کالمز

یومِ آزادی گلگت بلتستان، ایک مختصر جائزہ

یکُم نومبرباشندگانِ گلگت بلتستان کے لئے شادما نی ، تشکُر و افتخار اور تفکُرو تدبُرکا دن ہے۔ اس دن یعنی یکُم نومبر 1947 ء کو ہمارے سپوتوں نے اپنے پسینہ و لہو سے وہ انمٹ تاریخ رقم کی جونہ صرف رہتی دنیا تک یاد ر کھی جاے گی بلکہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں طوقِ غلامی کے لعنت کو للکار نے اور جھنجھو ڑنے والی شیر دل قومو ں اور جذبہ حُریت سے سرشار اِنسانوں کے لئے باعثِ تقلید ا ور بے مَثال نموُنہء جِہاد اور اعلی و ارفع مقصد کی شاندار تکمیل کیلے رہنُما اُصو ل ہے او ر آزادی گلگت بلتستان کے لئے دی گئی ہماری بے مثال قُر با نیوں کی عظیم داستاں اگر اِس کی پوری روح کے ساتھ سمجھی جاے تو یہ دنیا کی کسی بھی بے حس قوم اور کا ہل و سُست انسان کے ذہن و روح میں جذبہ بیداری پیدا کرنے کے لئے نسخہ اکسیر ہے، جو ان کو ان کا صحیح مقام تعیں کرنے اور با لخصوص اس مقام کو پا نے کے لئے رویے ، اقدار اور فنِ حرب کے نمونے ( (Models سے فیض یاب کرے گا ۔یوں اس داستان سے د نیا کا کوئی بھی کاہل سے کاہل ترین اِنسان بھی قومی معا ملات کے دہارے کے حوا لے سے نہ سہی، کم از کم اپنی ذات کے حوالے سے تو جاگ سکتا ہے اور طاقِ سُستی کو آگاہی و جذبہ کی قوت سے پارہ پارہ کر کے ترقی کے آزاد فِضاوں میں پرواز کر کے اپنا مقام بہتر بنا سکتا ہے۔ اور اس طرح قو میں اپنی الگ تشخص کا لو ہا منوانے میں سر خرو ہو جا تی ہیں۔ یوں یومِ آزادی گلگت بلتستان کا شاندار کارنامہ اور بے مثال واقعہ نہ صرف ہمارے آباو اِجداد کے کارہاے نُمایا ں ، تاریخِ جوانمردی اور ظلم و استبداد کے خلاف نہتی قوم کے قوتِ اِیمانی کی بے مثال فتح و نصرت کے سنہرے باب کی باز گشت دہراتا اور شہیدوں کے مقدس لہو کی خوشبو سے کرہِ ارص کو معطر کرتا ہے بلکہ اپنے اندر سمجھنے والو ں کے لئے عظیم سبق ، پیغام اور علم و حکمت بدرجہ اتم سمویا ہوا ہے۔

شاہ اعظم خان، گلگت
شاہ اعظم خان، گلگت

تحریک آزادی گلگت بلتستان ہماری قومی زندگی کا تاریخ عالم کے اندر ایک ولولہ انگیز با ب اور معجزا نہ کامیابی کی روشن اور زندہ و جا وید مثال ہے ۔ اس خطے کی آزادی کا طریق کار پاکستان کے دوسرے صوبوں کی آزادی سے بہُت مختلف ہے کیوں کہ پاکستاں کے دوسرے حصوں کی آزادی با قاعدہ طور پر قومی اور بین ا لاقوامی ایجنڈے کے تحت وقوع پذیر ہو ئی ہے جبکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر گلگت بلتستاں کی آزادی کے بارے میں کسی گفت و شُنید ، عہد و پیماں اور معاہدہ کا کوئی عملی وجود ہی نہیں تھا تو ایسے میں یہاں کے غیور قوم کی غیرتِ ایمانی اور جذبہٗ حُریت جوش میں آیا اور مُٹھی بھر سکاوٹس قلیل تریں روایتی سا مانِ حرب کے باو جود مالی لحاظ سے کمزور ترین مگر اتحاد و اتفاق سے سر شار قوم کے کمک اور ذاتِ الہی کے بھروسے پر جہادِ آزادی کے عظیم مگر بظاہر ناممکن مشن کا بارِ گراں سنھبال لیا اور اپنے سے دس گنا زیا دہ عد دی ، مالی اور حر بی تجر بہ رکھنے والی دُشمن کے گھمنڈ خاک میں ملا کر 72, 494 مربع کلو میٹر (27,991 مربع میل ) کا وسیع رقبہ اپنے زورِ بازو سے آزاد کرا کے ہمت و جوانمر دی کی ایک نئی انوکھی باب سے تاریخ کے اوراق کو جِلا بخشی۔ ایسے ہی عظیم لوگوں کے شان میں ہی کہا جاتا ہے کہ:

