کالمز

سیاست غریبوں کا کھیل نہیں

پاکستانی معاشرے پر نظر دوڑائیں تو ہر کسی کو یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ آخر کب تک اس ملک پر اشرافیہ کی حکومت رہے گی کب تک عوام کو بیوقوف بنا کر کچھ خاندانSher Ali Anjum غریبوں کا خون چوستے رہیں گے اور کب تک یہُ ُُملک مخدوم،لغاری، مزاری،قریشی، جٹ، بھٹ،ملک اور شریفان لاہور اور جعلی بھٹوں کے قبضے میں رہیں گے۔لیکن قارئین میرا مسلہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی گلگت بلتستان ہی ہے کیونکہ وہاں کے مسائل پر بڑے لکھنے اور تجزیہ کرنے والے شخصیات موجود ہیں ۔ مجھے یہاں کا محدود سیاسی نظام بھی مملکت پاکستان سے کچھ مختلف نظر نہیں آتا اگر ہم انقلاب گلگت بلتستان کے بعدکی سیاسی صورت حال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں بھی ہمیشہ سے وفاقی آشیرباد یافتہ اشرافیہ ہی حکومت کرتے رہے ہیں یہاں کی سیاست پر بھی آج تک میروں،راجاوں،کاچو،وزیر،مقپون اور شاہوں کا ہی قبضہ ہے۔ آج تک تاریخ میں شائد ہی کہیں کسی جگہ پر کسی تعلیم یافتہ شخص کو سیاست کرنے کا موقع ملا ہو یا ہمارے عوام نے کسی شخص کو اس بناء پر لیڈر منتخب کیا ہوکہ وہ تعلیم یافتہ ہے، سیاسیات میں ماسٹر کی ڈگری رکھتے ہیں ۔ظلم تو یہ ہے کہ اشرافیہ طبقے نے نہ صرف مقامی سیاست پر قبضہ کر رکھا ہے بلکہ آئینی حیثیت کے حوالے سے بھی یہی لوگ سب سے بڑی روکاٹ ہے کیونکہ یہ طبقہ جن میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں دستخط تک کرنا نہیںآتا اور کئی ایسے ہیں جو زندگی کاایک طویل وقت اسلامی سے مفت خوری کرنے کے بعد خاندان کا سیاست پر قبضہ ہونے کی وجہ سے لیڈر بن گئے ہیں یوں اصل قومی مسائل ان کیلئے کبھی بھی مسلہ ہی نہیں رہا۔ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اُنکی سیاسی اجارہ داری کو ختم کرکے تعلیم یافتہ طبقے کو سیاست کے میدان میں آگے لانے کیلئے ہر شخص انفرادی طور پر کردار ادا کریں کیونکہ ایسے ہی مفاد پرستوں کی وجہ سے یہ خطہ آج بھی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہے ان نما م نہادسیاست دانوں میں ہمت ہی نہیں کہ یہ لوگ خطے کی آئینی حقوق کے حوالے سے دوٹوک فیصلے کریں۔ آج جب اس مسلے کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پرگفت شنید ہو رہی ہے دنیا مان گئی ہے کہ واقعی میں پاکستان میں ایسا خطہ بھی ہے جہاں کے عوام کو آذادی کے بعد بھی غلامی کا طوق پہنایا تھا صرف یہ نہیں اُس خطے کی وسائل پر قابض رہنے والوں نے کبھی بھی یہاں کے باشندوں کو بہتر زندگی فراہم کرنے کے حوالے سے کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ لیکن یہی طبقہ آج بھی عجیب قسم کی منطق پیش کر رہے ہیں جیسے ماضی قریب میں میر غضنفر صاحب نے دعویٰ کیا کہ خطے کا الحاق پاکستان کے حوالے سے جو دستاویزات بنائے گئے تھے وہ آج بھی انکے پاس محفوظ ہیں اگر اس دعوے میں کچھ سچائی ہے تواب تک ان دستاویز منظر عام پر لانا چاہئے تھا مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ دعویٰ فقط عوام اور حکومت کو متوجہ کرکے سیاسی مفاد حاصل کرنے کی ایک کوشش تھی جس میں لگتا ہے وہ کچھ حد تک کامیاب ہوا ہے کیونکہ انکا شمار بھی آج کل نظریاتی لوگوں میں کیا جارہا ہے۔