کالمز

یمن : سامراجی سازشوں کا نیا شکار

تحریر: عالمگیر حسین

25 ملین نفوس پر مشتمل عرب کا قدیم ترین اور دنیا کے دس غریب ترین ممالک میں شامل یمن ایک پیچیدہ سماجی و سیاسی پس منظر کا حامل معاشرہ ہے جس پر جنگجو قبائل اور جغرافیائی اکائیوں کے گہرے نقوش مرتب ہیں۔یمن اندرونی معاشرتی و سیاسی تضادات کے ساتھ ساتھ خطے کی بااثر حکومتوں کی مداخلت کا بھی شکار رہا ہے۔ ماضی میں اسی مداخلت کی وجہ سے یمن دو لخت ہوگیا تھا تاہم 1994 میں سابق مطلق العنان صدر علی عبداللہ صالح کی زیر قیادت ایک خونریز جنگ کے بعد عرب سوشلسٹ جمہوریہ یمن کا الحاق ایک بار پھر سے جمہوریہ یمن (شمالی) سے ہوا اور متحدہ یمن منظر عام پر آیا۔ صدر صالح نے تمام قبائل اور سیاسی نظریات کی نمائندگی کرنے والے اکائیوں کو متحد رکھا البتہ ملک میں سیاسی و فوجی اسٹیبلشمنٹ کی من مانیوں اور قومی وسائل کے غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف عوامی بے چینی عروج پر پہنچی تھی شمالی افریقہ سے چلنی والے نام نہاد عرب بہار نے جہاں تیونس سے ذین العابدین بن علی کی ڈکٹیٹرشپ کو رخت سفر باندھنے پر مجبور کیا وہی لیبیا سے معمر قذافی کی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا اور قذافی اور اس کے خاندان کا قتل عام ہوا ۔حیرت یہ ہے کہ ایک غیر مقبول ڈکٹیٹر کی حیثیت سے بن علی کو سعودی عرب نے پناہ دی لیکن قذافی اپنے انقلابی اور عرب نیشنلزم کی ملتے جلتے نظریات کی پاداش میں مثال بنادیا گیا۔

نام نہاد عرب بہار کی یہ لہر لیبیا مصر اور خلیج عدن سے ہوتی ہوئی یمن میں داخل ہوگئی، گیارہ ماہ تک صنعاء اور ملک بھر میں زبردست احتجاج ہوا اور نظام کی بساط لپیٹنے کے نعرے لگاتے ہوئے کئی ملین عوام سڑکوں پر رہے تاہم عبداللہ صالح کے مقامی اور بین الاقوامی سرپرستوں کی پشت پناہی اسے حاصل رہی۔ ہزاروں افراد مارے گئے تاہم انقلاب کامیاب نہ ہوا، بعد ازاں سعودی عرب اور اس کے دیگر سرپرستوں نے ایک سمجھوتے کے تحت حکومت سے محفوظ واپسی کا راستہ دیا اور انہی کے نائب صدر عبد الربومنصور ہادی کو عوام پر تھونپا گیا جنہوں نے عوامی مطالبات پورے کرنے اور استحصالی پالیسی ختم کرنے کے وعدے کئے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات جوں کے توں رہے،صدر ہادی اپنے پیش رو کے نقش قدم پر چلتے رہے۔ اسی اثناء میں الیکشن منعقد ہوئے جس میں صرف ہادی واحد امیدوار تھے، اس طرح کے غیر جمہوری اقدامات اور پالیسیوں کے تسلسل کے خلاف عوام پھر سے سڑکوں پر نکل آئے۔ اب کی دفعہ احتجاجی تحریک کی قیادت شمالی یمن کی نمایاں سیاسی قوت انصاراللہ کررہی تھی ،دو ماہ تک دارالحکومت کی سڑکوں پر بیس لاکھ افراد کے دھرنوں اور احتجاج کے بعد صدر عبدالربو منصور ہادی اقتدار سے مستعفی ہوگئے۔ ان کے بعد وزیر اعظم اور کابینہ کے اراکین نے بھی ان کی تقلید کی اور ملک میں پر امن انتقال اقتدار کے ساتھ تمام قومی و سیاسی اکائیوں کی نمائندہ کمیٹی بنادی گئی۔

