کالمز

حسنین, ہم شرمندہ ہیں !!

تحریر: ابرار احمد

گلگت شہر میں گزشتہ دنوں وقوع پذیر ہونے والے انتہائی دلخراش ، انسانیت سوز اور اندوھناک واقعے پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے، سفاک قاتلوں نے جس بے رحمی اور درندگی کے ساتھ معصوم حسنین کواپنی ہوس اور تشدد کا نشانہ بنایا ایسی مثال تو کہیں نہیں ملتی ، کیا ایک اسلامی معاشرہ ایسا ہوتا ہے؟ ؟؟ کیا پاکستان کو ایسے اسلام کے صرف نام پر آزاد کرایا گیا تھا؟؟؟ کیا اسلامی قوانین صرف دکھانے کیلئے ہیں ؟؟؟؟ تاریخ گواہ ہے کہ جن جن ممالک میں اسلامی قوانین لاگو ہیں وہاں ایسے گھناونے جرائم کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ، لیکن افسوس ہمارے ملک میں برائے نام اسلامی قوانین اور کمزور عدالتی نظام کی بدولت مجرم با آسانی بری ہو جاتے ہیں ، رٹ آف لاء اگر کمزور ہو جائے تو معاشرے کے تمام پرزے ڈھیلے پڑ جاتے ہیں ، کیوں کہ مجرم کو پتہ ہوتا ہے کہ اس کو سزا نہیں ملنے والی ، اور یوں معاشرے میں بگاڑ کا عنصر بڑھتا جاتا ہے ۔ اگر ماضی میں ایسے جرائم پر سر عام سخت سزا ملتی تو آج یہ نوبت نہیں آتی ، آج ایک گھر لٹنے سے محفوظ رہتا، آج حسنین اس بے دردی سے کسی کی ہوس کا نشانہ نہیں بنتا۔ اب بھی وقت ہے گلگت کے باسیو !! ہوش کے ناخن لو اور ان قاتلوں کو اپنے آباو اجداد کی طرح اجتماعی عبرت کا نشانہ بناو تاکہ کل کسی اور حسنین کے ساتھ ایسا ظلم نہ ہو سکے ، ماضی میں یہاں ایسے واقعات میں جرگہ ( ڈمشر) یعنی لوگوں کو اکھٹا کر کے سزائیں دیتا تھا اور لوگ ان سزاوں سے خوفزدہ رہتے تھے لیکن اب معاشرہ بدل چکا ہے ، اب کیسز کے فیصلے عدالتوں میں ہوتے ہیں جہاں ناکافی ثبوتوں کی بنا پر مجرم با آسانی چھوٹ جاتے ہیں ، گلگت شہر میں بچوں کے ساتھ بے رحمی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی یہاں کئی معصوموں کا خون بہہ چکا ہے معصوم مجیر معاویہ کو بھی ایک سفاک نے بے دردی سے قتل کیا تھا اور اس سفاک کو چھڑانے کیلئے آج کل اسکے حامی اعلیٰ عدالتوں میں سر دھڑ کی بازی لگا رہیں ہیں، اگر ہم ایسی مثالیں قائم کرتے رہے کہ مظلوم کو انصاف نہ ملے اور ظالم چھوٹتا رہے تو ہم اپنے آنے والے کل کو کس طرف لے جا رہیں ہیں اسکا اندازہ شاید آج نہ ہو لیکن ،،، اس ذات کی قسم جس نے اس کائنات کو پیدا کیا ہمارا معاشرہ بگاڑ کی وہ شکل اختیار کر جائیگا جسے دنیا کا کوئی قانون ٹھیک نہیں کر سکے گا۔

ایک اسلامی معاشرے ہونے کے باوجود یہاں اسلامی قوانین رائج نہیں ہوتے ،جوقوانین آج سے چودہ سو سال قبل رائج تھے، جہاں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ، قتل کا قصاص اور جنسی تشدد یا زنا بالجبر کی سزا سنگسار کرنا تھا۔ ایسی سزائیں اگر ہوتی تو آج حسنین کے قاتلوں کا غلیظ وجود بھی فنا ہو جاتا اور معاشرہ ان بے رحم درندوں کے شر سے محفوظ رہتا، شعیب، ابرار الحق اور محمد اسامہ نامی سفاک درندوں کی عمریں دیکھ کراور زیادہ تشویش ہوتی ہے ،کہ ہمارا معاشرہ بے راہ روی کی کس نہج پر پہنچ چکا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جدید میڈیا ہمارے معاشرے میں کس طرح ناسور کا کردار ادا کر رہا ہے، چینلز اپنی ریٹنگز بڑھانے کیلئے ہمارے بچوں کو کیسی تربیت دے رہے ہیں اس بارے میں سوچنا ہوگا ۔ آج والدین اپنے بچوں کی تربیت کے بجائے خرافات میں پڑے ہوئے ہیں جسکی وجہ سے معاشرہ تیزی سے بے راہ روی اور منفی سرگرمیوں کا شکار ہو رہا ہے۔ 

