کالمز

گورننس آرڈر میں مزید ترامیم کی ضرورت

israrگزشتہ قطرہ قطرہ میں ہم نے نگران سیٹ اپ کے حوالے سے گورننس آرڈر کی خاموشی پر قلم اٹھایا تھا اور کہا تھا کہ اس آرڈر کے تحت وجود میں آنے والی پہلی منتخب حکومت کی مدت ختم ہونے سے پہلے اگر گورننس آرڈر میں ترمیم کر کے نگران حکو مت کے قیام کی شق اس میں شامل نہیں کی گئی تو ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو گی۔ خیر سے وفاقی حکومت نے آخری دنوں میں اس صورت حال کی اہمیت کو بھانپ لیا اور گورننس آرڈر میں ضروری ترامیم کے ذریعے نگران حکومت کے قیام کا طریقہ کار وضع کر لیا جس کے بعد نگران وزیر اعلیٰ کا چنائو اسی طریقہ کار کے مطابق عمل میں آیا۔

گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آڈر 2009 کے آرٹیکل 93 کے تحت وفاقی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس آرڈر کے اندر کوئی بھی ترمیم کر سکتی ہے جس کے تحت مذ کورہ ترمیم عمل میں آئی ہے۔ یہ اس آرڈر کے نافذ العل عمل ہونے کے بعد پہلی ترمیم ہے جبکہ گلگت بلتستان کے سیاسی امور میں دلچسپی رکھنے والے لوگ اس آرڈر کے اندر مذید ترامیم کے خواہش مند ہیں۔ ان میں سر فہرست یہ ہے کہ اس آرڈر میں ترمیم کا اختیار وفاق سے اٹھا کر گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کو دیا جائے تاکہ آئندہ کیلئے ضروری ترامیم وفاق کی بجائے گلگت بلتستان اسمبلی سے ہوجائیں اور اس کے لئے طریقہ کار وضع کیا جائیں۔اس حوالے سے گلگت بلتستان کی گزشتہ منتخب اسمبلی سے با قائدہ قرار داد بھی منظور ہو چکی تھی تاہم دیگر قرار دادوں کی طرح اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا تھا۔

گورننس آرڈر کے اندر دوسری بنیادی ترمیم کے ذریعے گلگت بلتستان کونسل کو ختم کر کے اس کے تمام اختیارات جی بی اسمبلی کو دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو جی بی کونسل سے تمام اہم اختیارات اٹھا کر اسمبلی کو دینے کی ضرورت ہے جس میں قانون سازی کے اہم امور بھی شامل ہیں۔ گلگت بلتستان کونسل کے حوالے سے ایک اور کام یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کو گلگت بلتستان کے اپر ہاوس یعنی سینٹ کا درجہ دیا جائے اور اس کو بجائے خود کئی امور پر قانون سازی کرنے کے صرف یہ اختیار دیا جائے کہ یہ قانون ساز اسمبلی سے منظور ہونے والے قوانین پر نظر ثانی کر ے جیسے وفاق میں سینٹ کرتی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہو گا کہ کونسل میں وفاق کے نمائندے کم اور گلگت بلتستان کے زیادہ ہوں۔ اس سے گلگت بلتستان کی منتخب اسمبلی زیادہ سے زیادہ خود مختار ہو جائے گی اور وفاق کا دیگر صو بوں کی طرح گلگت بلتستاں میں عمل دخل کم ہو جا ئے گا۔ اس سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ کشمیر کاز کو نقصان پہنچا ئے بغیر گلگت بلتستان کو زیادہ سے زیا دہ اندرونی خود مختاری مل جا ئے گی اور مسلہ کشمیر کے حل تک یہا ں کے لو گوں کے گلے شکوے اور محرومیاں ختم ہو جائیں گی۔

تیسرا بنیادی کام جو اس آرڈر کے حوالے سے کرنے کا ہے وہ یہ ہے کہ اس آرڈر کو محض آرڈر نہ رکھا جائے بلکہ اس کو مکمل قانونی تحفظ دینے کے لئے اقدامات کئے جائیں جن میں اس کو پاکستان کی قومی اسمبلی سے ایکٹ کی شکل میں منظور کرانا ، اس کو آرڈننس کی شکل دیکر ایوان صدر سے جاری کرنا یا اس کو گلگت بلتستان کا عبوری آئین قرار دیکر گلگت بلتستان اسمبلی سے اس کی توثیق کرانا شامل ہے۔ ایسی صورت میں گلگت بلتستان کے نظام کو بھی کشمیر طرز کا بنا یا جا سکتا ہے جو کہ ایک مطالبے کی صورت میں یہا ں پایا جاتا ہے۔

چونکہ مسلہ کشمیر کی وجہ سے گلگت بلتستان کو پاکستان کا حقیقی صو بہ بنانا ممکن نہیں اس لئے گورننس آرڈر میں ضروری ترامیم کے ذریعے ہی گلگت بلتستان کے سیاسی سیٹ اپ کو اپ گریڈ کیا جا سکتا ہے جس سے نہ صرف گلگت بلتستان کے سیاسی سیٹ اپ میں نکھا ر آئے گی بلکہ یہاں کے لوگوں کی سیاسی محرومی بھی کم ہو جائے گی اور لوگوں کو وفاق کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے منتخب لو گوں کے ذریعے ا پنے مسائل کا حل ڈھونڈ نے میں مدد ملے گی۔

گلگت بلتستان امپاور منٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009 میں ضروری ترامیم کے حوالے سے گذشتہ اسمبلی کی قرار دادوں کے علاوہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق ، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق ، سپریم اپیلٹ کورٹ بار ایسوسی ایشن گلگت بلتستان، گلگت بلتستان بار کونسل اور دیگر اہم فورمز کی سفارشات پہلے سے مو جود ہیں جن کی مدد سے گو رننس آرڈر کے اند ر ضروری ترامیم کر کے اس کو گلگت بلتستان کے پندرہ لاکھ عوام کی خواہشات کے مطا بق بنایا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں وفاق میں بر سر اقتدار مسلم لیگ (ن) کومضبوط سیاسی ارادہ باند ھنے کی ضرورت ہے ۔

بہت بہتر ہوتا کہ گورننس آرڈر کی گذشتہ پہلی ترمیم کے ساتھ ہی یہ سارا کام مکمل کیا جاتا مگر دیر آید درست آید کے مصداق اب بھی وقت نہیں گزرا ہے۔ نگران حکومت کے دور میں ہی یہ کا م کر دیا جائے تو آئندہ آنے والے الیکشن میں سیاسی جماعتوں کی شمو لیت میں جوش اور ولولہ نظر آئے گا۔ وگرنہ انتخا بات کے بعد وجود میں آنے والی حکومت انہی مشکلات کا رونا روئے گی اور اسی طرح وفاق سے گلے شکوے کی پرانی ریت جا ری رہے گی اور پھر اس رونے دھونے میں آیندہ پانچ سال گذ ر جائیں گی۔ پانچ سالوں کے بعد پھر کہا جا ئے گا کہ سارے اختیارات وفاق اور بیورو کریسی کے پاس تھے ہم مفت میں بد نام ہوتے رہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button