کالمز

بلاول کا پاکستان 

گلگت بلتستان کا باشندہ ہونے کے ناطے ملک کے آئینی حصوں میں قائم سیاسی پارٹیوں کے بارے میں قلم اُٹھانے کا حق تو نہیں رکھتا لیکن عادت سے مجبور ہوکر یہ گستاخی کررہا ہوں۔ امید ہے کہ اس بے آئینی کی گستاخی کو میرے آئینی دوست ایک تلخ حقیقت سمجھتے ہوئے معاف فرمائینگے۔

18اکتوبر کو صبح سے ہی مجھے پیپلز پارٹی کا جلسہ دٹی وی پر دیکھنے اور بلاول کی تقریر سننے کیلئے بے تابی سے انتظار تھا۔ اسکی شاید دو وجوہات تھیں: ایک یہ کہ ہم روزانہ تقریریں سننے کے عادی ہوچکے ہیں اورماشااللہ ہم یوم آزادی سے ہر روز یہ تماشہ دیکھتے آرہے ہیں۔ کیونکہ ان تقریروں میں سیاست سے زیادہ تفریح کا عنصرپایا جاتا ہے اور طنز مزاح کے ساتھ ساتھ رقص اور موسیقی سے بھی لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔ ان جلسوں کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ خواتین بھی انڈین ڈراموں کو چھوڑ کر اب پاکستانی نیوز چینلز دیکھنے لگیں ہیں جس کا ثبوت پاکستانی پرائیویٹ چینلز کی ریٹنگزہیں۔

Najmiانتظارکی ایک اور وجہ بلاول بھٹو زرداری کی تقریر سننے کا اشتیاق تھا۔ کیونکہ اس تقریر میں شہدائے جمہوریت و عوام زولفقار علی بھٹو اور محترمہ شہید کی جھلک نظر آنے کا امکا ن تھا اور مجھے اسی جھلک کی تلاش تھی۔ جلسے کا آغاز ہوا پیپلز پارٹی کے سینئر لیڈران نے اپنی اپنی صلاحیتوں کے عین مطابق تقریریں کیں۔ تمام تقریریں روایتی انداز کی تھیں۔ ان کا کوئی خاص اثر میرے اوپر نہیں ہوا۔ البتہ میری سماعت کو تب ٹھیس پہنچا جب سابق صدر اور پاکستان کی موجودہ سیاست کے جادوگر آصف علی زرداری صاحب نے یہ فرمایا کہ یہ ہے بلاول کا پاکستان ۔۔

کاش صدر صاحب یہ فرماتے کہ یہ ہے قائداعظم کا پاکستان ۔اس ملک میں بسنے والے غریبوں کا پاکستان ۔

اس میں سابق صدر صاحب کی بھی غلطی نہیں ہے یہ واقعی ان صاحب زادوں کا پاکستان ہے جو منہ میں سونے کی چمچ لیکر پیدا ہوتے ہیں۔ تعلیم اور صحت کے سہولیات سے محروم وہ پاکستانی بچے جنکو دووقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی وہ بچے جن کا بچپن غربت کی نذر ہوتا ہے، جو کھلونوں والی گاڑیوں سے کھیلنے کے بجائے ہاتھ میں ہتھوڑے لیکر ورکشابوں میں اصلی گاڑیوں سے کھیلتے ہیں۔ وہ بچے جو ہوٹلوں میں برتن دھوتے ہیں، اور بعض تو بھکاریوں کے مافیا کے ہاتھوں استحصال کا شکار بن جاتے ہیں جنکو دنیا کی خوشیوں اوربچپن کی مستیوں کے بارے میں پتہ بھی نہیں ہوتا جنکی راتیں مخمل کے بستر پر نہیں بلکہ شہر کے فٹ پاتھ پر گزرتی ہے، یہ انکا پاکستان تو نہیں ہے۔ ان کا جرم صرف اتنا سا ہے کہ یہ کسی وزیر ، جاگیردار یا سرمایہ دار کے ہاں پیدا نہیں ہوئے بلکہ ایک غریب کے گھر میں جنم لینے والے انسان نما کیڑے مکوڑے ہیں۔

