کالمز

الیکشن کا نقارہ اور ہمارے عوام

الیکشن کا نقارہ بجتے ہی خطے میں ایک گہما گہمی ہے پرنٹ میڈیا سے لیکر سوشل میڈیا تک ایک دوسرے پر سبقت پر حاصل کرنے کیلئے خبروں کی تاک میں نظر آتے ہیں ۔اسی طرح سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا دھندہ بھی عروج پر نظر آتاہے تو دوسری طرف عوام اس بار کچھ تذبذب کا شکار ہے کیونکہ آنے والے الیکشن کو دو ہزار نو کی الیکشن سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا اُس وقت چونکہ ایک طرف بی بی کی شہادت کے بعد عوام کے دلوں میں پیپلزپارٹی کیلئے اور نرم گوشہ تھا تو دوسری طرف انقلاب گلگت بلتستان کی ناکامی کے بعد پہلی بار اس خطے کو نام کا شناخت ملنا یقیناعوام کی نظر میں ایک بڑا تخفہ تھا۔ اسی خوشی میں عوام نے ایسے بھی شکست خوردہ لوگوں کو منصب وزارت تک پونچایا جن کیلئے جیت فقط خواب بن کر رہ گیا تھا۔اسی طرح تاریخ میں پہلی بار ایک جیالے کو وزیراعلیٰ کا منصب ملا یقیناًیہ بھی ہماری تاریخ کاحصہ بن گیا ہے جس سے ہم کچھ سیکھ کر مستقبل کیلئے لائحہ عمل طے کر سکتے ہیں۔دو ہزار نو سے پہلے ہمارے خطے کو شمالی علاقہ جات کے نام سے پکارے جاتے تھے پاکستان کے نقشے میں اس جنت نظیر خطے کیلئے ایک مستقل نام نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی سیاحت ثقافت اور جعرافیائی اہمیت پر کافی منفی اثر پڑ رہا تھا لہذا تمام تر اختلافات اور قوانیں اپنی جگہ لیکن کچھ حد تک خطے کے عوام میں سیاسی بیداری کے حوالے سے اُس پیکج نے کردار ادا کیاکیونکہ اُس وقت تک کشمیری حکمران نہ اس خطے کو ہضم کرنے کیلئے تیار تھے نہ اگلنے کیلئے ۔لیکن اچانک ان سب کی سوچ کے بلکل برعکس سلیف ایمپاورنمنٹ آرڈر نے انکی نیندیں اُڑاکر رکھ دی کیونکہ یہ لوگ اس بات پر خوش تھے کہ ہم نے اٹھائیس ہزار مربع میل رقبے کواپنی سے مرضی کے معاہدہ کراچی کے ذریعے قید کیا ہے جو وقت ضرورت استعمال کریں گے ۔

