Uncategorizedکالمز

ہماری شناخت کیا ہے۔؟

my Logoمحترم قارئین گستاخ فطرت نے مجبور کرکے آج ایک اور اہم موضوع لیکر پیش خدمت ہوں ، گفتگو سے پہلے عرض کرتا چلوں مجھے نہیں معلوم کیا وجہ ہے میرے کہ میرے ذہین میں خطے کی موجودہ نظام کے حوالے سے مثبت سوچ کا کہیں نام نشان بھی نہیں۔میں جب گلگت بلتستان کی تاریخ اور موجودہ حالات کے بارے میں سوچتا ہوں توایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں اہل فکر طبقہ بھی معاشرے کے حالات اور لوگوں کی رویوں سے پریشان ہوکر ناامیدی کی دلدلوں میں ڈوب چکی ہے۔لیکن مراعات یافتہ طبقہ ہمیشہ کی طرح آج بھی خطے کی مستقبل کو تاریک راہوں کی طرف دھکیلنے میں مصروف نظر آتے ہیں اسی طرح کچھ لوگ پچھلے 67سالوں سے خطے کی تاریخ کو کچھ لوگ ذاتی عناد کی بنیاد پر مسخ کرنے کی کوشش میں مگن ہے۔ حکمران طبقہ اس لئے بھی خوش ہے کہ انہیں مختلف اوقات میں پیکجز کے نام پر وفاق کی طرف سے مراعات مل رہے ہوتے ہیں جس کی بدولت کی کارباور میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔

خطے کے حوالے سے اگر ہم چند لمحوں کیلئے وفاقی عینک لگا کردیکھیں تو سب کچھ بلکل ٹھیک نظر آتا ہے حکومت قائم دائم ہے وزارتیں چل رہی ہے عوام ملک کی محبت سے سرشار ہے ہمارے جوان پاکستان کی سرحدوں پر دن رات ڈیوٹیاں دیکر پاکستان کی حفاظت کر رہے ہیں، خطے سے تعلق رکھنے والے کوہ پیماہ حضرات بلند بالا چوٹیوں پر پاکستان کا جھنڈا لہرا رکر فخر محسوس کرتے ہیں، یعنی ہر طرف سے پاکستان کا نام اونچا کرنے کی کوششیں جاری ہے تاکہ دنیا میں مملکت پاکستان کو ایک بلند مرتبہ ملے۔ہمارے عوام تن من دھن سے پاکستان کا نام روشن کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، لیکن اے کاش صرف ایک لمحے کیلئے ہم آئین پاکستان میں گلگت بلتستان کے عوام کا پاکستانی ہونے کے حوالے سے ایک شق تلاش کرتے شائد ہمیں محسوس ہوتاکہ ہم تو بیگانے کی شادی میں دھمال ڈال رہے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارے لوگ صرف خدمات فراہم کر رہے ہیں جس کے عوض ہمیں پیسے ملتے ہیں قانونی اور آئینی نقطہ نظر سے ہم آج بھی ہمارا خطہ 67سالہ نابالغ ہے جو ووٹ دینے کی اہل نہیں رکھتے ۔

دکھ تو اس بات کی ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اور وزارت قانون کی طرف سے تردید کے باوجود ہم بضد ہے کہ نہیں جی ہمیں تو پاکستانی ہونے پر فخر ہے ، ننگا پربت سے لیکر کے ٹو،سیاچن،تمام برفانی گلیشیرز،تمام سیاحتی مقامات،سوست سے لیکر قراقرم،شندور سے لیکر دیوسائی کی حسین وادیاں پاکستان کی پہچان ہے اور پاکستان بھی اس بات کو قبول بھی کرتے ہیں ایسے میں اور کیا ثبوت چاہئے پاکستانی ہونے کیلئے۔لہذا عرض ہے کہ اصل مسلہ قومی شناخت کا ہے کیاہمارے عوام بھی پاکستان کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ووٹ دینے کی اہل رکھتے ہیں؟ کیا ہمارے اس نام نہاد صوبے کا ذکر پاکستان کے دستور میں کہیں موجود ہے؟ بلکل نہیں پاکستان میں صرف چار صوبے ہیں لیکن یہ صوبہ گلگت بلتستان صرف وسائل پر قبضے کیلئے ایک ٹوپی ڈرامہ ہے جسے ہمارے ہی لوگوں کو پیسے دیکر چلایا جارہا ہے۔یعنی ہم آج بھی غیر قانونی پاکستانی کہلاتے ہیں جو پاکستان سے والہانہ محبت کرتے ہیں ملک کی بقاء کیلئے جان دینے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں لیکن ظالم معشوق اس عاشقی کوصرف حسب ضرورت قبول کرتے ہیں تاکہ دنیا کو باور کرایا جاسکے کہ یہاں ہماری حاکمیت قائم ہے۔ہم سب اس بات پر بڑے فخر کرتے ہیں کہ ہمارے آباو اجداد نے بغیر کسی جنگی تربیت کے ایک طویل خطے کو آذاد کراکے ملک معرض وجود میں لایااسکے بعد کیا ہوا ہم نے اپنے ہیروز کے ساتھ کیا برتاو کیا، کیسے اس خطے کو کچھ عناصر نے سازش کا شکار بنا کر کشمیر اور پاکستان کے درمیان کچلا دیا ایک در ناک کہانی ہے ۔لیکن پاکستان کے ساتھ الحاق ہوا یا نہیں اس بات کا بھی کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں البتہ الحاق کے نام پر اُس وقت ہیروز کی مرضی کے بغیر کچھ لوگوں کی مفادات اور مرکزی قائدین سے عقائد کی اختلاف کے سبب ریاست کو سیاست کی نذر کرکے آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔

آج بھی کچھ عناصر اُسی سازش کے بارے میں صفائیاں پیش کرتے نظر آتے ہیں ایسے کئی وجوہات کی بناء پر یہاں قوم پرستی نے جنم دیا جوکہ اب پھیل کرگاوں دیہات کی سطح تک پونچ چکے ہیں اب تو گاوں کے بچے بھی والدین سے سوال کرتے ہیں کہ ہم سال میں تین بار جشن آذادی کیوں مناتے ہیں کیا ہمیں اسطرح کی جشن منانے کے پیسے ملتے ہیں؟ اگر ہم پاکستانی نہیں ہے تو چودہ اگست بڑے شان سے کیوں مناتے ہیں؟اور اگر ہے تو یہ یکم نومبر اور 15اگست کی یوم آذادی کا کیا مطلب ہے؟ کیا پاکستانی کے باقی آئینی صوبے بھی یوم آذادی سندھ ،پنجاب،بلوچستان اور سرحد مناتے ہیں ؟بلکل نہیں کیونکہ یہ چار صوبے آئینی طور پر پاکستان کا حصہ ہے لہذا یوم پاکستان ہی ان صوبوں کے سرکاری دن ہوتے ہیں یعنی اس وقت گلگت بلتستان کے عوام ایک عجیب ذہنی کوفت کا شکار ہے کیونکہ اگر کسی نے کچھ ایسا کہہ دیا تو غدار کہلاتے ہیں اور اگر کسی نے وفاق کی تعریف کی تو بھی غدار کہلاتے ہیں۔ آخر ہم ہے کون؟ ہماری شناخت کیا ہے ؟ہم کہاں کے شہری ہیں؟ کیا صرف ہمارے وسائل اورٹیلنٹ پاکستانی کہلاتے ہیں؟ یا یہاں کے عوامی مسائل بھی پاکستانی ہونے کے زمرے میں آتا ہے؟ اگر ہے تو کیوں ہمارے عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے ؟۔کیوں جب کبھی یہاں کے باشندے اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے کی کوشش کریں تو ناموافق صورت حال پیدا کرتے ہیں؟ کیوں ہمارے خطے کی قوم پرست رہنماوں پر غداری کا الزام لگایا جاتا ہے؟ کیا پاکستان کے دوسرے آئینی صوبوں میں قوم پرست جماعتیں نہیں؟کیا کراچی میں قوم پرستی کی بنیاد پر قائم ہونے والی پارٹییاں حکومت میں نہیں؟کیا بلوچستان میں قوم پرست جماعتیں حکومت کونہیں للکارتے؟ بس ایک فرق ہے وہ آئینی صوبوں کے شہری ہیں لہذا غدار نہیں کہلاتے اور گلگت بلتستان چونکہ آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں لہذا یہاں عوامی حقوق اور ریاست کی حیثیت کے بارے میں بات کرنا بھی غداری کے زمرے میں آتا ہے۔لہذا گلگت بلتستان کے قوم پرست جماعتوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ آج قوم پرست جماعتیں ہی دراصل خطے کی حقیقی ترجمانی کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے سیاسی میدان میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی لہذا قوم پرستوں کو سیاسی مقام حاصل کرنے کیلئے عوام کو پالیسی دینے ہونگے تاکہ ان کرائے کی سیاست دانوں کا صفایا ہوسکے۔

اس طرح اگر ہم عوام سطح پر بات کریں تو ہمارے عوام بھی اب محسوس کر رہے ہیں کہ واقعی میں آخر ہماری بھی کوئی شناخت ہونی چاہئے جس کیلئے بہتر رہنماوں کا انتخاب ضروری امر ہے کیونکہ اسی طرح ہم اگرموجودہ سیاسی نظام کی حمایت کرتے رہیں گے توکوئی بھی ہمیں طشتری میں سجا کر حقوق دینے نہیں آئیں گے لہذاعوامی سطح پرظلم کے خلاف آواز بغاوت بلند کرنے ہونگے تب جاکرقومی زندگی میں تبدیلی ممکن ہے۔ہمارے ہاں آج تک وفاقی لوٹوں کی بہکاوے میںآکر ہمارے عوام اپنے ہی قومی لیڈران کو صرف اس وجہ سے تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں کہ وہ خطے کو بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں حقوق دینے کی بات کرتے ہیں لیکن یہی ساری باتیں جو کل تک غدار سمجھنے والے کر رہے تھے آج قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیرمین نے بھی کھل کر کہہ دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اسلام آباد کو گلگت بلتستان کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہئے صوبہ بنانے کی جھوٹے وعدوں کے ساتھ اب خطے کو نہیں چلایا جاسکتا اس بیاں نے ایک بار پھر وفاق پرستوں کو آئینہ دکھا دیا ۔لہذا اب یہاں کے عوام کو سوچنا چاہئے کہ اسی طرح ہر پانچ سال بعد چند مفاد پرست عناصر کی کرسی کیلئے ووٹ دینے کو ہی فرض سمجھتے رہیں گے تو کبھی بھی اس خطے کو آئینی اور قانونی طریقے سے شناخت نہیں مل سکتے۔ اور شناخت کے بغیر ہم چاہئے کسی کیلئے جتنا بھی نعرہ لگائیں بے سود ہے قومی شناخت ہر انسان کا قانونی اور معاشرتی حق ہے جس کیلئے جدجہد کرنا بھی لازمی امر ہے کیونکہ شناخت کے بغیر قوموں کی کوئی حیثیت نہیں لہذا سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر ہماری شناخت کیا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button