Uncategorized

نوجوانوں کے لیے سماجی، معاشی اور نفسیاتی تعلیم

mail1 (1)
  دیدار علی شاہ

آج تک جس قوم نے بھی ترقی کی بلندی دیکھی ہے اس قوم نے پہلے علم حاصل کر کے پھر اپنے آنے والے نسلوں کو علم کے باریکیوں سے آشنا کروایا ہے آج جس دور میں ہم زندگی گزاررہے ہیں یہ دور علم اور ہنر پر چل رہی ہے اور ہر کام سائنسی تحقیق سے گزر کر لوگوں کے سامنے آتا ہے آج کے اس ترقی یافتہ دور تک پہنچنے کے لئے لوگوں نے نسل در نسل علم کی افادیت اور اہمیت کو مظبوط سے مظبوط تربنا کر منتقل کہ ہے جس کی مثال آج کے دور یعنی اکیسوں صدی کی سائنسی ترقی ہے ۔علم کی تلاش،استعمال،اور منتقل یہ ایک اہم سفر ہے علمی دنیا کو پار کرنے کے لئے، مگر اس کے چند بنیادی اصول بھی ہے جس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

اسی لئے نوجوانوں کو وقت کے ساتھ ساتھ اور بدلتے حالات کو مدنظر رکھتے ہوے ان کہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ انہیں جسمانی، سماجی، نفسیاتی، معاشی اور جذباتی تعلیم دینا ضروری ہے اگر کسی بھی معاشرے میں یہ تعلیم وقت اور حالات کے مطابق بچوں کو ملے تو یہ بچے نا صرف اپنے زندگی کو ہنرمند اور کاریگر بنا کر ایک کامیاب زندگی گزار سکتے ہے بلکہ اپنے آنے والے معاشرے رہنمائی ایک دور اندیش لیڈر کہ حیثیت سے کر سکتے ہے۔مگر کیا ہمارے طالب علموں اور نئی نسل کو وہ تعلیم جس میں جسمانی، سماجی ، نفسیاتی، معاشی اور جذباتی شامل ہے مل رہی ہے؟ اگر ہم گلگت بلتستان کہ بات کرے تو کیا یہاں تعلیمی میعار اس مطابق ہے کہ آنے والے نئی نسلوں کو ایک ایسی میعار کے تحت تیار کریں کہ یہ آنے والے وقت کے لیے مثال بنے۔ یہاں پر گورنمنٹ اور خاص طور نجی سکولزاور کالجز بے شمار بنے ہے مگر یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تعلیم برائے فروخت اور تعلیم برائے کاروبار نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان کا مقصد ایک اچھے اور مکمل انسان کی تشکیل ہو جس سے ایک اچھے معاشرے جنم لے اور آنے والے دورمیں لوگ ایک بہتر میعار کی زندگی گزار سکے ۔

قارئین کرام انسان دنیا میں پیدا ہوتے ہی مختلف مسائل کا سامنا کرتا ہے اوران مسائل میں وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا ہے اگر انسان کو وقت کے ساتھ ساتھ ان مسائل پر قابو پانا نہ سکھایا جائے تو یہ ان مسائل میں ڈوبا رہتا ہے اور مفلسی کہ زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے جس کہ مثال ہمارے معاشرے میں عام ملتا ہے مگر سائینسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوا ہے کہ انسان پیدا ہوتے ہی اس کہ سماجی اور عقلی تربیت شروع ہوتا ہے یہ فرائض والدین کہ ہوتی ہے پھر اسے سکول بھیجا جاتا ہے وہاں پر ٹیچرز ان کہ تربیت کرتا ہے اس کے بعد معاشرے سے وہ سیکھنا شروع کرتا ہے پھر کالج اور یونیورسٹی سے ہوتا ہوا وہ معاشرے میں کام کے لیے تیار ہوتا ہے ۔تحقیق بتاتی ہے کہ اگر اس سولہ سالہ سیکھنے کے عمل میں کہیں کوتاہی رہ جائے تو یہ کوتاہی اس کے آنے والے زندگی میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ ان تمام مراحل میں والدین کا زیادہ رول ہے اسی لیے ایک بہتر انسان کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ عمر کے لحاظ سے وقت کے ساتھ ساتھ ان کہ جسمانی، سماجی، نفسیاتی، معاشی اور جذباتی تعلیم بہت ضروری ہے تاکہ وہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں زندگی کے کسی موڈ پر مشکلات کا مقابلہ کر سکے اور معاشرے میں اپنا کردار بہتر طریقے سے ادا کرسکے کیونکہ اس جدید اور سائنسی دور میں سہولت کے ساتھ ساتھ مشکلات بھی انسانی زندگی میں درپیش رہتے ہے۔

