کالمز

سیاست ، خدمت یاعبادت ؟

شگر سے سکردو جاتے ہوئے سکردو شہر کے گرد و نواح میں ایک دیوار پر لکھا دیکھا "خدا کی قسم پورے کا پورا اسلام سیاست ہے”ایک اور جگہ لکھا ہے ”سیاست عبادت ہے”کسی اور جگہ لکھا ہے "سیاست اصل میں خدمت ہے "ان تمام کے نیچے ایک مذہبی تنظیم کا نام لکھا ہے ۔جب پہلی دفعہ ان الفاظ پر میری نظر پڑی تو میں چونک پڑا کیونکہ زندگی میں بہت سارے نام نہاد سیاستدانوں سے واسطہ پڑا تو نہ مجھے ان کی سیاست میں اسلام نظر آئی ، نہ عبادت اور نہ خدمت ہی۔

وزیر فدا علی مایا شگری 
وزیر فدا علی مایا شگری

میں نے سوچا کہ کیا دیواروں پر لکھی ہوئی یہ عبارتیں غلط ہیں یا ہمارے سیاستدان ؟ جن کا ان تمام کلمات سے دور دور تک واسطہ نظر نہیں آتا ۔

نہ مجھے سیاستدان ہونے کا دعویٰ ہے اور نہ میں کوئی بہت ذیادہ پڑھا لکھا شخص ہوں کہ سیاسست کے رموز سے باخبر ہو۔میں سیدھا سادہ ایک ریٹائرڈ فوجی ہوں جوکہ حادثاتی طور پر بلدیاتی سیاست میں کود پڑا۔

میں نے اپنی کم فہمی کے باجود اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی جب الیکشن کا زمانہ آتا ہے تو ہمارے سیاستدان اتنے ذیادہ خوش اخلاق ، ملنسار اور عوامی خدمتگار نظر آتے ہیں کہ کبھی کبھار یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کے جسم میں کسی فرشتے کی روح حلول کر گئی ہے ۔مگر الیکشن جیتنے کے بعد ان کے روئیے میں ایسی بیگانگی نظر آتی ہے جیسے کہ دوسرے سیارے کے باسی ہوں اور اپنے ووٹروں کو اجنبی نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں ۔ اگر سیاست پورے کا پورا اسلام ، عبادت یا خدمت ہے تو ہمارے سیاستدان حق حلال کی کمائی یا قرضہ لیکر لاکھوں ،کروڑوں روپے الیکشن مہم پر خرچ کیوں کرتے ہیں ؟ ہم اکثر سیاستدانوں کو جانتے ہیں جو حکم خدا کے مطابق نہ ذکواۃ دیتے ہیں نہ خمس ہی، نہ حج کرتے ہیں اور نہ کسی غریب شخص کی مددہی۔ مگر اقتدار حاصل کرنے کیلئے سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں کیا یہ لوگ اقتدار اسلام کی احیاء عبادت یا جذبہ خدمت کے تحت حاصل کرناچاہتے ہیں یا اسے سرمایہ کاری کا ذریعہ سمجھتے ہیں ؟

سابقہ تجربات کے تحت آج تک ان لوگوں سے کبھی اسلام کو کوئی فائدہ پہنچا ، نہ سیاسی عبادت نظر آئی اور نہ خدمت ہی۔

البتہ اقتدار ملنے کے بعد ان کے اثاثوں میں، تکبرمیں اور ہوس اقتدار میں بے پناہ اضافہ ضرور نظر آتا ہے ۔ہمارا معاشرہ چونکہ ذیادہ تر ان پڑھ لوگوں پر مشتمل ہے ۔نہ ان میں سیاسی شعور ہے نہ اچھے برے کی تمیز ۔اس لئے یہ سیاسی مداری ہر دفعہ لوگوں کو بے وقوف بنا کر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ہم شخصیت پرستی میں اتنے جکڑے ہوئے ہیں کہ کوئی باشعور شخص اس مکارانہ جال کو توڑنا چاہے تو بھی توڑ نہیں سکتا کیونکہ بے حس معاشرہ اپنے بے رحمانہ پنجوں سے اسے جکڑ لیتا ہے۔

"کسی مفکر کا قول ہے”۔

”اندھی تقلید اور شخصیت پرستی ہمیشہ ایک بانجھ سوسائٹی پیدا کرتی ہے جس میں آنکھیں تو سب کے پاس ہوتی ہیں لیکن بینائی کسی کے پاس نہیں ”

ہماری سوسائٹی واقعی بانجھ ہوچکی ہے۔ہم کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی نا بینا ہیں کیونکہ ہم اتنا بھی نہیں جانتے کہ ان سیاستدانوں نے اپنے دور اقتدار میں اپنے لیے کیا کمایا اور غریب عوام کو کیا دیا؟

میں اپنے قوم کے پڑھے لکھے جوانوں سے مایوس نہیں ہوں کیونکہ مایوسی کفر ہے ۔مجھے امید ہے کہ قوم کا باشعور طبقہ کسی نہ کسی دن اٹھ کھڑا ہوگااور ان سیاسی بتوں کو پاش پاش کر دیگا۔اور قوم کی قیادت کیلئے کسی غیرت مند ، بے لوث ، اسلام شناس حقیقتاََ سیاست کو عبادت اور خدمت کا ذریعہ سمجھنے والے پڑھے لکھے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کا چناؤ کرینگے۔ورنہ تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کریگی اور تاریخ کا انتقام قوموں کی تباہی کا باعث بنتی ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button