کالمز

’’پھنڈر‘‘ 

تحریر: امیرجان حقانیؔ 

مغرب کی آذان ہورہی تھی اور پھنڈر کے مناظر شام کی دھندلکیوں میں میرے سامنے رقصاں تھے۔فضا میں خنکی تھی۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔دل مستی میں مچل رہا تھا اور دماغ اگلے لمحات کی کڑیوں کو سلجھارہا تھا۔ ہم قافلے کی شکل میں پھنڈر کے حدود میں داخل ہوئے۔ پی ٹی ڈی سی ہوٹل پھنڈر کے ابتداء میں ہے۔ گورنر پیر کرم علی شاہ پروٹوکول کے ساتھ ہوٹل سے مین روڈ کی طرف اتر رہے تھے۔ ہمارا قافلہ دیکھ کر ان کی گاڑیاں رک گئی ، ہم آگے بڑھے اور سیدھا جاکر نماز مغرب کے لیے پھنڈرمسجد میں اتر گئے۔ یہ مسجد مولانا شفیق الرحمان والی مسجد کے نام سے معروف ہے جس کی بنیاد قاضی عبدالرازق نے نصف صدی پہلے رکھی تھی ۔

haqqani in langet grasslandجب ہم گاڑیوں سے اتر کر مسجد گئے تو گورنر کی گاڑیاں کراس کر گئی۔انہوں نے بھی چترال کا قصد کیا ہوا تھا جو ہم سے پہلے وہاں روانہ ہوئے۔مسجد میں نماز مغرب ادا کی۔ مقامی لوگوں نے والہانہ عقیدت کا مظاہرہ کیا۔ ایک صاحب نے کھڑے کھڑے مسجد کی کہانی شروع کی کہ کب کیسے یہ مسجد بنائی گئی تھی۔ آہ! ان اکابر نے کتنی مشقتیں برداشت کرکے اتنی دور جاکر مسجدوں کی بنیادیں رکھیں تھیں۔ اچانک میری آنکھ کے ایک حصے میں آنسو تھرکے اور دائیں رخسار پرپھسل پڑے۔میرولی بتارہے تھے کہ نصف صدی قبل جب قاضی عبدالرازق ؒ آئے تو اہل سنت عوام کا جم غفیر جمع ہوا تھا، انہوں نے فرمایا کہ آپ کے دوسرے بھائی کہاں ہے؟ پھر خود کہا کہ جب تک ان کو نہیں بلاؤ گے میں نے پروگرام کو آگے نہیں بڑھانا، پھر کیا تھا کہ اسماعیلی برادری کو دعوت عام دی گئی اور بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوئے۔ سب نے اپنے معزز مہمان کی راہ میں دل فراش کیا۔ قاضی عبدالرازق ؒ نے ’’ لا الہ الا اللہ‘‘ پر گھنٹوں وعظ کیا۔اور آج یہی عمل ابن قاضی عبدالرازق دہرانے یہاں وارد ہوا ہے اور ہم جیسوں کوبھی ساتھ لیا ہوا ہے۔فیا للعجب۔

