کالمز

یہ غلامی قبول کیجئے گا۔۔

کہتے ہیں جمہوریت خود کوئی مکمل نظام نہیں بلکہ یہ تو نظام بنانے یا نافذ کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے جو اہلِ شعور کی رائے سے ترتیب دیتے ہیں ۔یعنی اتفاق رائے سے کام کرنے کو جمہوری طریقہ کہا جاتا ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج تک جمہوریت کی کوئی واضح تعریف نہیں ہو سکی جس کی ایک وجہ جمہوریت کی نت نئی قسمیں اور دن بدن بدلتی شکلیں ہیں۔

Sher Ali Anjum جہاں تک گلگت بلتستان میں جمہوریت کی بات ہے توکہا جاتا ہے کہ حکومت پاکستان نے دو ہزار نو میں داخلی خود مختاری کانظام دیکر خطے کی تاریخی میں پہلی بار جمہوری نظام کے تحت الیکشن کرایا جس کے تحت منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی اپنی مدمت پوری کرکے رخصت ہوکر چلے گئے۔  اچھا تھا اور کیا بُرا یہ ایک لگ موضوع بحث ہے لیکن دہائیوں کے بعد ایک اپاہچ نظام کا بننا بھی ایک اچھی پیش رفت تھی ورنہ توخطے کے دعوے دار نام نہاد لوگوں نے اس خطے کے ساتھ جو سلوک کیا ہوا تھا سب کے سامنے ہے۔

بات کو مختصرکرتے ہوئے آگے بڑھیں تو خطے میں جمہوری دور کا دوسرا ٹرن آور شروع ہونے والا ہے اللہ اللہ کرکے جمبو سائز نگران کابینہ بھی بالآخر تشکیل پاگئے، الیکشن کمیشن کے قیام کے بعد الیکشن کمشنر بھی تعین ہوگئے یعنی حکومتی کی طرف سے تمام تر تیاریاں مکمل ہوچکی ہے بس عوام کا آپس میں لڑنے کا کام باقی ہے۔ غیر آئینی خطے میں غیر آئینی جمہوری نظام کے بارے میں جو خدشہ اور شبہات سول سوسائٹی اور قوم پرست جماعتیں کر رہے تھے آج برجیس طاہر کا گورنر مقرر کرنے کے بعد یقین میں بدل گیا ہے جی ہاں اب یہاں دمام دم مست قلندر ہوگا الیکشن کے نام پر تماشے ہونگے میر جعفروں کو پیسوں میں تول کر خریدلیا جائے گا وغیر ہ وغیرہ۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ غیر مقامی گورنر کے تسلط کو بھی کچھ لوگ خواب غفلت میں رہتے ہوے صرف سیاسی آ قاوں کی خوشنودی کیلئے دلیل پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گورنر کسی بھی صوبے میں وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے لہذا وفاق کی مرضی ہے کہ وہ جس کو چاہئے گورنر لگائیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلی بات گلگت بلتستان آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں اقوام متحدہ کے قوانین کی روشنی یہاں پاکستان سرکار کی حیثیت بطور نگران کی ہے لہذا نگرانی کے اس عمل کو حسب ضرورت پالش کرکے آج جمہوریت کا نام دیا ہوا ہے، یہ نقطہ بھی ایک الگ موضوع بحث ہے لیکن اتنا تو عام آدمی بھی جانتے ہیں کی کسی بھی صوبے میں دوسرے صوبے کے کسی شخص کو گورنر نہیں لگایا جاتالہذا یہاں ایسے انہونی نظام کا نافذ ہونا جمہوریت کے دعوے داروں کی منافقانہ اور نظام تسلط کا ایک تسلسل ہے۔یہاں ہم میں سے کچھ لوگ یہ بھی سوال اُٹھاتے ہیں صرف برجیس طاہر کی گورنری پر اعتراض کیوں ؟ میں سمجھتا ہوں چونکہ اُس وقت یہاں ایک نئے نظام حکومت تشکیل دی جارہی تھی لہذا نظام کو مکمل کرنے کے بعد گورنرکا عہدہ بھی منتقل کیا گیا تھا۔لیکن آج یہاں ایک مکمل سیاسی نظام تشکیل پاچُکی ہے ایسے میں اُنہی کی وزارت نے خود کو گلگت بلتستان کا گورنر منتخب کرنا گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ مذاق اور وفاق پاکستان کا گلگت بلتستان کے عوام کو دبے الفاظ میں یہ پیغام ہے کہ اُنکے نزدیک موجودہ برائے نام صوبائی نظام کی کوئی حیثیت نہیں۔ لہذا یہاں کے عوام کیلئے یہ ایک چیلنج سے کم نہیں کیونکہ اُس سے پہلے انہی کے پارٹی کے وفاقی وزیر نشریات واضح الفاظ میں کہہ چُکے ہیں کہ گلگت بلتستان کسی بھی صورت میں آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں اور حال ہی میں ہمارے نگران وزیراعلیٰ کی طرف سے یہ بیان دینا کہ گلگت بلتستان اور کشمیر کو کوئی بھی الگ نہیں کر سکتا یعنی دال میں کچھ کالا ضرور ہے جو ابھی تک منظر عام پر نہیں لایا جا رہا ہے۔ان تمام بیانات کے تناظر میں گورنر کی تعیناتی عمل کو دیکھا جائے تو سابقہ ڈوگرہ نظام اور آج کے جمہوریت میں کوئی واضح فرق نظر نہیں آتا بلکہ یوں کہیں تو بجا ہے کہ ڈوگرہ نظام حکومت میں ریاست کے عوام کو حق ملیکت حاصل تھی سٹیٹ سبجیکٹ رول جیسے سخت قوانین کی وجہ سے کسی غیر ریاستی باشندے کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ ریاست کے معاملات میں دخل اندازی کریں لیکن آج تو گلگت بلتستان ایک طرح سے سیاسی اور مذہبی مچھلی بازار بنا ہوا ہے کوئی مذہب کے نام پر ہمارے عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں تو کوئی سیاست کے نام پر ،یعنی بقول فیض صاحب کے ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا

۔واقعی اس گلستان کو اُجاڑنے میں جتنا غیروں نے سازش کیا اُس سے بھی کہیں ذیادہ مقامی مراعات یافتہ طبقے نے ریاست کی ساکھ اور شناخت کو نقصان پہنچایا ایسے ہی لوگوں کی خواہش پر آج خطے میں قوم پرستی کو جرم قرار دیا ہوا ہے۔ بلکہ یہی لوگ کئی قومی رہنماوں کو سولی پر چڑھانے کیلئے بھی کوشش کر رہے ہیں تو کئی لوگوں کو ملک بدر کیا ہوا ہے جو ریاست کے عوام کو حق حکمرانی دینے کا نعرہ لگاتے ہیں۔

اس سے زیادہ افسوس کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔آج بھی اس فراڈ سیاسی نظام کے تحت حاکم بننے کی کوشش میں کچھ لوگ اُس ریوڑھ کے مانند سر نیچے کرکے ایک دوسرے کے پیچھے چل رہے ہیں جنہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ہماری منزل کیا ہے؟ آگے والا ہمیں کس طرف لیکر جا رہے ہیں یعنی مقصد کہنے کا یہ ہے کہ ہمارے عوام بشمول سیاست دان نظریات اور اصول کی سیاست نہیں کرتے جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے مصداق جس کے ہاتھ میں ٹکڑا چھڑی نظر آتا اُسی کو لیڈر مان کرکچھ مفاد حاصل کرکے جمہوریت کا نعرہ لگاتے ہیں۔آج ہمارے خطے میں الیکشن کا طبلہ بجتے ہی ایک طرف سیاسی وفاداریاں بدلنے کا سلسلہ عروج پر ہے تو دوسری طرف نواز لیگ نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت یہاں کے عوام سے بدلہ لینے کا عہد کرکے تمام متعلقہ اداروں میں دھاندلی کیلئے انکے زر خرید لوگوں کو لگاکر یہ پیغام دیا ہے کہ خطے عوام مانے یانہ مانے الیکشن ہم نے ہی جیتنا ہے یہی وجہ ہے کہ کرسی بھوکے اور غیرت و شعور کے سوکھے لوگ جوق در جوق نوازلیگ میں شامل ہونے پرفخر محسوس کر رہے ہیں۔یہ تمام صور ت حال دیکھنے کے بعد یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ الیکشن کے نام پر سلیکشن ہی ہونا ہے تو بہتر یہی ہے کہ انہی لوگوں پر مشتمل ایک شوریٰ تشکیل دیکر ارکین شوریٰ کے ہاتھ میں وازرتوں کا قلمدان تھما کر قصہ ہی تمام کردیں ۔اس علاقے میں کم از کم الیکشن کے نام پر غریب عوام آپس میں تو نہیں لڑیں گے ،کسی کا گھر اجڑنے سے بچ جائے گاتو کسی نیند میں تو خلل نہیں آئے گی۔ یہ قوم آپکے حوالے ہیں اور آپ جو بھی نظام جس نام کے ساتھ لاگو کریں ہم جی حضور سے بڑھ کر ایک لفظ بھی کہنے کو گناہ کبیرہ سمجھ لیں گے ،آپ بس آپ ہماری غلامی کو قبول کیجئے گا یہی ہماری لئے مرتبہ اور عزت کا مقام ہے۔ شکریہ

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button