کالمز

جناتی چکر

مقامی اخبار میں ایک کالم نظر سے گزرا جس میں قلم کار دوست نے ایک ان دیکھی اور انسانی ذہن میں سمائی ہوئی ایسی مخلوق کو اپنے علاقے میں خوش آمدید کہتے ہوئے انہیں تھوڑا سا ڈرانے کی بھی کوشش کی ہے۔ہمارے اس دوست کی تنبہ کتنی کار گر ثابت ہوتی ہے اس بارے کچھ کہا نہیں جا سکتا مگراس دوست کی مثبت سوچ کے تحت عوام کو سازشی عناصر کی چالوں سے با خبر کرنے کی داد ضرور دینی چاہئے۔کہا یہ جاتا ہے کہ سانپ کا کاٹا رسی سے بھی ڈرتا ہے۔کچھ ایسا ہی معمالہ یہاں بھی ہے۔جس مخلوق کی بات ہو رہی ہے ان کے متعلق یہ تو نہیں کہا جا سکتا ہے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں۔ان پوشیدہ مخلوق جن کا ذکر اللہ کے کلام قران مجید میں بھی سورہ جن کے حوالے سے ہی موجود ہے اور سعودی عرب مکہ میں مسجد جن کی موجودگی بھی ان جنات کی دنیا میں موجودگی پر مہر ثبت کرتی ہے ۔مشتراک کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ واحد مخلوق ہے جس پر مسلم اور غیر مسلم سب کا   سو فیصد اتفاق اور یقین ہے۔۔بچپن میں دادی جان اور اماں جان بھی ہماری ضد پر ہمیں ان ہی مخلوق کا نام لیکر ڈراتی تھی بلکہ ان کا خوف تو ایسا رچ بس گیا کہ اب بھی رات کبھی دیر سے گھر آنا ہو تو یوں لگتا ہے کہ یہ مخلوق ہمارے ساتھ ساتھ ہی چل رہی ہے اور بس اب پکڑے کہ اب گھر کے دروازے سے اندر ہوتے ہی ٹانگیں سمبھل پاتی ہیں۔۔

Hidayat Ullahلیکن آج کل زمانہ بدل چکا ہے ۔ اب تو ہر چیز میں جدیدیت آگئی ہے زمانہ بہت ترقی کرچکا ہے۔ دنیا میں حضرت   انسان جدید دور کے تقاضوں کے تحت اپنی زندگی بسر کر رہا ہے ۔۔اور اس پہ سہاگہ یہ کہ ہرشخص ہنر سے لیس ہے اور اپنے ہنر سے ایسے ایسے کارنامے سر انجام دیتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔۔۔ذرا سوچئے کیا جن پری بھوت چڑیل جو اللہ کی مخلوق ہیں ترقی یافتہ نہ ہوئی ہونگی۔۔یقینا”ضرور وہ بھی ترقی کے دور میں داخل ہو چکے ہونگے ۔۔ اس مخلوق کے بارے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ مخلوق اندھیروں اور ویرانوں کو بہت پسندکرتی ہے ۔ اور جہاں اندھیرے اور ویرانے چھا جاتے ہیں یا ہونگے وہ   ان کی آئیڈل مسکن کہلاتی ہے ۔ اس صورت حال کو دیکھا جائے تو ان مہمانوں کا یہا ں آنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ہو سکتا ہے کہ جنات کے سی آئی ڈی کے محکمے نے کھوج لگایا ہو کہ قدرت کے اس حسین خطے کو ان کے مکینوں نے خود اندھیروں میں دھکیل کر ویرانے میں بدل دیا ہے تو اس سے بہتر اور کون سی جگہ مناسب ہو سکتی ہے۔۔ اس لئے انہوں نے یہاں کا رخ کیا ہو۔۔۔ اس کو کوئی مفروضہ تصور نہ کریں یہ ایک کڑوی حقیقت ہے۔ آپس کے تفرقات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ سرشام ہی یہ حسین خطہ گلگت ہو کے ایک عالم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔نہ بندہ نہ بندے دی ذات ۔