اُ ولاالعز مانِِ دانشمند جب کرنے پہ آتے ہیں
سمندر روک لیتے ہیں، کوہ سے دریا بہاتے ہیں

میدا نِ کارِ زار کی نُمایاں فتح و نصرت او ر حصو لِ آزادی گلگت بلتستان ہمارے بہادُ ر سپوتوں کی فولادی عزم ، بے نظیر قوتِ با صرہ اور اپنے لہو سے ایک آزاد علاقے کی تشکیل و آبیا ری پوری دنیا کے لئے ایک مُنفرد ماڈل ہے اس لئے کہ یہاں گلگت سکاوٹس کے نیم تربییت یا فتہ سپوتوں نے قلیل روایتی بندوقوں اور محدود امنیشن کے با وجود ایک اعلی حربی فن سےُ مزین، اُس دور کے جدید بھاری جنگی ہتھیاروں سے لیس ، عد دی لحاظ سے دس گنا زیادہ ریگولر انڈین آرمی کے دانت کھٹا کر کے اپنا لو ہا منوا لیا۔ ہلکے ہتھیاروں سے دشمن کے تو پوں، ٹینکوں اور فضائی حملوں کا دلیری سے مقابلہ کیا اور دشمن کے سامنے آہنی دیوار بن کے ا پنے لہُو کا نذرانہ دے کر گلگت بلتستان کو آزاد کر کے قوم کا سر ہمیشہ کے لئے فخرسے بلند کیا۔ عددی و حر بی وسائل میں برابر مدِ مُقابل کو ہرا کے فتح حاصل کرنے اور اپنے سے دس گنا مادی و عد دی لحاظ سے طاقتور دشمن کو لاٹھیوں اور دیسی ساخت کی بندوقوں سے مُقابلہ کر کے نیچا دکھا نے اور ایک وسیع علاقے کو آزادی دلانے میں آسمان اور ز میں کا فرق ہے۔ یقیناً تاریخِ عالم میں یہ ایک مُنفرد فتح ہے جو ہر کس و نا کس کے بس کی بات نہیں ہے۔

َِ آزادی گلگت بلتستان کی ایک اور نُمایاں اور فِکر انگیز پہلو یہ ہے کہ ارض، شِمال اُن دِنوں پوری دنیا سے مکمل طور پر کٹی ، marganalized اور علم و ادب سے مکمل عاری خطہ تھا اور دیدہ و دانستہ یہاں کے مکینوں کو ذہنی، نفسیاتی، عقلی، مُعاشی اور سماجی میدانوں میں مہا راجہ اور مقامی راجگی نظام کے پاٹ میں قیدی بنا کے رکھا گیا تھا تو ایسے دگرگوں حالات میں مبتلا قوم بھلا کیسے انقلابی منصوبہ بندی اور حکومتِ وقت سے بغاوت کی جرات کر سکتی ۔ یہ کام تو اُمراء ، بڑے بڑے سیاست دانوں اور منجھے ہوے اعلی تعلیم یافتہ پر حکمت شخصیات کا ہے خالی پیٹ اور نہتے ہا تھوں سے صرف خواہش کی بنیاد پر ایسے عظیم کار ہاے نُمایاں سر انجام نہیں د یئے جا سکتے ہیں لیکن چشمِ فلک نے بنفسِ نفیس مشاہدہ کیا کہ جاہل اور غلام سمجھے جانے والی قوم گلگت بلتستان نے وہ کچھ کر دکھایا جو بڑی بڑی حکومتیں اس کا خواب تک نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ اے آزادی گلگت بلتستان کے شہیدوں اور غا زیوں تمہیں لاکھوں لاکھوں اور لاکھوں سلام۔