نماز کے بعد ہمارے میزبانوں نے پھر کارواں کی شکل اختیارکی اور ہم گلاغمولی میں آنریری کپتان حاجی عبدالحنان کے دولت کدے میں پہنچے۔فضاء میں بڑی خنکی تھی۔ ہم سطح سمند سے تقریباًگیارہ ہزار فٹ بلندی پر تھے۔گاڑیاں لان میں پارک کرکے حاجی صاحب کے مہمان خانے میں داخل ہوئے۔ غذر اور چترال کے لوگوں کی یہ ادا مجھے بہت پسند آئی کہ وہ مہمان خانے بالکل الگ تعمیر کرتے ہیں اور رہائشی مکان الگ ہوتے ہیں جس سے مہمان اور میزبان دونوں کو سہولت کار ہوتی ہے۔گلاغمولی تک روڈ پر تارکول بچھا ہوا ہے ا س سے آگے روڈ کچی ہے۔پھنڈر کے بعد گاڑیوں نے لڑھکنا شروع کیا تھا اور یہی لڑھکن چترال مستوج تک برقرار رہی۔رات بیت گئی۔ نماز فجریخ حالت میں ادا کی۔وسط اگست میں اتنی سردی چہ معنی دار۔جیسے ہی صبح کاذب کے بعد صبح صادق ہوا ،کیا دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے اتنی حسین وادی کھڑی ہے کہ الفاظ میں اس کا حسن بیان کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔حاجی عبدالحنان صاحب کا گھر تقریبا سب سے اونچائی پر ہے۔یہاں سے گلاغمولی، گلاختوری اور ہندرپ نالے کی آبادی اور مناظر واضح نظر آتے ہیں۔جس جگہ میں کھڑا ہوں وہاں سے بالمقابل ہندرپ کا نالہ اورپہاڑیاں اپنی تمام تر رعنائی کے ساتھ دکھائی دے رہے ہیں۔ہندرب سے جو نالہ اور پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا ہے وہ سید ھا سوات کالام اور کوہستان سے جاملتا ہے۔مقامی لوگوں کے مطابق آٹھارہ گھنٹے کی پیدل مسافت ہے۔اس نالے کے مشہور گاؤں مشکسترے، شیوٹ وغیرہ ہیں۔ شیوٹ میں ایک خوبصورت جھیل بھی ہے۔مقامی ساتھیوں کے مطابق اس نالے میں فطرتی مناظر، سبزہ زار،چراگاہیں بہت زیادہ ہیں اس لیے اس کو ہندرب نیشنل پارک بھی کہا جاتا ہے۔ان بوقلموں پہاڑوں اور بہتے نالوں کو دیکھ کر دل محظوظ ہوتا ہے اور فطرت پر یقین میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔یہاں کی مختلف تاریخ بیان کی جاتی ہے۔ بہرصورت یہ رنگ برنگ پہاڑ، بہتے نالے، چمکتی جھیلیں اور شفاف گلیشیئر مرور زمانے کے حوادثات و واقعات کے امین ہیں جنہوں نے ازدم تا ایں دم بے شمار فاتحین و مصلحین کو دیکھا اور بڑے بڑے مغرور بادشاہوں، راجاؤں اور نمبرداروں کی رعونت جن کے سامنے خاک میں ملی۔ زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے۔

DSC01127گلاغموی میں ایک مختصر پروگرام کا انعقاد تھا۔ قاضی صاحب نے کہا کہ ہمارے ساتھیوں کو جلدی ناشتہ دیا جائے تاکہ جو ساتھ باہر کا وزٹ کرنا چاہتے ہیں یا فشنگ (Fishing) کرنا چاہتے ہیں وہ پروگرام کے شروع ہونے سے پہلے پہلے اپنے آپ کو فارغ کرلیں۔ یوں ناشتہ کے بعد میں ، محمدنواز صاحب ،ایک مقامی ساتھی اعظم کو لیے ہندرپ سے بہنے والا نالہ جوکہ گلاختوری سے گزرتے ہوئے دریائے گوپس میں جاگرتا ہے کی طرف چل دیا ۔ اعظم نے مچھلیاں پکڑے کی مشین بھی لے آیا۔ یوں اس بہتے نالے کے کنارے پہنچا۔ بہت ہی شفاف پانی تھا اور پھیلتا ہوا نالہ آج تک دل و دماغ میں موجود ہے۔ میں ٹھنڈے پانیوں میں اتر گیا۔ بڑے بڑے سبزے ، مویشیوں کا چرنا اور دلدوز پہاڑی منظر۔اس جھیل نُمادریائی کنارے فشنگ(Fishing) کرنے کی اپنی سی کوشش کی ،لطف ضرور اٹھایا مگر کوئی ٹروٹ ہاتھ نہیں آیا ۔بالآخر چل دیے۔ہندوب گاؤں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک جھیل ہے جس کو ہندرب جھیل کہا جاتا ہے۔ ہمارا قافلہ یہاں کافی دیرتک جھیل کو دیکھتا رہا۔ اس جھیل کنارے روڈ سے ہندرب کام ویو بے حد جاذب لگتا ہے۔ جھیل روڈ کنارے ہے مگر کوئی ہوٹل نہیں ہے۔

یہ مسجد خالد بن ولید ہے۔ اس کی بنیاد 1880ء حاجی عبدالحنان کے والد نے رکھی۔یہ اپنی ہیئت کی چھوٹی سی خوبصورت مسجد تھی۔ بڑے بڑے پتھروں اور لکڑیوں سے بنائی گئی تھی۔ گزشتہ سال حاجی صاحب نے ازسر نو تعمیر کا ارادہ کیا اور قاضی نثاراحمد کو دعوت دی کہ ازسرنوتعمیرکی ابتداء کریں۔ انہوں نے ابتداء کرکے دعائے خیر کی اور اس سال پھرنئی مسجد کے افتتاح کے لیے دعوت دی ،یوں ہم ایک قافلے کی شکل میں حاضر ہوئے۔ نوبجے باقاعدہ پروگرام شروع ہوا۔ مولانا چراغ الدین نے اسٹیج سکرٹری کے فرائض انجام دیے۔ مجھے بھی موقع دیا گیا۔ میں نے آیت کریمہ’’ لاالہ الاا للہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد ، وھوعلی کل شئی قدیر‘‘ اور حدیث مبارکہ’’ ان اللہ یرفع بھذا الکتاب اقواما و یضع بہ آخرین‘‘ پر چالیس منٹ گفتگو کی۔