یمن میں کایا پلٹ تبدیلیوں سے اس کے ہمسایہ ممالک کو پریشانی لاحق ہوئی اور انہیں اپنے مہروں کی ناکامی اور بدلے سیاسی منظرنامے پر نئے اتحادیوں کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی، اس دوران صدر ہادی پہلے صنعاء اور بعد ازاں ریاض فرار ہوئے اور یکایک انہوں نے اپنی حکومت کی بحالی کیلئے خلیج تعاون کونسل اور اقوام متحدہ سے مدد کی اپیل کی ۔ان کی اس دہائی کو جواز بناکر سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے مارچ کی 24 تاریخ کو رات کے پچھلے پہر یمن پر حملہ کردیا اور تمام دوستوں اور امریکہ کو اس ہلہ شری میں خلیج تعاون کونسل کے علاوہ سوڈان، تیونس، مصر، مراکش سمیت دس ممالک کا تعاون حاصل ہے جو رات دن یمن کے عوام پر میزائل اور بموں کی بارش کررہے ہیں جس میں سینکڑوں بے گناہ مرد اور خواتین اور بچے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ اس اتحادی ہلہ شری کو فیصلہ کن طوفان کا نام دیا گیا ہے، عجیب اتفاق ہے کہ یمن پر حملہ آور اتحاد نے جس نام سے جارحیت کا ارتکاب کیا ،90 کی دہائی میں امریکی خلیجی جنگ میں بھی اسی سے ملتا جلتے نعرے یعنی صحرائی طوفان کے تحت عراق کو تہہ و بالا کیا تھا۔ حالیہ اتحادی حملہ کیلئے جو جواز بنایا گیا وہ مستعفی صدر ہادی کی آئینی حکومت کی بحالی اور سعودی عرب کی ارضی سالمیت کو لاحق خطرات بتایا گیا ہے، واہ کیا بہانہ ہے یمن تو اپنے اندرونی مسائل اور مشکلات میں گھرا ہوا ہے جو کہ خالصتاً ایک خود مختار ملک کا اندرونی معاملہ ہے ۔ایک طرف ایک فرد کھڑا ہے دوسری جانب اس ملک کے لاکھوں عوام ۔بالفرض ایک فرد کی حکمرانی کو بحال کرنا اس قدر ضروری ٹھہرا تو کیا یہ مقصد یمن کے غریب عوام، بچوں اور خواتین کے ساتھ ساتھ ملک کو تاراج کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے؟ یا اس کیلئے ایک ہمدرد دوست اور ہمسایہ ہونے کے ناطے سعودی عرب کو مذاکرات اور باہمی افہام و تفہیم کا ماحول فراہم کرکے کیا جاسکتا تھا اگر عراق اور افغانستان پر حملے کیلئے امریکہ نے اقوام متحدی کی سلامتی کونسل سے منظوری کی آڑ لی تھی لیکن یہاں تو عرب اتحاد نے اس تکلف کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی ،اگر کسی سربراہ مملکت کو ہٹایا جانا غیر آئینی اور اتنا سنگین جرم ہے تو لیبیا میں معمر قذافی اور شام کے صدر بشار الاسد کو ہٹانے کیلئے کیوں شام اور لیبیا کو تباہ و برباد اور ا ن ممالک کو قتل و غارت اور خون ریزی کی مثالیں بنادی گئی ہیں؟؟؟

