کالمز

قربانی

ہمارے یہاں عمومی طور پر جان کی قربانی کو ہی اصل قربانی سمجھا جاتا ہے اور اسے مختلف تمغے و اعزازات سے نوازاجاتا ہے دن منسوب کردئے جاتے ہیں اور صدیوں تک اس جان کی قربانی کی یاد منائی جاتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا لفظ قربانی کو صرف خون یا جان سے منسوب کردینا خود اس لفظ کے ساتھ انصاف ہے یا نہیں ؟کیونکہ جان کی قربانی ایک ظاہری قربانی ہے جبکہ قربانی کی ایک اور غیر ظاہری شکل جیسے ہماری اجتماعی بے حسی اور خود غرضی کی وجہ سے کبھی بھی قربانی تصور نہیں کیا گیا وہ ہے احساسات و جذبات کی قربانی جیسے اعزازات اور تمغوں سے نوازنا تو دور وقتی ستائش کا حق دار بھی نہیں سمجھا جاتا حالانکہ دیکھا جائے تو جان کی قربانی دینے والا تو صرف ایک ہی بار میں نجات حاصل کرلیتا ہے جبکہ احساسات وجذبات کی قربانی دینے والا کا شمار نہ زندوں میں ہوتا ہے نہ مردوں میں اس کی زندگی ایک ایسے کانٹوں بھرے سفر کی طرح ہوتی ہے جس میں چلتے ہوئے اگر پاؤں میں کانٹے چبھے اوریہاں تک کہ خون رسنے لگے تو اسے اپنے زخموں کی مرہم پٹی اپنی ہمت و جرات سے کرنی ہوتی ہے اور بھرم قائم رکھنے کے لئے ہونٹوں پر لفظ اف کی جگہ سدا مسکراہٹ رکھتی پڑھتی ہے۔

تحریر ۔ درِا نعم خورشید 
تحریر ۔ درِا نعم خورشید 

مثال لیجئے ایک ایسی بیوی کی جس کی شادی صرف 10 سے 15 دنوں میں ہوتی ہے کیونکہ اس کے شوہر کو سرحد پر حالات خراب ہونے کی وجہ سے صرف اتنے ہی دنوں کی چھٹی مل پاتی ہے اور سہرے کے پھول سوکھنے سے پہلے ہی اس جوان کو سرحد پر لوٹنا پڑتا ہے کیونکہ اس فوجی جوان کے لئے اپنے تمام فرائض میں سب سے افصل فرض اپنی دھرتی ماں کی حفاظت اور اپنے ہم وطنوں کی حفاظت کا فرض ہے جسے اسے ہر قیمت پر اپنی آخری سانس تک نبھانا ہے اسی طرح کبھی اپنے ملک میں ضرب عضب جسے آپریشن پر مامور اور کبھی LOC اور ورکنگ باؤنڈری کی حفاظت پر مامور اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں دن رات گھر اور بچوں کو ماں اور باپ دونوں بن کر پالتی ہے زندگی کے تمام نشیب و فراز کا تنہا مقابلہ کرتی ہے ہفتے یا مہینے میں صرف خط یا ایک فون کال کے سہارے اپنے شوہر کے ہونے کے احساس کو محسوس کرتی ہے ہزاروں حسرت بھری راتیں تنہا چاند دیکھ کر گزارتی ہے صرف اس خاطر کہ اس جیسی قربانی کسی اور کے حصے میں نہ آئے اور پھر ایک روز اسے اپنے بہادر شوہر کی شہادت کی خبر ملتی ہے الفاظ نہیں اس بہادر شوہر کی بہادر بیوی کے لئے جو شہادت کی خبر پر بھی یہ کہتی ہے کہ ’’مجھے فخر ہے اپنے شوہر کی شہادت پر اور میرے بیٹے بھی میرے وطن پر قربان‘‘۔

ہمت و بہادری کا مجسمہ بنی اس بیوہ کی اندر کی ٹوٹ پھوٹ کا اندازہ ہم اور آپ کبھی بھی نہیں لگا سکتے شوہر کی قربانی پر تمغے وا عزازات ملتے ہیں اخباروں میں تصویریں اور سرخیاں لگتی ہیں News Channelپر Breaking Newsکے طور پر Courage حاصل ہوتی ہے لیکن آخر میں اس بہادر بیوہ کی قربانی کے صلے میں ہم بہ حیثیت قوم اسے نوازتے ہیں اس بحث سے کہ دہشت گرد سے لڑنے والے فوجی جوان شہید کہلانے کے حق دار ہیں بھی یا نہیں؟

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

ایک کمنٹ

  1. محترمہ انعم صاحبۃ، ایک نوجوان عورت کے جذبات کو قربانی کے عنوان سے بہتر انداز میں پیش کیا ہے، واقعی یہ والی قربانی بہت ہی مشکل ہے اور پھر یہ قربانی بے مثال بھی تو ہے
    مجھے اپ کا کالم بہت اچھا لگا

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button