قاضی نثاراحمد نے توحید و سنت پر ایک تفصیلی خطبہ دیا۔تمام تقریر کا خلاصہ یوں بیان کیا کہ ’’ میری تمام چھوٹی بڑی کوششیں خلافت کے قیام کے لیے ہے، جو بھی دینی کام کرتا ہوں اس میں رضائے الہی اور قیامِ خلافت کی نیت ہوتی ہے اس کے سوا کچھ نہیں‘‘۔ اس پروگرام کی سب سے اہم اوربڑی بات یہ تھی کہ آنریری کپتان حاجی عبدالحنان نے گلاختوری اور گلاغمولی کے اسماعیلی برادری کے سیلکٹڈ چالیس بزرگوں، مُکھیوں اور ذمہ دار لوگوں کو مسجد کے افتتاحی پروگرام میں حضرت قاضی صاحب کو سننے کی دعوت دی تھی جو تمام کے تمام حاضر ہوئے تھے۔ ہمارے لکھاری دوست جاوید کاکاخیل بھی صف اول میں تھا، بقول ان کے صف اول کے تمام اسماعیلی ذمہ داروں نے بڑی خوشی اور مسرت کے ساتھ اس مجلس میں حاضری دی تھی‘‘۔یہ دونوں مکتبہ فکر کے سرکردہ لوگوں کی ایک محفل تھی۔ تمام اسماعیلی برادری کے لوگوں نے قاضی صاحب کو عقیدت سے سن لیا، اور پھر سب نے مسجد میں ہی مل کر ایک ساتھ کھانا تناول کیا۔چترال سے واپسی پر اسماعیلی ریجنل کونسل کے اراکین نے ملنے کا اصرار کیا تھا مگر قاضی صاحب اگلی دفعہ حاضر ہوکر تمام پھنڈر والوں کے ساتھ تفصیلی نشست کرنے کا وعدہ کرکے گلگت پہنچ گئے۔

