کالمز

کیسے دربان؟

علی احمد جان
علی احمد جان

’’پہلے دو دن میری والدہ کی طبیعت سخت ناساز تھی۔ انھیں ہسپتال لیکر جانا تھااس لئے دفتر نہیں جاپایا۔ دسمبر کی دوسری تاریخ کو جب میں دفتر کے لئے گھر سے نکلا تو ٹریفک بری طرح جام تھا۔ یونیوسٹی روڈ کو دو جگہ کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا تھا۔ پہلے مجھے لگا کہ شاید شہر کے حالات ٹھیک نہیں یا پھر خدا نخواسته کوئی دھماکہ ہو گیا ہے۔ ‘‘

میرا دوست اجمل نیم تر آنکھوں کے ساتھ نوکری سے فارغ کردئے جانے کی کہانی سنا رہاتھا۔

’’جیسے تیسے میں دفتر پہنچ گیا مگر ایک گھنٹہ تاخیر سے۔۔۔میرے بوس آگ بگولا ہوگئے۔ وہ بھی حق بجانب تھے کیونکہ والدہ کی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے دو دن دفتر کی چھٹی کی تھی اور تیسرے دن مقررہ وقت سے ایک گھنٹے بعد پہنچا تھا۔ ‘‘

اجمل چونکہ گھر کا واحد کفیل ہے اوردو شفٹوں میں کام کرتا ہے۔ صبح آٹھ بجے سے چار بجے تک ہارڈ ویئر کمپنی میں اور رات کو ایک کھلونوں کی دکان پر بطور سیل مین کام کرتا ہے۔

’’چوتھے دن دفتر جانے کے لئے متبادل راستے کا انتخاب کیا اور بجائے یونیورسٹی روڈ کے ، براستہ نیشنل سٹیڈیم رو ڑ دفتر کی جانب نکلا۔جب میں لیاقت ہسپتال کے قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہاں بھی شاہراہ کو کنٹینر لگا کر بند کردیا گیا ہے۔ پرایشانی کے عالم میں بس سے اتر کر رکشہ لیا اور وقت پر دفتر پہنچنے کی ناکام کوشش کی۔میرے بوس نے بغیر ایک سوال پوچھے تین دنوں کے پیسے پکڑا دئے۔ میں نے اپنی مجبوریاں پیش کرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔۔۔ انھوں نے صاف کہہ دیا کہ کسی مجبوری کا ذکر مت کرنا میری بھی مجبوری ہے۔ خدا حافظ۔۔۔۔

میرے ذہن پر اپنی والدہ کی ادویات، گھر کا کرایہ ، کچن کے اخراجات، چھوٹے بھائی کی فیس اور اپنی نوکری کے بارے میں کئی سوالات مسلسل ہتھوڑے کی طرح برس رہے تھے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری۔۔۔ آخر میرا قصور کیا ہے؟ میرا مجرم کون ہے؟ میرے نقصانات کا آزالہ کون کرے گا؟ ‘‘ (اور پھر وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا)

یہ ایک اجمل کی کہانی نہیں ہے ۔ روشنیوں کے شہر کے کئی اجمل پچھلے چار دنوں سے پریشانیوں کے اندیھروں میں ڈوب رہے ہیں ۔ اس کی وجہ کراچی ایکسپو سنٹر میں جاری’’ دفاعی نمائش: آئیدیاز 2014 ‘‘ ہے۔ اس کے سبب شہریوں کی معمولات زندگی بری طرح متا ثرہے کیونکہ مین شاہراہوں کو کنٹینر لگاکر بند کیا کردیا ہے اور شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ لوگ وقت پر دفتر نہیں پہنچ پاتے، ایمبولنس ہسپتال نہیں پہنچ سکتے اوربچے وقت پر اسکول نہیں پہنچ پارہے۔۔۔۔یوں کہہ لیجئے کہ زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔

اس موقعے کی مناسبت سے میں حکومت اور خصوصاً پاک فوج سے چند سوالات پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔

١۔ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور ملک کے سالانہ بجٹ کا بہت بڑا حصہ دفاع پر خرچ کیاجاتا ہے۔جس کی وجہ سے بنیادی ضروریات مثلاً تعلیم ، خوراک کو ترجیح نہیں دی جاتی۔عام آدمی مشکل سے زندگی کی گاڑی کو کھینچ رہا ہے ، ایسے میں کراچی جیسے گنجان آباد شہر میں یہ میلہ لگاکر عوا م کو کیوں پریشان کیا جارہاہے؟

٢۔ ایک اخباری رپورٹ کراچی کاایک بڑا رقبہ فوج کے قبضے میں ہے، شہر کے قلب میں یہ تماشہ رچانے کے بجائے ملیر کینٹ جیسی ممنوعہ جگہ پر کیوں منعقد نہیں کیا گیا کیوں کہ عام آدمی کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے؟

٣۔ اس نمائش سے عام آدمی کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟

٤۔ کیا کبھی حکومت اور پاک فوج نے نئی نسل اور طالب علموں کے لئے ایسی پروقار تقریب کا انعقاد کیا یا کوئی کتابی میلہ لگایا؟

اور رہی بات دفاعی اسلحہ اور اس کے کردار کی تو مجھے رہ رہ کر وسعت اللہ خان صاحب کے وہ الفاظ یاد آرہے ہیں جو انھوں نے ایٹم بم کے بارے میں کہے تھے۔

’’یہ ایٹم بم نہیں بلکہ غریب کے د رپہ بندھا ہاتھی ہے جس کے گنے بھی پورے نہیں ہوپارہے تم سے۔۔۔۔بلکہ میں تو یوں کہوں کہ یہ ایٹم بم نہ ہوا سولہ دوشیزہ ہوگئی کہ کوئی اٹھاکر نہ کے جائے۔ اپنی حفاظت کے لئے بنایا تھا ناں ؟ اب اس کی حفاظت کے لالے پڑے ہیں ۔‘‘

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button