قارئین کرام ایک کامیاب اور ہنرمند انسان کہ تشکیل کے لئے والدین ، اساتذاہ اور معاشرہ بنیادی کردار ادا کر تا ہے مگر اب ایسے غیرسرکاری ادارہ بھی اس سلسلے میں کام کررہا ہے جو نوجوانوں کو زندگی کے ہر شعبے میں ہنرمند اور کاریگر بنانے کے لئے مختلف طریقہ کار کے تحت کام کر رہا ہے۔

ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر گلگت بلتستان میں اس وقت اے کے آر ایس پی اس سلسلے میں کام کر رہا ہے جس کا مقصدنوجوانوں کو آنے والے دور کے لئے تیار کرنا ہے جو کہ Enhanced Employability & Leadership for Youth- EELYکے نام سے ایک پروجیکٹ چلا رہا ہے اس پروجیکٹ کے تحت گلگت بلتستان اور چترال کے نوجوان نسل کو بہتر روزگار کے حصول کے لئے تیار کیا جاتا ہے اور ان میں ایسے قائدانہ صلاحیت پیدا کیا جاتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں یہ نوجوان نسل معاشرے میں کارآمد اور کاریگر ثابت ہوسکے ۔جس میں ان نوجوانوں کو زندگی کے ہر شعبے میں کام کرنے کے طریقے ،میعار اور وقت اور حالات کے مطابق اپنے قابلیتی کو کام میں لانا اور اسے صیح سطح پر استعمال کرنا سیکھاتے ہے۔اور ابھی تک بہت سارے نوجوانوں نے اس ادارے کی سہولت سے فائدہ اٹھا کراپنے شعبے میں کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔

اس پروگرام جو کہ کنیڈا حکومتی ادارےDFATD کی مالی معاونت سے چل رہا ہے کا بنیادی مقصد گلگت۔بلتستان اور چترال کے نوجوانوں کو مقامی معاشرے کا ایک مفید فرد بنانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے اس منصوبے کے تحت دو اہم امور پر کام ہو رہا ہے۔ اول نوجوانوں کی ہنر سازی اور کارو باری مواقع کے حصول میں رہنمائی و مدد، اور دوم نوجوانوں کے قائدانہ صلاحیت کی استعدادسازی اور اداروں میں اُنکے لئے مواقع کی نشاندہی۔ ان تمام امور کا بنیادی مقصد نوجوانوں کو قابلِ بر سرِ روزگار (Employable) بنا نا ہے۔

وہ تمام نوجوان جو کالجز اور یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں یا فارغ ہوئے ہیں، یا کہ اپنی تعلیم کو مکمل نہیں کر پائے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنے ہنرمندی اور قائدانہ صلاحیت میں اضافہ کرنے کیلئے ان منصوبوں سے استفادہ حاصل کرے ۔آج کے دور میں سب لوگوں کہ خواہش ہے کہ ان کے مستقبل کامیابی کے ساتھ گزریں اور ان تمام والدین کہ بھی یہی خواہش ہے کہ ان کے بچے آج کے جدید دور کے میعار کے مطابق زندگی گزاریں اگر ہماری خواہش ہے مگر سہولت موجود نہیں یعنی تعلیمی ادارے اورمعاشرتی ادارے ٹھیک نہیں تو سمجھ لیجے کہ ہماری مستقبل کامیاب نہیں اسی لیے یہاں گلگت بلتستان اور چترال میں نوجوانوں کہ بہتر تشکیل نو کہ لیے ایسے اداروں کہ ضرورت ہے جو کہ معاشرے میں ہنرمندی اور بہتر تعلیم کو فروغ دیں اور معاشرے سے بے روزگاری اور نا انصافی کہ شرح کو کم کریں اس لیے اے کے آر ایس پی کی یہ پروجیکٹ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

ان تمام ادارون کا مقصد نوجوان نسل کو ان کے شعبے کے لحاظ سے ہنرمند بنانا ہے تاکہ یہ معاشرے میں کاریگر ثابت ہو سکے اور ان کے اندر اسے قائدانہ صلاحیت پیدا کرنا ہے کہ یہ مستقبل میں معاشرے کو صیح طرح سے سنبھال سکے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button