباس میں میرے سامنے حاضر نہ ہوئے تو تمہیں پاؤں تلے روند دونگا۔میری میم سرجھکائے رورہی تھی۔10منٹ نہیں گذرے تھے کہ میرا بیٹا کپڑے پہنے سر میں ٹوپی پہنے آگے اور بیٹی موٹی چادر اوڑھے اس کے پیچھے پیچھے آحاضر ہوئے۔اُنہوں نے سلام کیا۔۔۔میری میم نے ہچکی لیتی ہوئی کہا۔۔۔میرے بچو!آپ کی ابو سچ کہتا ہے۔۔۔۔میں نے کہا بچو!تم ایک مسلمان گھر کے چشم وچراغ ہو تمہاری خوبصورتی ،تمہارا مقام،تمہاری عظمت،تمہارا مرتبہ اسلام میں ہے۔پیچھے جاؤ میرے بچو!بہت پیچھے ۔۔۔وہاں جہاں سے فخرانسانیت ؐنے انسانیت کی تعمیرشروع کی تھی۔میرے بچوں کے سرجھکے ہوئے تھے۔انہوں نے آنسوپونچھتے ہوئے کہا ابو ہم پیچھے جائیں گے بہت پیچھے ۔۔۔۔اس تربیت گاہ میں پہنچیں گے جہاں پر بحیثیت مسلمان ہمارا تعارف ہوتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button