کالمز

سیاست اور تعصب

ذوالفقار علی غازی

سیاسیات کا شحبہ اخلاقی اقدار سے ہاری نہیں ہوتا اگر تیسری دنیا سے باہر کی سیاست ہو تو۔ بات تو تیسری دنیا کی ہے۔جہاں سیاست سمیت ہر شحبہ زندگی میں اخلاقیات کی دھجیاں اڈائی جاتی ہیں۔ سیاست دان بھی معاشرے کا پروڈکٹ ہوتا ہے لہذا اگر ان سے کسی معاملے میں کوئی غلطی سرزد ہو جاے تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ ہماری بنیادی تربیت میں اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا جاتا ہے کہ ہماری سوچ ہزارہا قسم کی بت پرستیوں(قوم پرستی، مذہب پرستی، علاقہ پرستی، زبان پرستی وغیرہ) میں ہی مبتلا رہے۔ لہذا عام آدمی ہو یا سیاستدان سوچ کے لحاظ سے اس معاشرے کے پیداوار کے طور پر تعصبی ہے اور رہے گا۔

اس بات کی سمجھ نیشنلایز کرنے کے بجاے ڈینیشنلایز کرکے چھوٹے چھوٹے خطوں میں ٹٹول کر دیکھنے سے آتی ہے کہ حالات کس قدر گھبیر ہیں۔ جہاں مذہبی تعصب کمزور ہے وہاں نسلی تعصب کی جڈیں مضبوط ملتی ہیں۔ جہاں نسلی تعصب معمولی ہو تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہاں مذہبی تعصب کی جڈیں بہت گہری ہونگی۔ لسانی اور علاقائی تعصبات اس کے علاوہ ہیں۔چونکہ تعصب سے ماضی میں مقاصد بہت آسانی سے حاصل کئے گئے ہیں،کہیں بڑی بڑی سلطنتوں کو وجود دیا گیا تو اتنی ہی بڑی سلطنتوں کو مٹا بھی دیا گیا۔یہاں تک کہ سلطنتوں کے اندر طاقت کے حصول کے لئے بھی تعصب سے کام لیا جاتا رہا۔ ہندوستان میں پاکستان بنانا ہو تو مذہبی تعصب سے کام لیا جاتا ہے،جبکہ پاکستان میں بنگلہ دیش بنانے کے لئے نسلی اور لسانی تعصب کی ضرورت پڑتی ہے۔ جس نے پنجاب میں گولی چلانے سے انکار کیا تھا اس نے مشرقی پاکستان میں خون کی ندیاں بہانے میں کوئی کوتاھی نہیں کی تھی۔

بات عوام کی نہیں وہ تو کام آتے رہے گولی چلانے اور گولی کھانے کی۔ تعصب عوام کے حق میں نہیں خواص کے حق میں ہے، اقتدار کس کو چاہئیے؟ کون طاقت کا متلاشی ہے؟ کون عوام کو غلام بنائے رکھنا چاہتا ہے؟  کون چاہتا ہے کہ فرد اپنے بنیادی حقوق سے ہی بہ بہرا رہے؟ اس طرح کی تقسیم سے کس کو فایدہ پہنچتا ہے؟ اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ ہمیشہ سے ہی بالادست طبقات نے ریاست کے ڈھانچے کو اس طرح سے بنایا ہوا ہے کہ ہمیشہ ایک ہی طبقے کے لوگ جو محنت کش ہوتے ہیں آپس میں متصادم رہتے ہیں۔ محنت کش طبقے کے آپس میں نظر نہ آنے والی چیزوں کو لے کر دست و گریباں ہونے سے اسی طبقے کے اندر سے ایک مفاد پرست ٹولے کا جنم ہوتا ہے جو ہر حال بالادست طبقات کے لئے بطور ایجنٹ کام کرتا ہے۔ یہی وہ ٹولہ ہوتا ہے جو محنت کش دہاڈی دار، صنعتی و غیرصنعتی مزدور، کسان، کان کن، وغیرہ کے درمیان  تعصب کے بیچ بھو کر اس طرح کا ماحول بنانے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں کہ محنت کشوں کا ہر گروہ ایک مسیحا کا خواب دیکھتا ہے اور اسی سے نومولود بالادست طبقہ تک فایدا اٹھانے کی کوشش کرتے ہوے ووٹ مانگتا ہے۔ کیا تعصب سے خالی ایک معاشرے کو بنانے کے لئے ہمیں ووٹ دینے کے عمل سے گریز کرنا چاہئے ؟؟؟

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button