کالمز

’’لاپرواہی‘‘

hayatپشاور سے کراچی جانے والی بس کا اکسیڈنٹ ہوا۔کہرام مچھا۔57افراد لقمہ اجل بنے باقی زخمی ہوئے۔ٹرک کو بھی نقصان پہنچا۔بس تباہ ہوگئی۔میڈیا نے خبر چلایا۔دلدوز مناظرکو اور پُرسوز اور جگر سُوز کرکے پیش کرتا رہا۔قوم روتی رہی۔انسانوں کی بے بسی پر تڑپتی رہی۔تبصرہ ہوتا رہا۔۔۔پولیس کی غلطی تھی۔۔۔ڈرائیور کی غلطی تھی۔حکومت کی غلطی تھی۔۔۔۔آخر میں یہ جملہ کہ ’’اجل اٹل ہے‘‘اب سوال یہ ہے کہ غلطی کس کی ہے۔ہم دل کھول کر پولیس کو انتظامیہ کو اور حکومت کو الزام دیتے ہیں۔مگر اپنا بھول جاتے ہے۔۔۔پولیس ایک ڈرائیور کو میڈیکل سرٹیفیکیٹ اور تربیت کے سارے مراحل طے کرنے کے بعد لائسنس اشو کرتی ہے۔اس لمحے ڈارئیور چست وچلاک زمہ دار اور محنتی لگتا ہے۔اب پولیس اور متعلقہ محکمے کے پاس کیا پیمانہ ہے وہ ڈرائیور کے بارے میں یہ اندازہ کرے کہ وہ جب روڈ پہ ہوگا تو غیر زمہ دار ہوگا،غافل ہوگا،اختیاط نہیں کرے گااپنی اور لوگوں کی جانوں کے ساتھ کھیلے گا۔حکومت اور ادارے قوانین نافذ کرتے ہیں ان کے زمہ دار آفیسر ز ماورائی مخلوق تھوڑے ہیں کہ ہرلمحے ہرکہیں جاکے ہرایک کو چیک کریں۔البتہ بات اتنی سی ہے کہ یہ سخت قوانین سختی سے نافذ العمل نہیں ہوتے۔لفظ ’’عبرت‘‘بہت قیمتی لفظ ہے یہ جنم نہیں لیتا۔لیکن یہ انسانوں کی بستی ہے یہ باشعور مخلوق خود بھی کوئی کردار ادا کرے۔اسی بس کو100کلومیٹر پہلے چارج ہوا۔کیا اس درائیور کا فرض نہیں بنتا تھا کہ وہ اپنی گاڑٰ ی کا خیال رکھتا۔کیا اس کے سینے میں دل کی جگہ پتھر تھا۔ کیا اس کو اتنے سارے لوگوں کی فکر نہ تھی۔کیا بس میں موجود اتنے لوگوں کو اندازہ نہ تھا کہ بس اورلوڈ ہے اَور سپیڈ ہے۔کیا ان میں سے ایک بھی ’’رجل‘‘رشید‘‘نہیں تھا کہ وہ ڈرائیور کو جھنجھوڑتے اس کو چھانٹا رسید کرتے۔ہم اتنے غافل کیوں ہیں۔ ہمارے نزدیک لوگوں کی جان ومال اور عزت وآبرو کی قدر کیوں نہیں۔زمہ دار قوم کا ہرفرد زمہ دار ہوتا ہے۔قانون ہم سب کا ہے ۔اس کا احترام ہم سب پر لازم ہے۔ٹریفک کے قوانین ٹریفک سے متعلق لوگوں پرلاگو ہوتے ہیں۔ان میں پولیس،ڈرائیور اور مسافر تینوں شامل ہیں ہم نے یہ قوانین پولیس کی میراث سمجھ رکھا ہے۔اور خود اپنے آپ کو بری الزمہ کرتے ہیں۔قوانین کو لاگو کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کرنی ہوتی ہے ایک طبقہ قانون نافذ کرتا ہے دوسرا اس کااحترام کرتا ہے تب قانون موثر ہوتاہے۔ہماری ہٹ دھرمی کی انتہا یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے بھی ہمارے ہاتھوں مجبور ہوجاتے ہیں۔یہ شاہراہیں ہماری ہیں۔ہم سب کو ان کا خیال رکھنا چاہیئے۔اگر یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں تو کیا ان پر گاڑی چلاتے ہوئے ہم ان کو گالیاں دیں گے۔ان کے بنانے والوں کی ملامت کریں گے یا اپنی گاڑیوں کا خیال رکھیں گے۔ہم انجام کو نہ سوچنے والے غیر زمہ دارلوگ ہیں اگر ہم زمہ دار بھی ہیں تو زمہ داریاں جتاتے ہیں۔زمہ داریوں کی فکر نہیں کرتے۔فرازنے کیا خوب کہا۔

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

ہمیں روز غفلت کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔احساس زہان نہیں کرتے۔اب خاندانوں کے خاندان اجھڑگئے۔ایسے سانحے دل ہلا دینے والے ہوتے ہیں۔ان کو کیش کرنا پڑتا ہے۔اس سے سبق حاصل کرنا پڑتا ہے۔مگر مجھے نہیں یقین کہ ایسا ہوگا۔اسی طرح یہ گاڑیاں ان سڑکوں پر دوڑتی رہیں گی۔اور ہم انجام سے بے خبر لوگ کسی بھی وقت موت کے کنویں میں گرتے رہیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button