اسی طرح گزشتہ مہینوں میں سلطنت حلقہ نمبر تین سکردو کے شہنشاہ محترم حاجی فدا محمد ناشاد صاحب نے بھی اخباری بیاں کے ذریعے اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ الحاق کے حوالے سے کچھ لوگ ناسمجھ ہیں لہذا وہ لوگ مجھ سے رابطہ کریں میں اُن لوگوں کو قائل کروں گا، لیکن حال ہی اُنہوں نے بھی یوٹرن لیکر پھر سے بیاں دیا کہ گلگت بلتستان کسی بھی طرح صوبہ نہیں بن سکتا۔ اسی طرح انہی پارٹی کے مرکزی رہنما حفیظ الرحمن نے ،جو کل تک یہ بات کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ہم ہی گلگت بلتستان کو صوبہ بنا کر عوام کا دل جیت لیں گے اچانک تاریخی یو ٹرن لیکر فرماتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا چاہیں تو بھی نہیں بن سکتا یعنی جو باتیں کل تک قوم پرست لیڈران کہتے تھے تو تو اُنہیں غدار ٹھہرایا جاتا تھا لیکن اُنہوں نے کس سے حب الوطنی کا سند لیکر یہ بیاں دیا اللہ ہی جانے۔ مگر لگتا کچھ یوں ہے کہ سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کا فیصلہ آنے کے بعد انکا بھی ہوش ٹھکانے آگیا ہے لہذا اتنا ہی کہوں گا کہ ان لوگوں کو بھی اب سچ بولنے اور سُننے کی ہمت پیدا کرنا چاہئے کیونکہ اگر موجودہ نظام کو صوبہ سمجھتے بھی ہیں تو سوال یہ اُٹھتا ہے کہ گلگت بلتستان سے ہٹ کر وہ کونسا صوبہ ہے جو ایک غیر منتخب اور غیر مقامی وفاقی وزیرکے ماتحت ہیں؟ خطے کیلئے آج تک قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی کیوں نہیں دی جارہی؟ جبکہ قبائلی علاقوں کیلئے بھی وہاں مخصوص نشت موجود ہے، دو ہزار نو پیکج کو صوبے کا نام کیوں نہیں دیا گیا؟غور فکر کرنے کی ضرورت ہے۔اب اگر واپس موضوع کی طرف چلیں تو جیسے اوپر ذکر کیا کہ خطے کی سیاست پر ایک مخصوص ٹولے قابض ہیں لیکن موجودہ حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ خطے کے کچھ حصوں میں تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہے جس میں ہنزہ ،نگر،استور اور غذر کے کچھ علاقے شامل ہیں جہاں کے نوجوانوں نے عوام میں سیاسی شعورپیدا کرنے کیلئے کافی محنت کیا یہی وجہ ہے کہ وہاں قومی سیاست کے حوالے سے پیش رفت ہو رہی ہے لیکن دیامر اور بلتستان کے عوام کو سیاسی شعور دینا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں علاقوں میں اگر ہم پہلے دیامر کی بات کریں تو وہاں عوام سے ووٹ اسلام کی سربلندی کیلئے مانگا جاتا ہے پھر علاقائیت ،علاقائی قومیت اور مسلک کی سربلندی بھی عوامی ووٹ سے جوڑے جاتے ہیں ایسے میں یہاں قومی سیاست کی بات کرنے پر فتوی لگنا خارج ازامکان نہیں ۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس دھرتی میں تعلیم یافتہ افراد کی کمی ہے یہاں پر قومی شعور اور