عوامِ گلگت بلتستان کا یہ عظیم کار نامہ کچھ بنیادی اُصولوں مثلا تائید ذاتِ الہی پر مُکمل یقیں، باہمی اتحاد و یگانِگت ، بھائی چارہ، احساسِ عظمتِ تشخص، توارثی جذبہ حریت ، غلامی سے فطری نفرت ، خود اعتمادی ، خود شناسی، مقصدیت اور جذبہ جہا د کی مرہون منت تھی۔ فرقہ واریت اور دیگر تفرُقات کی لعنت سے اُن کا وجود پاک و صاف تھا اور تینوں فرقے کے لوگ کلمہ شہادت کا ورد کرتے ہوے گھروں سے میداں جہاد میں نکلے تو کرمِ الہی بھی جوش میں آیا کیوں کہ یدُللہِ ِ مَعَ الجَماعَت : یعنی اللہ کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہے۔ تاریخ کے اوراق شہادتوں سے بھرے پڑے ہیں کہ ہمیشہ منظم قوم ہی تاج و تخت کے حقدار ٹھری ہیں اور آزادیِ گلگت بلتستان بھی ہمارے سابقیں کے اتحاد و بھائی چارہ اور منظم جدو جہد کا فیض ہے۔ یوں ارض، شِمال کے غیور قوم اور بہادُر نوجوانوں نے آزادی گلگت بلتستان کو اپنی مقدس خون کے نذرانے کے عوض خرید کر یہ قیمتی اثاثہ اور اس کی حصول کے کلیدی اُصول جیسا کہ اتحاد و اتفاق، تنظیم، مہر و مُحبت، خود داری عزت و احترام، اور سخت محنت وراثت میں ہمارے سپرد کی اور اب بحیثیت وارث یہ ہمارا قانونی، مذہبی، اخلاقی اور انسانی فر یضہ ہے کہ ہم صا لحا نہ انداز میں وارث ہونے کا حق ادا کریں۔ یہ اثاثہ خطہ گلگت بلتستان شہیدوں اور غازیوں کی امانت ہے اور شہید مرتے نہیں بلکہ بقول قُرآنِ مُقدس وہ زندہ ہیں تو ان کی ارواح اپنے وارثوں کے سالک یا بے سالک ہو نے پر سکھی یا دُکھی ضرور ہوتے ہو ں گے اور کوئی بھی نیک اور صالح اولاد کبھی بھی اپنے بزرگوں اور محسِنون کے شان و آن اور جسم و روح کو تکلیف پہنچانے کا بھلاکیسا سوچ سکتی ہے۔ بحیثیت قوم یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم یومِ آزادی کے مو قع پر یہ عہد کریں کہ اس خطے کو دن دوگنی اور رات چگنی ترقی دلانے میں فرقہ واریت ، بد امنی اور ہمیں جُدا کرنے والی راہیں چھوڑ کر اسلامی بھائی چارے کے بندھن میں ایک ہو کر اپنے اسلاف کی چھوڑی ہو ئی وراثت سے فیوض و برکات حاصل کریں۔ آآزادی ایک عظیم نعمت ہے۔ کسی بھی نعمت کے حصول کے بعد اُس کی قدر و قیمت ، اور سنبھال اتنا ہی مشکل ہے جتنا اس کا حصول۔ گلگت بلتستا ن کے حصول آزادی کے ستھا سٹھ سال بیت گئے ہیں آ ج ایک نا قدانہ اور طا ےئرانہ نظر یہ دکھاتی ہے کہ ہم نے معاشی، مُعاشرتی، تعلیمی، صحت، ہاوسنگ ، سیاست اور زندگی کے دیگر پہلوں اور میدانوں میں بہت ترقی کی ہے اورحتی کہ گلگت بلتستان سے افرادی قوت اندرونِ ملک اور بیرون ملک مختلف اہم زمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور یہاں کی معشیت بھی بہتری کی طرف گامزن ہے اور اِس طرح کے ہمارے اور بھی کئی ایک success stories ہیں۔ تاہم اس کے باوجود اس قوم کی ٹیلنٹ اور موجودہ ترقی کا موازنہ شا ئد اتنا حوصلہ افزا نہ ہو۔ اس کی کئی وجوہات ہیں البتہ ایک بڑی خطر ناک وجہ ہمارا آپس میں بھائی چارے کے اسلامی بندھن سے انحرف ، خانہ جنگی اور نا چاقی و بد امنی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قوموں او ر خاند ا نوں کو عروج ہمیشہ ا تحا د و یگانگت اور زوال ہمیشہ نا اتفاقی اور نا چاقی کے سبسب ہی ملا ہے۔ ہم نے بحثییت قوم بہت سی غلطیاں کی ہیں ۔ اپنے ہی بھاےؤں کی زندگیوں کا چراغ گل کر دیا ہے ، اپنی بہنوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم بنا دی ۔ یعنی خود اپنی جانوں پر ظلم کی۔ قر آں حکیم کہتا ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی تو گویا اُس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ہم اپنے اسلاف کے میراث کی لاج نہین رکھی جو امن و اشتی، رواداری، صبرو تحمل ، فیاضی اور عُفو و درگزر جیسے انمول اُ صول ہیں۔ ہم نے اپنے خون پسینے کی کمائی معیاری تعلیم، کاروبار، ہاوسنگ اور دیگر سماجی ترقیاتی منصوبوں پر لگانے کے بجاے اپنوں کو مارنے کے لئے ہتھیار ون پر اندھا دھند خرچ کی اور اس سے اپنے دیں و دنیا کو خسارے میں ڈال دیا۔ اپنے علم، تجربہ اور دانشمندی کو ایک دوسرے کے خلاف اِستعمال کر کے خود کو پرا گندہ کردی جو کسی بھی طرح نہ تو ہمارے انفرادی خاندانوں اور نہ ہی اجتماعی زندگیوں اور دیں و دنیا کے لئے پسندیدہ فعل ہے۔