آپریشن فیصلہ کن طوفان میں جس بہیمانہ انداز میں یمن کے عوام کو نشانہ بنایا جارہا ہے اس کی خوفناک تصاویر عالمی میڈیا میں دیکھی جاسکتی ہیں، نہ سویلین آبادی کو تحفظ حاصل ہے نہ مہاجر کیمپ اور نہ ہی مارکیٹیں، ہرجگہ آسمان سے آگ و آہن کی بارش جاری ہے، عرب اتحاد اور ان کے ہمنواؤں نے ان ظالمانہ اقدامات کو یمن کے عوام کی حمایت میں اٹھائے جانیوالے ناگزیر دوستانہ اقدامات سے تعبیر کیا ہے۔ شاید شاعر نے اسی موقع پر کہا تھا ” وہ قتل بھی کریں اور لے ثواب الٹا” کے مصداق ایسی ہمدردی اور محبت کا اظہار امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھوں غزہ اور عراق میں تو دیکھی جاسکتی ہیں مگر ایسے ناقابل قبول ہتھکنڈوں کو کوئی بھی منصف مزاج انسان تسلیم نہیں کرسکتا۔اس کے علاوہ عربوں اور ان کے اتحادیوں کے ان دوہرے معیارات پر رونا آتا ہے کیونکہ ایک جانب مصر میں عوامی حمایت سے برسر اقتدار آنیوالے محمد مرسی کے خلاف جنرل سیسی کی بغاوت اور مرسی کو جیل میں ڈالنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہوا اور نہ ابھی تک اس ملک کی فوجی عدالتوں سے اڑھائی ہزار کے قریب اخوان المسلمون کے رہنماؤں کو موت کی سزائیں دینے پر کسی کے کان میں جوں رینگی،یہاں جمہوریت کا کیا بنا؟اور سعودی اتحاد کے سرخیل سعودی راجاؤں نے سب سے پہلے مصر کے منتخب صدر مرسی کے خلاف ہونے والی غیر آئینی و غیر اخلاقی بغاوت کی اعلانیہ حمایت کی۔ان کا گناہ صرف یہ تھا کہ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی اسرائیل سے سفارتی تعلقات منجمد کردیئے تھے اور اس سے قبل غزہ میں حماس کی اسماعیل ہانیہ کی حکومت کو بھی کسی عرب ملک نے تسلیم نہیں کیا۔

یمن کی دلدل میں کودنے کے بعد سعودی عرب کو اپنی سیاسی غلطی کا احساس ہورہا ہے یہی وجہ ہے وہ دنیا کے ہر ملک کو یمن کے خلاف ہلہ شری کی دعوت دے رہا ہے جس کیلئے جواز سعودی ارضی سالمیت پر لاحق خطرات پر زور دیا گیا ہے، پاکستان سے بھی سعودی حکومت نے مدد کی اپیل کی ہے اگر چہ ہماری حکومت شروع شروع میں ا س جنگی اکھاڑے میں اترنے کیلئے بے قرار نظر آرہی تھی مگر ملکی سیاسی و مذہبی قیادت اور صاحب الرائے طبقے کی بروقت تنبیہ کرنے پر حکومت کو تھوڑی عقل آئی اور وہ معاملے کے حوالے سے مصالحانہ کردار ادا کرنے پر تیار نظر آرہی ہے اور حکومت نے متعدد اسلامی ملکوں سے رابطوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے کیونکہ یمن کا معاملہ ہمارے لئے بیگانے شادی میں عبداللہ دیوانہ والا معاملہ ہے ، واضح رہے یمن نے پاکستان کے خلاف کسی جنگ میں نہ ہی ہمارے دشمن ملک ہندوستان کی مدد کی ہے نہ ہمارے ساتھ ان کا سیاسی یا سرحدی جھگڑا رہا ہے لہٰذا اس جنگ میں کسی طرح کی مدد یا کردار غیر منصفانہ اور غلط ہوگا کیونکہ سعودی عرب کی ارضی سالمیت کو فی الوقت کوئی خطرہ لاحق ہے اور نہ پہلے لاحق تھا۔ کعبہ اور مدینہ تمام مسلمانوں کیلئے یکساں محترم ہے کوئی بھی مسلمان ان مقامات کی بیحرمتی کا کیسے سو چ سکتا ہے اگر کوئی اس طرح کی بے ادبی کا مرتکب ہوسکتا ہے تو وہ ابوبکر البغدادی ہوسکتا ہے جس نے اعلانیہ کعبۃ اللہ کو نعوذ باللہ نقصان پہنچانے کا اعلان کررکھا ہے،ادھر یمن نے نہ ہی سعودی عرب پر حملہ کیا ہے اور نہ ایسے جارحانہ عزائم اس حملے کا موجب بنے ہیں بلکہ معاملہ بالکل الٹا ہے اور یمنی عوام جارحیت کا شکار بنے ہیں۔ ارض مقدس کا تقدس اور شاہی حکومت کی پالیسیاں دو مختلف چیزیں ہیں ورنہ امریکہ اور اسرائیل کو کب سے کعبہ اور مدینے کی فکر لاحق ہوئی اور وہ یمن پر فیصلہ کن طوفان میں کس عقیدت کی بناء پر حصہ ڈال رہے ہیں۔ اس شعر کے مصداق ” پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے”

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button