Sher Ali Anjum یہی ایک وجہ تھی کہ یہ خطہ پچھلے دہائیوں سے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رہنے کے باوجود کبھی کشمیری رہنما کو یہ توفیق نہیں ہوا کہ اس خطے کے عوام کا بھی حال پوچھ لیں لہذا میں ذاتی طور پر اُس پیکج کو شعور کی پہلی منزل سمجھتا ہوں کیونکہ 2009کے بعدایک نئی بحث چھیڑ گئی کہ آخر یہ گلگت بلتستان ہے کہاں اور کون کیسے کس طرح کی زندگی بسر کرتے ہیں۔اس پیکج سے پہلے المیہ یہ تھا کہ یہاں کے باشندوں کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنانے کیلئے بھی اسلام آباد کا رخ کرنا پڑتا تھا ۔مجھے یا د ہے کہ روزگار کی حصول کیلئے دیار غیر جانے کی کوشش میں پاسپورٹ بنانے کی عمل سے گزرنا پڑا تو معلوم ہوا کہ نادرا کی ڈیٹا بیس میں گلگت بلتستان کا کہیں نام نشان بھی نہیں تھا مجھے کبھی بلوچستان تو کبھی سوات کا باشندہ ظاہر کرکے پاسپورٹ بنانے کیلئے کہا گیا تو میرے ذہن میں اچانک خیال میںآیا کہ ہم چونکہ وفاق کے زیر انتظام ہے لہذا ہوسکتا ہے کہ فانا کے نام سے ہمارے خطے کا نام شامل ہو ،بلکل ایسا ہی ہوا گلگت بلتستان کے باشندوں کا شمار فاٹا اور فانا میں کیا جاتا تھا لیکن دو ہزار نو کے پیکج نے ہمیں اتنا تو بتایا کہ گلگت بلتستان بھی ایک الگ ریاست کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اب ہمیں کیا کرنا چاہئے کیا ہم صرف اس بات پر خوش ہو کر خاموش ہوجائے کہ ہمیں تو شناخت مل گئی ہے لہذا مزید مطالبے کی گنجائش باقی نہیں ایسا بلکل نہیں ہے اب تو وفاق پاکستان نے بھی صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ یہ خطہ آج بھی آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں اسی طرح عدالتی حکم نامے کے حوالے سے بھی جو پاکستان کے آئین اور قانون کے ماہرین کو جو رائے دیئے ہیں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ایسے میں ہمارے عوام کو کیا کرنا چاہئے ؟ سب سے پہلی بات چونکہ یہ خطہ آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں لہذا وفاقی پارٹیوں کا یہاں موجود ہونا بھی غیر آئینی اور غیر قانونی ہونگے اسی طرح ان پارٹیوں کا الیکشن میں حصہ لینا بھی ایک طرح غیر قانونی عمل سمجھا جائے گا میں چونکہ قانونی باریکیوں کو نہیں جانتا لہذاکوئی قانون دان اس مسلے کو مزید واضح کر سکتے ہیں۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں ایک قومی حکومت بنایا جائے جو رائے دہی کے ذریعے مستقبل کے حوالے سے فیصلے کرے ۔اسی طرح پرنٹ اورسوشل میڈیا کی وساطت سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے بحث کرنا شروع کیا ہے کہ اگر واقعی میں یہاں پر موجود وفاقی پارٹیوں کو سیاست میں حصہ لینے کیلئے قانون میں کوئی جواز ہے تو یقیناآئینی حقوق دینے کے حوالے سے بھی آئین اور دستور میں کہیں کوئی شق موجود ہونگے اگر ایسا نہیں ہے اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی یہی دلیل دہرائے جائیں کہ ہم تو صوبہ بنانا چاہتے ہیں لیکن اقوام متحدہ کی قراداد اس کی کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے،اس صور حال میں عوام کا بھی حق بنتا ہے کہ ریاست کا انتظام مقامی لوگوں کی سپرد کرنے کا مطالبہ کریں۔لیکن بدقسمتی اس بات کی ہے کہ ہم آج بھی تاریخی حقائق سے اگاہ نہیں ہمارے عوام آج بھی ایسی پاڑٹیوں کیلئے نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں جنکی منافقانہ پالیسیوں نے گلگت بلتستان کو تاریخ کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے عوام کو اس بات کا بھی خبر نہیں کہ جس شخص کوگزشہ عشروں ووٹ دیئے جارہے ہیں کیا کبھی انہوں نے مفاد پرستی سے بڑھ کر قومی حقوق کیلئے کسی پلیٹ فارم پر آواز بلند کیا؟۔لہذا اس بار عوام کو آنکھیں کھول کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ووٹ دیتے وقت کسی قوم پرست رہنما کی بات پر یقین کرنے کے بجائے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کی بیان کو ہی اپنے سامنے رکھ کر فیصلہ کرنے ہونگے بصورت دیگر ایک بار پھر وفاقی بہروپئے سابقہ حکومت کی طرح اس بار بھی اعلانات کی طشتری سجا کر تیار بیٹھے ہیں۔اگر عوام اس بار بھی الیکشن کے اس نقارے کے ساتھ ڈھول کے تھاپ پر رقص کرتے ہیں تو اُس ناگن کے مانند ہونگے جو سپیریے کی بانسری سے مچلنا شروع ہوتا ہے اور سپیرا چار پیسہ کمانے کے بعدپھر سے اُسی کال کوٹھری میں بند کردیا جاتا ہے ہمارے ہاں وفاقی سپیرے الیکشن کا سیزن شروع ہوتے ہی عوام سے ناگن کی رقص کرواتے ہیں اور مطلب پورا ہونا کے بعد پانچ سال کیلئے رفو چکر ہوجاتے ہیں۔ لہذا گلگت بلتستان کے لوگو خدا رااس بار ووٹ دینے سے پہلے سو بار سوچو کیونکہ آپکا ووٹ غیر قانونی سیاسی پارٹیوں کو دیمک کی طرح گلگت بلتستان کے وسائل کو ہضم کرنے میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے جو کہ ایک المیے سے کم نہیں ۔ووٹ کا بہتر استعمال خطے کو شناخت دلا سکتے ہیں قومی سیاست کرنے والوں کو سیاست کے میدان میں آگے لانے سے ہمیں وہ شناخت دروبارہ مل سکتا ہے جو انیس سو اڑتالیس میں ہم سے چھینا گیا تھا۔اللہ ہم سب کو گلگت بلتستان کے اصل مسائل اور قومی ضرورت کو سمجھتے ہوئے انفرادی اور اجتماعی طورپر کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس جنت نظیر خطے کے امن اور بھائی چارگی کا گہوارہ بنا دے۔ آمین

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button