سوشل میڈیا پر معصوم حسنین کی جاری ہونے والی دردناک تصویر دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، ظالموں نے معصوم نو عمر بچے کو جس بے دردی سے قتل کیا ہے وہ نا قابل برداشت اور ناقابل بیان ہے، اگر ایک عام شہری کو اس واقعے سے شدید تکلیف پہنچی ہے تو اسکے والد یاسین کی کیا حالت ہوگی ، معصوم حسنین کی ماں سے اسکا کلیجے کا ٹکڑا اور جگر گوشہ چھینا گیا ہے ، کیا اسکے دکھ کا کسی کو اندازہ ہوسکے گا، اس واقعے میں ملوث ہونے والے قاتلوں کے والدین کیا معصوم حسنین کے والدین کے دکھوں کا مداوا کر سکتے ہیں ، کاش زمین کیوں نہیں پھٹی ، کاش آسمان کیوں نہیں ٹوٹا جب اس طرح کا گھناونا فعل ہورہا تھا۔ آج اگر ہم نے چپ سادھ لی اس واقعے سے آنکھیں موڑلیں تو مستقبل میں یہ آفت ہمارے گھروں تک بھی آسکتی ہے ، اسلئے گلگت شہر کے اکابرین، علمائے کرام، عمائدین اور ہر اس زمہ دار شخص کا یہ اولین فرض بنتا ہیکہ وہ معصوم حسنین کے قاتلوں کو سخت سے سخت سزا دلوانے میں اپنا کردار ادا کریں اور کھل کر ایسے واقعات کی مذمت کریں تاکہ معاشرہ مذید بگاڑ سے بچ سکے۔ وحشی درندے بھی آج ایسے بے رحم انسان نما درندوں کے سامنے کچھ نہیں جو ایک طرف تو کسی کے جگر گوشے کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا رہیں ہوں اور انکار کرنے پر اسے تشدد کر کر کے قتل کرتے ہوں ۔ کھیلنے کودنے کی عمر کے بچے کیساتھ یہ سلوک واقعی نا قابل برداشت ہے۔ شہر میں سی سی ٹی وی کیمروں نے ملزمان کے مکروہ چہرے محفوظ کر لئے اب تو عدالت کو کسی اور ثبوت کی ضرورت بھی نہیں ، انہیں ایسی سزا دی جائے جو صدیوں تک نشان عبرت ہو ۔ 

پولیس کا کردار بھی اس کیس میں قابل تعریف رہا ہے اور وہ اہلکار انعام کے مستحق ہیں جنہوں نے معصوم حسنین کے والدین کو انصاف دلانے ا ور ملزمان کو گرفتار کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اعلیٰ عدالتیں اس واقعے کی تحقیقات مکمل کر کے جلد از جلد کوئی بڑا فیصلہ کریں تاکہ ایسی درندگی کے واقعات کا خاتمہ ہو سکے ، انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی رٹ آف لاء قائم کرے اور ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے منصوبہ بندی عمل میں لائے، کیوں کہ جس طرح کا واقع پیش آیا ہے اس سے تو یہود بھی شرمائے ہونگے ، ہم مسلمان ہیں ہمیں تو ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ہمارے درمیان ایک معصوم کے ساتھ یہ ظلم ہوا۔ حسنین آج ہم سب اس بات سے شرمندہ ہیں کہ ہم ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرنے میں ناکام رہے جہاں کسی معصوم کی زندگی محفوظ ہو سکے ،،، بیٹا ہم واقعی شرمندہ ہیں!!!

کل بھی میں جنگل میں تھا اور آج بھی جنگل میں ہوں
کل میرے ہمسائے تھے خونی درندے بھیڑئیے
آج انسانوں میں ہوں اور خون کے جل تھل میں ہوں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button