کالمز

اہل وفا کے شہر میں غدار لوگ

گلگت بلتستان میں جو لوگ جس نظام کے تحت کام کرتے ہیں وہ اپنے علاوہ دوسروں کو غدار سمجھتے ہیں حق کیلئے آواز بلند کرنا ریاستی اداروں کے خلاف کسی بھی قسمSher Ali Anjum

کی تنقید کرنانہ صرف غداری بلکہ ناقابل معافی جرم بھی ہے۔لیکن اگر کوئی سچائی سے منہ موڑتے ہوئے حقیقت سے آنکھیں چُرا کر ہمارے کچھ اہل قلم دوستوں اوربعض میڈیا ہاوسز کی طرح درباری منشی بن جائیں تووفاداری کا سرٹیفیکٹ ملنا کوئی مشکل کام نہیں لیکن میں ذاتی طور پرایسی وفاداری سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ اہل وفا کے اس شہر میں وفا داری اپنی شناخت اور اصول کو بیچ کر اپنے لئے سامان بنانے کا نام ہے۔ گفتگو شروع کرنے پہلے عرض کرتا چلوں کہ میرانہ تو کسی سیاسی پارٹی سے کوئی وابستگی ہے اور نہ ہی کسی سیاست دان سے براہ راست میرا تعارف ہے اور نہ ہی میں پیشہ ور صحافی ہوں مگرقومی مسائل کی نشاندہی کو فریضہ سمجھ کر گاہے بگاہے محنت مزدوری سے وقت نکال کر حکمران طبقے کو آئینہ دکھاتا رہتا ہوں یعنی بقول جون ایلیا مرحوم کے،جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں۔آج کے اس اہم موضوع پر کیا رد عمل ہوگا مجھے نہیں معلوم لیکن جو سچ ہے اُسے بیاں کرنا بھی ہماری معاشرتی ذمہ داریوں میں شامل ہوتی ہے۔

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک مقامی صحافی کا ایک پوسٹ نظر سے گزر ، وہ کہتے ہیں کہ کسی سرکاری تقریب کے موقع پر انہیں ایک ملٹری افیسر سے ملاقات کا موقع ملا دوران گفتگو جب سیاست کے حوالے سے بات چھیڑی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں عجیب صورت حال ہے مکمل سیاسی نظام ہونے کے باجود جب ہم باہر کی دنیا میں دیکھتے ہیں تو لوگ باباجان ،منظور پروانہ اور دیگرقوم پرست رہنماوں کو گلگت بلتستان کا حقیقی لیڈر مانتے ہیں،انکے مطابق یہ بات سُننا ہی تھا اُس آفیسر کے ماتھے پربل آگئے اور انہوں نے قوم پرستوں پر ملک قوم دشمنی کا الزام لگاکر بات ختم کردی۔

یعنی اہل وفا کی اس شہر میں قومی حقوق کیلئے کسی بھی طرح کی جدوجہد کرنے والے غدارکہلاتے ہیں کیونکہ ایسی باتیں کرنے سے بعض لوگوں کی مفادات کو نقصان پونچے گا جو کہ وہ نہیں چاہتے۔یہاں وفا دار وہ لوگ ہوتے ہیں جو محدود وفاقی بجٹ کی بندر بانٹ کرنے کے ساتھ کرپشن کے ذریعے قومی ادارں کو تباہ کریں، تعلیم عام کرنے کے بجائے غیریبوں کیلئے تعلیم کے دروازے بندکریں، قومی وسائل خود بھی لوٹیں اور باہر سے بھی لوگوں کو بُلا کر لوٹ مار کرائیں اور جب قومی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے خلاف کوئی آواز بلند کریں تو فورا غداری کا الزام لگا کر ریاستی ایجنسیوں کو اُنکے پیچھے لگائیں تاکہ لوٹ مار کا یہ سلسلہ وفاداری کی سرٹیفیکٹ کے ساتھ چلتا رہے۔یہاں میں یہ بات بڑی وسوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے خطے میں کوئی بھی قومی رہنما ریاست پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ اُس نظام کے خلاف ہے جس کی بنیاد پر خطے کے حقوق پر ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں جوکہ حقیقت میں حبُ الوطنی کی ایک عظیم مثال ہے۔دوسری بات ہمارے عوام کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اصل غدار تو وہی لوگ ہے جو دونوں ہاتھوں سے غریبوں کا خون چوس کر لیڈری کا سہرا بھی اپنے سر پہ سجایاہوا ہے۔اور ایسے ہی لوگ صرف ذاتی مفاد ات کی خاطر قومی حقوق پر بات کرنے والوں کوغدارٹھراتے ہیں ۔ہمارے خطے میں ایسے لوگوں کی لمبی فہرست ہے جنہیں ایک ایک کر کے تختہ دار پر لٹکانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم ایسے ملک کی ایسے خطے میں رہتے ہیں جہاں لٹیروں ،چوروں اور کرپٹ عناصر محب وطن کہلاتے ہیں اورحق اور انصاف کیبات کرنے والے ہمیشہ سے غدار ٹھہرتے ہیں لہذا یہاں بھی ایسے غداروں کو تو زندہ رہنے کا بھی حق نہیں ہونا چاہئے ،جی ہاں بابا جان کو تو سب سے پہلے گھڑی باغکے مقام پر لاکر کر پھانسی چڑہانے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ قومی حقوق کی بات کرتے ہیں ،عوام کو بیدارہونے کی بات کرتے ہیں، ریاستی وسائل پر ریاست کے عوام کو حق دینے کی بات کرتے ہیں ،قانون پر عمل درآمدی کیلئے جدوجہد کرنا غدار نہیں تو اور کیا ہے؟