اگر اس ماحول میں یہ جنات اور بھوت ہمارے دیس کی سیاحتی دورہ کرنے آئے ہیں تو ہمیں ان کا مشکور ہونا چاہئے۔۔۔وہ اس لئے کہ اس سے علاقے میں موجود ہوٹلوں کی آمدنی اور عاملوں کے کاروبارمیں تین گنا نہیں تو دو گنا ضرور اضافہ ہو چکا ہے۔ ان حالات کی پیش نظر ایک گمان یہ بھی ہوتا ہے کہ ان جنات کے اس حسین خطے میں آے کا سبب کوئی مقامی ہنر مند ہو جس نے ایکسپورٹ امپورٹ کے تحت توہمات کے اس زرخیز علاقے میں۔ جہاں پیر بابا ۔سائیں بابا۔ بغیر محنت کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے۔۔قبروں کے طواف کرنے۔۔یہاں تک کہ اولاد جیسی نعمت کے حصول کے لئے ڈاکٹری علاج سے زیادہ جھاڑ پھونک اور دیگر خرافات میں اپنی پونجی لٹانے والوں کو مزید بے وقوف بنانے کے لئے ان غیر ملکی جنات سے معاہدہ کیا ہو ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک محفل میں نظر نہ آنے والی مخلوق کا ذکر ہو رہا تھا وہاں ایک صاحب نے اس صحافی کی تعریف میں ایسے پل باندھے کہ محفل کے سبھی شرکاء حیرانی سے اس کی طرف محو ہوگئے اور اتنی تعریف کی وجہ جاننے کے منتظر تھے کہ موصوف نے غالب کا مصرعہ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی ارشاد کر کے بات واضح کر دی اور ساتھ تشریح کرتے ہوئے کہہ گئے واہ جی کیا دماغ پایا ہے ۔۔۔کیا کسی کی مجال ہے کہ جنات سے انکار ہو جائے?۔ کیا کوئی اس صحافی سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ جنات سے ملاقات کا کوئی ثبوت پیش کریں? ۔۔۔

جی نہیں یہ تو ممکن نہین لیکن اس سے اخبار کے کاروبارسے منسلک لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا اس کی داد تو اسے ملنی ہی چاہئے ۔۔۔۔اب میں اس کی بات کو کیسے رد کرتا۔اپنی اپنی سوچ ہے پچھلے دو ہفتوں کی خبروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان غیر ملکی جنات کی آمدکی وجہ سے چوری کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور چور ان جنات کی موجودگی اور سر شام کی ویرانی سے فائدہ اٹھا تے ہوئے گھروں کا صفایا کر رہے ہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پولیس والے بھی سر شام ہی گشت کے بجائے کسی ہوٹل میں آرام فرما تے ہوں۔۔۔افواہوں کا بازار گرم ہے۔ایک حجام کی دکان میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔۔اخبار بینی کے ساتھ قینچی چلانے والے اور قینچی کی زد میں آنے والوں کی گفتگو سے بھی لطف اندوز ہو رہا تھا ۔۔ایک دو واقعات سےتو میں بھی چونک گیا ۔ایک موصوف فرما رہے تھے کہ اس کا ایک پولیس دوست ہے ۔ ان کی زبانی معلوم ہوا کہ رات ایک بجے کا وقت تھا اس کا دوست اپنی ڈیوٹی ختم کر کے گھر کی طرف آ رہا تھا اتنے میں ایک گاڑی آتی دکھائی دی اس نے ہاتھ کے اشارے سے لفٹ مانگی گاڑی اس کے قریب آکر رکی لیکن اس آدمی کے ہوش ہی اڑ گئے جب اس نے دیکھا کہ گاڑی کے اندر کوئی نہیں اور گاڑی خود بخود بغیر ڈرئیور کے چلتی اور رکتی بھی ہے ۔۔۔مجھے اشتیاق ہوا کہ میں اس پولیس والے سے ملوں میں نے قینچی کی زد والے دوست سے عرض کیا کہ بھائی صاحب کیا مجھے آپ اس پولیس والے سے ملوا سکتے ہیں? ۔۔تو اس کا جواب بھی بڑا ہی سادہ اور واضح تھا ۔۔اس نے شینا زبان میں کہا "کاکو” کاکو شینا زبان میں بھائی کو کہتے ہیں ۔۔۔ اس کےوالد محترم بیمار تھے وہ آج صبح ہی اپنے گائوں چلے گئے ہیں۔ معلوم نہیں کب ان کی واپسی ہوگی ۔ اس کی قلا بازی کو سمجھتے ہوئے میں نے مزید استفسار سے گریز کیا ۔ ہمارا یہ ملک بھی عجیب ہے اور جیسے یہ ملک عجیب ہے ایسے ہی اس ملک کے سادہ لوح عوام بھی عجیب ہیں ۔اپنےکو اشرف المخلوقات سمجھتے ہیں لیکن نہ جانے ان کو کیا ہوجاتا ہے ایسے موقعوں پر کیوں ان کی عقلوں پر پردہ پڑ جاتا ہے ۔ اور ناسمجھی اور سادہ لوحی سے نو سر بازوں کی زد میں آجاتے ہیں ۔ اب یہ نو سر باز جنوں میں سے ہے یا اس کا تعلق ہماری اس دنیا سے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔پر ایک بات طے ہے کہ آج کل سب لوگوں کے ذہنوں سے یہ غیر ملکی جن چمٹے ہوئے ہیں ۔ اور عامل حضرات ان جنات کو کھلانے اور نکالنے میں کتنا وقت لیتے ہیں یہ ان پہ منحصر ہے ۔لیکن عقیدت مندی اس میں ہے کہ عقل الٹی رکھنے کے بجائے۔اس جناتی چکر سے ہٹ کر عقل سلیم کے گھو ڑے دورائیں تو یہ ہمارے حق میں بہتر ہے ۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button