علاقائی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بلند پایہ شخصیات موجود ہیں یہاں میں اگر صرف ایک شخص کا نام لوں تو شائد دیامر کی تعریف مکمل ہو جائے گی کیونکہ اُس شخص کو میں نے ذاتی طور پر بہت قریب سے جانتا ہوں انکے اندر قومی ترقی اور تعمیر کے حوالے سے ایک جذبہ ہے وہ یوتھ کو سیاست میں دیکھنا چاہتے ہیں ،علم دوست ،انسان دوست اور سب سے بڑھ کر معتدل مزاجی انکے اندر کوٹ کر بھری ہوئی ہے لیکن مجھے دکھ ہوا جب انہوں نے ایک دفعہ مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یارا ہمارے عوام کا حال مت پوچھو آجکل ہمارے ہی کچھ لوگ میرے خلاف فتوی جاری کرنے والے ہیں کیونکہ میں نے ذات پات ،علاقائیت،مسلک اور عقیدے کی خول سے نکل کر قومی حقوق کی جہدو جہد کیلئے آواز بلند کیا،یہ میرا ہی کوشش تھا کہ بلتستان اور دیامر کے عمائدین نے تاریخ میں پہلی بار ایک دوسرے کو گلے لگا کر پھولوں کا ہار پہنایا ۔جی یہ وہی صاحب ہمارے ہردلعزیز سینئیر صحافتی دوست محترم ڈاکٹر زمان خان صاحب ہیں۔اب دیامر بالخصوص داریل کے عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ علاقے کی بہترین مفاد میں ایسے لوگوں کوسیاست کے میدان میں آگے لاتے ہیں یاہمیشہ کی طرح اس بار بھی مفاد پرستوں اورمنافرت پھیلانے والوں کوموقع فراہم کرتے ہیں۔اب اگر بلتستان کی بات کریں تو میں اگراپنے گاوں کی سیاست ذکر کروں تو شائد بلتستان کے سیاسی نظام کی تعریف مکمل ہو جائے گی کیونکہ کم وبیش بلتستان بھر کا ایسی ہی صورت حال ہے۔حال ہی میں ایک صاحب سے بات ہورہی تھی دوران گفتگومیں نییوں ہی پوچھا اس بار عوام ووٹ کس کو دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تو جواب ملتا ہے ووٹ تو حسب سابق فلاں صاحب کو ہی دیں گے ،میں نے پوچھا کیوں؟ کہتے ہیں سرکردگان علاقہ کا فیصلہ ہے کیونکہ جیتنا تو اُنہوں نے ہی ہے لہذا بہتر ہے کہ انکے ساتھ ہی رہیں تاکہ مستقبل میں کچھ کام آسکیں۔میں نے کہا جناب جسے ہم سرکردہکہتے ہیں اصل میں قومی مجرم ہیں اور ہمیشہ عوامی ووٹسے ذاتی فوائد حاصل کر رہے ہیں آج تک جتنے بھی دیہی کونسل،یونین کونسل اور دیگر سرکاری فنڈز آئے ہیں یہی لوگ کھاتے رہے ہیں اورہمیں میٹھی چائے پر ہی اکتفاء کیا ہوا ہے۔مطلب کہنے کا یہ ہے کہ ہمارے عوام کسی کو ووٹ انکی کارکردگی کو پرکھ کر نہیں دیتے بلکہ مقامی چمچوں کی طرف سے ایک سادہ سی پارٹی کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں ہر شخص کو بڑی عزت افزائی کے ساتھمدعو کیا جاتاہے یوں عوام خوش ہو جاتے ہیں کہ انہیں بھی کوئی عزت مل رہی ہے حالانکہ یہ عزت افزائی الیکشن کے دنوں تک وقتی طور پر ہوتے ہیں بعد میں ہم کہاں اور تم کہاں ۔لہذا اس سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خطے میں قومی سیاست فروغ پا سکے ورنہ ہمیشہ کی طرح اس بار یہی لوگ بھی ہم جیسے غریب کو یہی طعنہ دیتے ہوئے ہم پر مسلط رہیں گے کہ سیاست غریبوں کا کھیل نہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button