بلاول نے ماں کا دکھ ضرور دیکھا ہے اور ہم اس دکھ میں انکے ساتھ برابر کے شریک ہیں مگر اُس یتیم جیسے حالات سے بلاول کبھی بھی نہیں گزرا ہوگاجو سماج کے ظلم اور ناانصافی کے باعث مشق ستم بن جاتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا بلاول ان زمانے کے ستائے اور ظلم کے شکار بچوں اور نوجوانوں کی آواز بن سکےگا؟ بلاول کی تقریر میں میں صرف اور صرف اس پہلو کو تلاش کرتارہا لیکن بد قسمتی سے کہیں پر بھی یہ پہلو مجھے نظر نہیں آیا۔

بلاول زوالفقار علی بھٹو کا حقیقی وارث ہے یا نہیں اس بات سے قطع نظر محترمہ شہید کا لخت جگر ہونے کی وجہ سے بلاول کے چاہنے والوں کی کوئی کمی نہیں پیپلز پارٹی کے جیالوں کی اس خوبی سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ اپنے قائدین پر جان تک نچھاور کرتے ہیں اور اسکی مثال سانحہ کارساز سے لیکر محترمہ شہید کی شہادت اور تازہ مثال 18اکتوبر کے جلسے میں جان کی بازی ہارنے والا جیالا تک ملتا ہے جسکی لاش جلسے میں تزلیل انسانیت کی مثال بن کر ایک کونے میں پھینکا پڑا رہا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلاول اپنے نانا اور ماں سمیت ان شہداء کے مشن کو جاری رکھنے میں کامیاب ہوسکے گا جنہوں نے اپنی جانوں کا نظرانہ دیکر بھٹوازم کی آب یاری کی ہیں۔۔؟ میری ناقص سوچ کے مطابق پیپلز پارٹی کے پالیسی سازوں نے بلاول کو وقت سے پہلے امتحان میں ڈالنے اور مورثی و خاندانی سیاست کی ایک اور چراغ کو جلانے کی کوشش ضرورکی ہے ۔

یہ صرف بلاول کا مسلہ نہیں ہے اس ملک میں مریم نواز ،مونس الہی،حمزہ شہباز جیسے سیاست کے نئے وارث جو پاکستان پر حکمرانی کو اپنے خاندانی جاگیر سمجھتے ہیں اوراپنے آپکو پاکستان کے غریب عوام کے سامنے متعارف کرانے اور اپنے حق میں نعرے لگوانے کیلئے ہر وقت بے تاب نظر آرہے ہیں کیا عمران خان اور قادری کے انقلاب اور آزادی کا نعرہ اِن سونے کے چمچ منہ میں لیکر پیدا ہونے والے شہزادوں اور شہزادیوں کو روک سکے گا ۔۔؟

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان پاکستان کا قومی ہیرو ہے اور بہت سے لوگوں کا آئیڈیل بھی عمران کے نعرے بھی حالات کے حساب سے ٹھیک ہیں اور مڈل کلاس کے تعلیم یافتہ نوجوان بھی عمران کے ساتھ ہیں مگرخان صاحب جس گاڑی میں سفر کرتا ہے اور جس ہیلی کاپٹر پر وہ پرواز کرتا ہے جن اثاثوں کا وہ مالک ہیں اور اپنے بچوں کو جہاں پر وہ پڑھا رہا ہے اِن تمام حقائق کے باوجود خان صاحب سے لوگوں کو تبدیلی کی امید اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے عوام کو قائد اعظم کے بعد کسی ایسے قومی لیڈر کی ضرورت ہے جو اس ملک کو پھر سے سنبھال سکے جس کے سینے پر سقوط ڈھاکہ کے نشان اب بھی موجود ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button