اگر یہی بابا جان بھی ہمارے نام نہاد سیاست دانوں کی طرح حاضر ہے جناب کے فارمولے پر چلتے تو یقیناًانکا شمار بھی اہل وفا میں ہوتا اسی طرح حیدر شاہ رضوی نے ایک جدوجہد مسلسل کرکے جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد اب سُننے میں آیا ہے کہ وہ شدیدعلیل ہے اللہ انکو لمبی حیات دے۔وہ بھی اگر مراعات قبول کرتے تو آج نوبت یہاں تک نہیں پونچتا کہ لوگ انکی مالی مدد کیلئے سوشل میڈیا پر مہم چلائیں انہوں نے بھی غلامانہ وفا داری کو لاد مار کر قومی حقوق کیلئے غدار کہلانے کو ترجیح دیا جبھی تو پائے پائے کا محتاج ہے۔ ایسے قومی لیڈروں کو نہ صرف مراعات یافتہ طبقے نے غداری کا مہر لگایا بلکہ کچھ میڈیا ہاوس بھی اہل وفا کے ساتھ اس جرم میں برابر کے شریک ہیں اسی طرح صحافی برادری کے کچھ دوستوں نے ایسے رہنماوں کو نہ صرف نظرانداز کیا بلکہ انکا تمسخر بھی کرتے رہے ہیں۔

تو قارئین یہ ہمارے خطے کا المیہ ہے کہ ہم گندم کو حقوق سمجھتے ہیں شناختی کارڈ کو آئین سمجھتے ہیں اور وفاقی پارٹیوں کیلئے نعرہ لگانے کو حُب الوطنی سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے ہمارا یہ خطہ آج بھی آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں اس بات کا حالیہ دنوں میں وفاقی وزیراطلاعات نے باقاعدہ اعلان بھی کیا اور پاکستان کے بہت سے ماہرین قانون کا بھی یہی رائے ہے۔اب ہمارے عوام کو سمجھ لینا چاہئے کہ آپ کو گندم کے دانے بھی گن گن کیوں دیئے جارہے ہیں ؟ ہمارے خطے کا تعلیمی نظام صفر ہے کیوں ہے؟ یہی تو وجہ ہے کہ اس خطے میں تمام تر قدرتی وسائل ہونے کے باجود اُسے بروے کار لانے کیلئے صنعتیں نہیں لگائی جارہی ۔یہی تو ایک وجہ ہے جس کے سبب ہمارے خطے کا کوئی شخص اعلیٰ عہدے ہر فائز نہیں ہوسکتے حالانکہ اس وقت خطے میں کئی درجن پی ایچ ڈی ہولڈر زاور کئی سو علیٰ تعلیم یافتہ لوگ روزگارکی تلاش میں بھٹک رہے ہیںیہ سب اس لئے ہے کہ اہل وفا کے اس شہر میں غداروں کو بولنے کا حق نہیں۔لہذا ہمیں وفاداری کی ترجمے کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک قوم بن کر ظلم اور استحصال کے خلاف برسرپیکار ہوکر قومی حقوق کیلئے جدجہد کریں۔اللہ ہم سب کو سچ بولنے لکھنے اور قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button