DSC01132رات کو اہل علم اور علاقے کے معززین کی ایک علمی محفل سج گئی۔ سب سے زیادہ جس چیز کو زیر بحث لایا گیا وہ اقراء روضۃ الاطفال کے سکولوں کی خدمات و کردار اور نقصانات تھا، کچھ دوستوں نے تو اقراء اسکول کو سم قاتل قرار دیا لیکن احقر نے مضبوط دلائل کے ساتھ رد کیا۔ کچھ ایسے سوالات اٹھائے کہ انہیں خاموش ہی ہونا پڑا۔پھنڈر ایک بڑی تحصیل ہے۔ اس کی آبادی انیس ہزار کے قریب ہے۔اس کے مشہور گاؤں پھنڈر، ٹیرو، گلاغمولی، گلاختوری اوربرست ہیں۔ مجھے ان سب میں گلاختوری اور ہندرپ کے سنگم پر واقع علاقہ اور اسکا ویووبہت ہی پیار ا لگا۔ گندم کی فصلیں پک کر تیار تھی، ہریالی کے درمیان مٹیالی رنگ اور درمیان درمیان میں شفاف پانی کا گزر۔ یقیناًدل بھانے کو کافی تھا۔ تحصیل پھنڈر میں اس وقت(25-08-14) انیس مساجد ہیں۔ جس میں صرف گلاختوری کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے اور اتفاق سے جس دن ہم وہاں تھے روز جمعہ تھا۔ قاضی صاحب نے پھنڈر کی اکلوتی جامع مسجدخاتم الانبیاء گلاختوری میں نماز جمعہ پڑھایا ۔ ایک بڑی تعداد نے شر کت کی۔ پھنڈرمیں عموما ایک فصل گندم یا مکئی کی کاشت کی جاسکتی ہے۔ چھ ماہ اکثر علاقہ برف سے ڈھکا ہوتا ہے۔ یہ ٹروٹ مچھلیوں کا مسکن ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا کی سب سے لذیذ ٹروٹ یہاں پایا جاتاہے۔پھنڈر میں تین اقراء روضۃ الاطفال کے اسکول ہیں اور چھ تعلیم القرآن ٹرسٹ کے اسکول بھی ہیں۔چترال سے واپسی پر بھی پھنڈر میں تھوڑا رکے۔ حاجی عبدالحنا ن کے گھر دوپہر کا کھانا کھایا۔ مولانا شفیق الرحمان صاحب کے والد کی زیارت کے لیے ان کے گھر گئے ۔ ایک سو چھ سال کی عمر کے ایک’’ نوجوان بوڑھے‘‘ سے ملاقات ہوئی۔ دلچسپ اتنا تھا کہ قاضی صاحب کو سلام کرتے ہوئے پوچھا کہ چترال سے کوئی نئی بھابھی لے کرآئے ہونگے۔ پورا مجمع ان کی مزاحیہ باتوں سے سرشار ہوا۔ سفر کی تھکن ختم ہوئی۔ یہاں سے چند قدم پر واقع بھائی عبدالمرادکے گھر عصرانہ تھا۔ وہاں ایک مسجد کی افتتاح تھی۔ یہ مسجد پی ٹی ڈی سی ہوٹل پھنڈر کے متصل ہے۔ وہ ایک پرتکلف کھانا تھا، تمام احباب اور مقامی لوگوں نے جم کر کھایا اور نماز عصر اس مسجد میں ادا کی گئی ۔ قاضی صاحب اور دیگر مہمانوں نے مسجد کو خوب اچھی طرح دیکھا، عبدالمراد سے مسجد کو مزید وسیع کرنے کے لیے جگہ دینے کو کہا جو انہوں نے قبول کیا۔ قاضی صاحب نے حاضرین سے مختصر خطاب بھی کیاا ور مسجد کا نام ’’مسجد ابوبکر صدیق‘‘ رکھا۔

DSC01120پھنڈر کی خوبصورتی مسلم ہے۔ پہاڑی ٹیلوں سے نالوں کے بیچوں بیچ پانی بہہ کر دریائے پھنڈر کی شکل اختیار کررہاہے۔یہی دریا دریائے گوپس کے نام سے دریائے گلگت سے ہوکر دریائے سندھ جاگرتا ہے اور بدقسمتی سے اس کی رائلٹی پر صوبہ کے پی کے قابض ہے۔ پھنڈر میں ندی نالوں اور پہاڑیوں کے ساتھ لپٹی سڑک ایک لکیر جیسی نظر�آ رہی تھی۔اس پر گاہے گاہے کوئی جیپ یا سوکھی گھاس سے لدی کوئی ٹریکٹر نظر آتی تھی۔گاڑیوں سے بھی نظارہ قابل دید تھا۔کہیں پہاڑ سے پانی آبشاروں کی صورت میں اس کچی سڑک کے آس پاس گرتا نظرآتاتھا اور اس کی خنکی محسوس ہوتی تھی۔نظریں اٹھا کر اوپر دیکھیں تو پانی گویا پہاڑ کی چوٹی سے آتا محسوس ہوتا تھا۔یعنی گلیشئرسے ۔ٹیرو اوربرست کے مقامات پر سڑک کے ساتھ ساتھ چند مکانات، پولیس چوکی ،بکریوں کے ریورڈ اور گھاس کے بڑے بڑے کھیت نظر آئیں گے جہاں خواتین و حضرات گھاس کاٹتے ،جمع کرتے اور محفوظ مقامات تک پہنچاتے نظرآتے تھے۔چراگاہوں میں مختلف پھولوں کے شگوفے کھل کھل کر اپنی رعنائی کا ثبوت پیش کررہے تھے۔اور پھر دریا اور نالوں کو پار کرنے کا مقامی بندوبست۔دریا نیچے کہیں گہرائی میں منہ زور گھوڑے کی طرح رواں ہے اور کہیں انتہائی سلاست سے۔ہر دو صورتوں میں پانی کی شفافیت مسلم و باقی۔ چھوٹے دریا اور بہتے نالوں کے اوپر مضبوط رسیوں سے بنائے گئے پل یا پھر بڑے لکڑی کے تختے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پل کا کام دیتے ہیں۔مقامی لوگ اکثر ان پگڈنڈی پلوں کو میل ملاپ، غمی خوشی اور مویشیوں کو آس پاس لے جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔(جاری)

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button