کالمز

بھٹو ، بلاول اور گلگت بلتستان ۔۔

محترم قارئین بحیثیت باشندہ گلگت بلتستان مجھے پاکستان کے سیاسی معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ اپنے خطے کے معاملات پر ہی قلم اُٹھانے کوmy Logo ہی ترجیح دیتا ہوں ۔لیکن آج بھٹوازم اوربلاو ل کے حوالے سے کچھ حقائق پیشگی معذرت کے قارئین تک پونچانے کی غرض سے قلم اُٹھانے کی ہمت کر رہا ہوں تاکہ عوام کو حقائق سے اگاہی ملے ۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ گزشتہ ہفتوں سے بلاول زرداری کاعملی طور پرسیاست کے میدان میں قدم رکھنے کے حوالے سے بڑی گفت شنید ہورہی ہے اُنکا سیاست میںآنے سے پاکستانی سیاست پر کیا اثر پڑے گا اس سے بھی راقم کو کوئی سروکار نہیں البتہ بھٹوکے نام کوزرادری کی مفاد کیلئے بلاول کے نام کے ساتھ استعمال کرنے پر دکھ ضرور ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ بھٹو ایک فلسفے کا نام ہے جس کی معیار پر کوئی نہیں اُتر سکتااور نہ ہی ہر کوئی سیاست میں بینظیر بن سکتا ہے۔ہمارے خطے کے عوام آج بھی بھٹو کا نام ادب اوراحترام سے لیتے ہیں یہاں کے باشندگان کو بھٹو سے ایک فطری الفت ہے لیکن عوام کو شائد اس بات احساس نہیں کہ یہ دونوں باپ بیٹی بعد از مرگ بھی اپنے ہی لوگوں سے انصاف کے طلبگار ہیں آج جو لوگ انکے نام پر سیاست کر رہے ہیں وہی لوگ گزشتہ پانچ سال تک بھاری اکثریت کے ساتھ حکومت میں رہنے کے باوجود اپنے ہی لیڈر کی قتل کا معمہ حل نہیں کرسکے یا اس معاملے پر دلچسپی نہیں لیا ایسے میں عوام کو ان سے کسی قسم کی خیر کاتوقع رکھنا بھی بیوقوفی ہے۔

اسی طرح اگر ہم اس پارٹی کی منشور کے حوالے سے جاننے کیلئے ماضی کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پارٹی کے چار رہنما اصول تھے 1-جمہوریت ہماری سیاست،2-سوشلزم ہماری معیشت،3-طاقت کا چشمہ عوام۔لیکن بی بی کی شہادت کے بعد کی حکومتی کارکردگی کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اُس منشور کو بھی مرحوم قرار دیتے ہوئے کچھ اس طرح کے منشور پر گامزن رہے جیسے چالبازی انکی سیاست ،کرپشن میں انکی مضبوط ذاتی معشیت اور عوام صرف برائے ووٹ کے ساتھ ایک نعرے میں اضافہ کیا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے لیکن عوام کو جمہوریت کا ثمر کچھ اسطرح ملے کہ یہ نظام اب چالبازی جمہوریت مکمل کرکے خاندانی بادشاہت کے تحت رائج ہے۔بھٹو ازم کا نعرہ لگانے والوں کے دور حکومت میں عوام روٹی کپڑا اور مکان کیلئے ترستے رہے لیکن حکمرانوں کے کُتے بھی مرغن غذاوں سے لطف اندوز ہوتے رہے،پاکستان میں کرپشن اور بدعنوانی کی ایک نئی تاریخ رقم کردی تو دوسری طرف مذہبی انتہا پسندی کو خوب فروغ ملا جس سے مذہبی مقامات اور سرکاری املاک بھی دہشت گردوں کی نشانے پر رہے اسی طرح بدقسمتی سے پاکستان میں بسنے والے شیعوں نے اُنکے دور حکومت میں بہت ذیادہ نقصان اُٹھایا لیکن آج تک نہ کوئی مجرم کو گرفتار نہ کسی کو تختہ دار پر لٹکایا۔مگر آج بھی زرادری پاکستان کے عوام کی مسائل کا حل بھٹو ازم کو ہی قرار دیکر عوام کو ایک بار پھر گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں حقیقت میں وہ اس نام سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سیاسی ساکھ پیدا کرنے کی ایک اور کوشش میں مگن ہے کیونکہ ذاتی حیثیت سے اگر وہ عوام میں جائیں تو عوام انکے کے حوالے سے بہترین معلومات رکھتے ہیں انہوں نے سیاسی ساکھ کو برقرار رکھنے کیلئے بینظیر کی شہادت کے بعد اپنے اولادوں کی نام کے ساتھ بھٹو کا ٹائٹل استعمال کرنا شروع کر دیا تاکہ عوام کو بیوقوف بنا سکے ، لیکن انہیں کون بتائے کہ بھٹو بناتے نہیں بنتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کسی کو زبردستی کا بھٹو بنانا دراصل بھٹو ازم کے ساتھ دشمنی ہے ۔اگر ہم آج کے جعلی اور کل کے اصلی بھٹو ز کاموازنہ کریں تو کہتے ہیں کہ ماضی میں بھٹو کے سیاسی مشیروں میں ڈاکٹر مبشر حسن،خورشید حسن میر ،بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید اورمعراج محمد خان اور کئی زیرک سیاست دان اور تعلیم یافتہ لوگ شامل تھے آج ہم دیکھتے ہیں بلاول کو ایک طرف پھوپھیاں سیاست سکھا رہے ہیں تو دوسری طرف منہ بولے چچا اویس مظفر المعروف ٹپی بھٹو ازم کی پرچاک کر رہے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ بلاول بھٹو ازم کی روح کو سمجھنے کیلئے اپنے نانا کے قریبی ساتھیوں سے تعلیم لیتے لیکن ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔اب اگر ہم ہمارے خطے کے حوالے سے بات کریں تو جیسے اوپر ذکر کیا کہ یہاں کے عوام ذوالفقار علی بھٹو سے فطری محبت کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہاں کوئی بھی نامعقول شخص بھٹو کے نام پر ووٹ مانگنے آئے تو عوام آنکھ بند کرکے ووٹ دیتے ہیں کچھ ایسے ہی صورت حال میرے حلقے میں پیش آیا تھا جس پر بارہا لکھ چکا ہوں مزید لکھنے کی ضرورت نہیں۔

