کالمز

سوچ یہ آج دو گھڑی کے لئے۔۔!

ذوالفقارعلی غازی

آج کل گاوں میں تابڑ توڑ چوریوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے، یوں لگتا ہے جیسے دوکان مارنے والوں میں اورمکان مارنے والوں میں مقابلہ ہو۔ نہ گھرمحفوظ ہیں نہ ہی دوکان۔ دوکانوں کے تالے کھولے جا رہے ہیں وہ بھی ایسی مہارت سے کہ کیا کہنا؟ جو تالہ اپنی مضبوطی دیکھاتا ہے وہ کٹتاہے یا ٹوٹ جاتا ہے۔جب ہم اپنے گھروں میں کوئی تالہ چابی کھوجانے کی وجہ سے توڑنے لگتے ہیں تو سارا محلہ گونج اٹھتا ہے،پسینے نکلتے ہیں پر تالہ قبضہ چھوڈنے پر راضی نہیں ہوتا ہے۔ لیکن جب چور دوکان کے دروازے پر پہنچ جاتے ہیں تو تالے ایسے کھلتے ہیں جیسے ۔۔۔۔! لگتا ہے چوروں اور تالوں میں گھڑ جوڑ ہے ، نہ شو ر نہ زور ۔ کمال ہے چور اتنی چوریاں کرتے ہیں اور پکڑے بھی نہیں جاتے، اور ادھر حال یہ کہ ابھی ارادہ ہی کیاہوتا ہے کہ شوہر نامدار بیوی کے ہاتھوں گرفتار ہو جاتا ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ عورت کو بیوہ ہونے سے ڈر لگتا ہے پر جب خود مارنے پر تل جاتی ہے تو وہ اس خوف پر ایسے قابو پالیتی ہیں جیسے کوئی قصائی سانڈھ کو قابو کرلیتا ہے۔

دکاندار بھی کہاں سدھرنے والے ہوتے ہیں، پہلی چوری کے بعد ایک کے بجاے دو تالے لگاتے ہیں ، لیکن کچھ دنوں میں دونوں ٹوٹ جاتے ہیں۔جب تالہ چور کو روک نہیں سکتا ہے تو پھر تالہ لگانے کا فایدہ؟ اس کے بجاے صرف کھونٹی لگا دی جاے تو اچھا ہے، تالے کے پیسے تو بچ جاینگے کم از کم۔ چوکیدار بھی لگاے جاسکتے ہیں، لیکن جب بندوق بردار، حوالدار، تھاندار اور تحصیلدار مل کر بھی کسی کو روک نہیں سکتے ہیں تو ایک بیچارہ چوکیدار چوروں کو کیسے روکے گا؟ جانے دو بھائی آسان طریقہ مک مکا کرنے کا ہے، دوکاندار مل کر چوروں کے لئے ضیافت کا اہتمام کریں اور ماہانہ طے کریں۔ بڑے بڑے شہروں میں ، ہفتہ بھی جاتا ہے اور منتھلی بھی، ہمارا گاوں بھی تو شہر ہونے جا رہا ہے، ہمیں ابھی سے ان چیزوں کی عادت ڈالنی چاہئے تاکہ آنے والوں وقتوں میں آسانی سے شہری تقاضوں کو پورے کئے جا سکیں۔ کوئی ایک گاوں ، قصبہ یا شہریا کوئی محلہ جہاں سے کوئی چوری نہیں ہوئی ہو کوئی بتا سکتا ہے کیا؟ چور پکڑے بھی جاتے ہیں اور چھوڑے بھی جاتے ہیں، جو چور واردات کے بعد جتنی جلدی پکڑا جاتا ہے اتنی ہی جلدی چھوٹ بھی جاتا ہے۔

اگر سچ پوچھو تو چوری کوئی واردات ہی نہیں کہ جس کے لئے ہم پریشاں ہوں، ڈاکہ، لوٹ مار، رہزنی اور قتل و غارت گری کے اس دور میں تالہ توڑ چوری کی کیا اہمیت، کم ظرف ہیں جو رپٹ لکھوانے جاتے ہیں۔آپ یقین کریں یا نہ کریں چوری کی ان وارداتوں کے بڑے فواید ہوتے ہیں، فرض کریں اگر چور تالے نہ توڑیں تو تالے بنانے والی فیکٹریوں کا کیا ہوگا؟ ان فیکٹریوں میں کام کرنے والے ہزاروں مزدوروں کا کیا ہوگا؟ تالہ توڑ چوریوں سے پریشاں ہونے کے بجاے تالوں کا کاروبار کرنا چاہئے۔ اور پھر چوروں سے مراسم بھی بڑھانے چاہئیں ۔ تالوں کا کاروبا ر ہو اور تالے کاٹنے ، توڑنے اور کھولنے والے اوزار بھی ساتھ میں مہیا کئے جائیں تو کیا بات ہے، یقین جانئے آپ کا کاروبار بھی محفوظ اور چورں سے تعلقات الگ بونس میں۔

چوروں کی بھی تو قسمیں ہوتی ہیں، دوکان چور، مکان چور، کار چور، سایکل اور موٹر سایکل چور، گھروں میں سے فاضل اشیا چورانے والے، لکڑ چور، گائے بیل چور، بھڑ بکری چور، مرغی چور، اورتواور سیزن میں آلو چور بھی وقتی طور پر وجود میں آتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دوکان چور کبھی گاے نہیں چوراتا ہے، اس فیلڈ کے چور الگ ہوتے ہیں۔ کار چورانے والے مرغی نہیں چوراتے ہیں، کچھ تو ایسے بھی ہیں جو پوری گاڑی اٹھانے کے بجاے صرف ایکسٹرا ٹائر، وہیل پانہ اور جیک ہی اٹھا کراپنا نام انلسٹ کرواتا ہے۔

کچھ ایسے بھی ہیں جو جیلوں میں سے قیدی بھی چراتے ہیں۔ ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے پھر بھی مارکیٹ میں انہی کا چرچہ ہے۔ اس فیلڈ میں شہرت یعنی پبلسٹی د یکھ کر اگر کل کلاں سبھی چوروں نے عوام کو تنگ کرنے کے بجاے جیلوں میں سے قیدی چرانے کا آغاز کیا تو کیا ہوگا؟؟ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو کچھ ہائیلی ایفیشینٹ پروفیشنل چوروں کا استعمال ملکی مفاد میں بھی کیا جا سکتا ہے۔

آخر میں ایک سوال کیا ملی بگھت کے بغیر جیل میں سے کسی قیدی کو چھڑایا جا سکتا ہے؟

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button