کیا ہمارے آبا و اجداد کے فرقے، ذات اور قوم قبیلے نہیں تھے؟ کیا وہ ہم سے کوئی کمزور سنی، سیعہ اور اسما عیلی تھے؟ نہین ہر گز ہیں۔ اس زمانے میں مساجد، امام بار گاہیں ، جماعت خانے اور تعلیمی ادارے بہت کم تھے اور جو تھے وہ بھی کچی اور دیسی ساخت کے تھے مگر عبادات گزار اپنے معا ملات اور معمولات اور رویوں مین دیں اسلام کے بنیادی ضابطہ حیات پر پوری قوتِ ایمانی کے ساتھ

عامل تھے ،۔ اپنے عقلی، علمی، مالی اور دینی طاقت کو علاقے کی بہتری کے لئے بروے کار لاتے تھے تب تو نا ممکن کو ممکن بنا کے ر کھ دیا تھا۔ آج ہمارے پاس ما شا اللہ گلی گلی میں جدید طرزِ فنِ تعمیر کے تعمیر شدہ عبادت گاہیں اور درس گاہیں قایم ہیں مگر بڑی تفکر و تدا بر کی ضرورت ہے کہ ہمارے معا ملات و معمولات اور عملی زندگیوں میں ان مقدس اداروں کے قیام کا فلسفہ کتنا گہرا ہے۔ ہم یوم آزادی مناتے ہوے فخر کے ساتھ اپنے اسلاف کے اعلی خدمات کو خراجِ تحسیں پیش کرتے ہیں تو کیا ان کے کارناموں کی یا د ہی ہمارے لئے کافی ہے ۔ کیا صرف ان کے کار ناموں کی یاد زبانی دہرانے سے ان کو خرجِ تحسیں پیش کرنے کا حق ادا ہوتا ہے، یہ سوال ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے،۔

بقولِ اقبال

تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاوں میں تاجِ سردارا
تجھے اپنے آباء سے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتا ر ، وہ کردار ، تو ثابت وہ سیارہ
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پا ئی تھی
ثُریا سے زمیں پر آسمان نے ہم کو دے مارا

بحثیت قوم اس بدلتی ہوئی دنیا میں ترقی کے دوڑ میں بازی لے جانے کے لئے ہماری اجتماعی اتحاد و اتفاق کی اتنی ہی زیادہ ضرورت آج ہے جتنی اس علاقے کو ڈوگرہ راج سے آزادی دلانے کے لئے تھی۔ آزادی کی نعمت سے مالامال ہو نے کے بعد اجتما عی اور قومی مفادات اور قومی عزت و تکریم کے حساس اور بھاری ذمہ داریوں کو اپنی انفرادی اور قو می زندگی کا اولین

ترجیح بنائے بغیر ہم ایک معیاری، خوشحال اور ترقی پذیر زندگی کا خواب شرمندہء تعبیر ہو تے ہوے نہیں دیکھ سکتے۔ بحثیت قوم ہماری اتحاد و اتفاق کی مضبو طی ہر قسم کے اندرونی اور بیرونی شیطانی وسوسوں اور سازشوں او ر نا پا ک عزایم کو ملیا میٹ کر کے رکھ دے اور قومی معا ملات و ترقی کسی بھی قسم کے سمجھو تے کا شکار نہ ہو۔ اسی وسیع تر قومی ترقی اور خو شحا لی میں ہی انفرادی ترقی اور فائدہ پنہاں ہے۔ ہمیں دنیا میں اپنا مقام بلند کرنے کے لئے مضبوط اور اعلی معیار کے حامل تعلیمی ادارے، ہسپتال ، مالیاتی ادارے اور دیگر ادارے جو معیاری سماجی ترقی کے لئے ضروری ہیں، کی اشد ضرورت ہے۔ اور یہ اعلی و ارفع عمل اجتماعی جدو جہد سے ہی حا صل کی جا سکتی ہے۔ آیئے ہم یومِ آزادی کے اس پُر مسرت موقع پر یہ عہد کریں کہ ہم سب خطہ گلگت بلتستان کو اپنے برگوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوے امن و آشتی کا گہوارہ بناےءں اور اس کی تعمیر و ترقی کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زند گیوں کا اولین مقصد نبا ےءں اور اسے ایک مثالی ترقی یافتہ خطہ بنائیں ۔

تمتِ بالخیر

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button