ہمارے خطے میں عام آدمی کا خیال ہے کہ ماضی میں بھٹو نے یہاں پر تعلیم کو عام کرنے کیلئے کام کیا، عوام کو مقامی راجاوں کی غلامی سے آذاد کرایا، گندم پر سبسڈی دی ،جس کے سبب عوام نے زراعت کو خیر باد کہہ دیا حالانکہ بھٹو کا مقصد ہر گزیہ نہ ہوں گے کہ گندم کے سہارے پر عوام محنت کرنا چھوڑ دے آج اگر بھٹو زندہ ہوتے تو یقیناًگلگت بلتستان کے عوام سے ناراضگی کا اظہار کرتے کیونکہ بھٹو ازم معاشی ترقی کیلئے محنت کرنے کانام بھی ہے اسی طرح بھٹو نے یقیناایک مثبت سوچ کے تحت گلگت بلتستان سے سٹیٹ سبجیکٹ رول کا خاتمہ کیا ہوگا تاکہ اس خطے کو قومی دھارے میں شامل کرکے ایک شناخت دیا جائے لیکن انہیں کیا معلوم ہوگا کہ اسے تختہ دار پر لٹکا دیا جائے گا اور اس قانون کی خاتمے کے سبب گلگت بلتستان کے عوام پر کیا گزرے گا یہاں کے وسائل کو غیر مقامی عناصر کس طرح لوٹیں گے ۔لہذا عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ بھٹو اب عوام میں نہیں رہے اور نہ ہی انکے فلسفے پر کام کرنے والی بینظیر ہم میں باقی ہے اب گلگت بلتستان کے عوام کو جعلی جانشینوں اور خاندانی جمہوریت کے وارثوں کو خیر باد کہنے ہونگے کیونکہ ہمارے مسلے کا حل صرف اور قومی سیاست کو پرچار کرنے میں ہیں۔SSRکا خاتمہ خطے کی اولین ضرورت ہے کیونکہ اس قانون کی وجہ سے آج یہاں کے قدرتی وسائل ،معدنیات،اور منرل پر غیر مقامی عناصر قابض ہے ہمارے عوام کو اپنے ہی وسائل کی رائلٹی نہیں دی جارہی، آج 67سال گزرنے کے بعد بھی اس خطے کو پیکجز کے سہارے چلائے جارہے ہیں اس صورت حال میں عوام کو خطے کی اصل ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے لیڈر منتخب کرنے ہوں گے کیونکہ اس وقت گلگت بلتستان کا مسلہ نئے پیکج کا حصول نہیں بلکہ سیاسی اور آئینی حیثیت یا الگ ریاست کو تسلیم کرتے مسلہ کشمیر کی حل تک عبوری نظام کا حصول ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تویہی لوگ جھوٹے نعروں اور وعدوں کے ذریعے ہمارے وسائل پر قابض ہوتے رہیں گے۔

اسی طرح آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ریاستی ادارے اس وقت خطے میں ہر اُس شخص کو دیوار سے لگانے کی کوشش کر رہے ہیں جو قانون کی عمل داری کیلئے آواز بلند کرتے ہیں یعنی ہم ایسے خطے میں رہتے ہیں جہاں قانون کی بلادستی کیلئے آواز بلند کرنا بھی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ لہذاہمیں پیکج کی دنیا سے نکل کربین الاقوامی قوانین کی نفاذ کیلئے جدوجہد کرنے والوں کا ساتھ دینے ہونگے ورنہ یہ جعلی سیاسی وارثوں کے مداری حضرات اپنے فائدے کیلئے خطے کی بین الاقوامی متنازعہ حیثیت کے حوالے سے بھی معاہدہ کراچی کی طرز کا کوئی معاہد ہ کرنا خارج از امکان نہیں جسے روکنا معاشرے کے ہر فرد پر فرض ہے کیونکہ یہ قومی بقاء اور آنے والے نسلوں کی مستقبل کا مسلہ ہے ۔عوام کو معلوم ہونا چاہئے کہ آج کل جو بھی سیاسی وعدے عوام سے کئے جار ہے ہیں انکی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی بلاول کے اعلان سے گلگت بلتستان صوبہ نہیں بن سکتااور نہ ہی صدر ممنون اس حوالے سے کوئی اختیار رکھتے ہیں کیونکہ اقوام متحدہ کی قوانین اور پاکستان کے قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان چاہے تو بھی گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بناسکتا یہی وجہ تھی کہ 2009پیکج کو داخلی خود مختاری کے نام سے یہاں پر لاگو کیاتھامگر وفاقی سیاسی پارٹیاں عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے اسے صوبے کا نام دیکرعوام کو بیوقوف بناتے رہے ہیں جس کا اصل مقصد ووٹ کا حصول ہے تاکہ انکی نوکری چلتا رہے۔ اللہ ہم سب کو تمام تر مذہبی اور مسلکی اختلاف کو بلائے طاق رکھ کر آپس کی بھائی بندی سے قومی حقوق کیلئے جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button