کالمز

وزیر اعظم کی بائیسکل چوری ہوگئی

نیر علی شمس 

ہمارے ملک میں وزیر اعظم جہاں جاتا ہے وہاں حفاظتی اقدامات اتنے سخت ہوتے ہیں کہ پرندہ بھی آسانی سے اُس علاقے میں اپنی مرضی سے پر نہیں مار سکتا ۔ پرانے زمانے میں حکمرانوں کو بادشاہ ، سلطان اور خلیفہ کے القابات سے یاد کیا جاتا تھا۔ دوسرے بادشاہوں کے بارے میں رب بہتر جانتا ہے کہ اُن کی آمد و رفت کا سلسلہ کیسا ہوا کرتا تھا لیکن مسلمانوں کے سب سے بڑا بادشاہ نبی پاک محمدﷺ کا پروٹوکول تو آپ سب کو معلوم ہے کہ آپﷺ اپنی امت سیکیسی اور کس حد تک عزت کا تقاضا فرماتے تھے ، کتنی فوج آگے پیچھے ہوتی تھی اور آپ ﷺ کی کسی اور علاقہ یا ملک تشریف آوری پر قومی خزانے سے کتتی رقم خرچ ہوتی تھی۔آپ ﷺ کی آمد پر کتنی سڑکیں سنسان رہتی تھی اور کتنے تعلمی ادارے آپﷺ کی ذاتی تحفظ کی خاطر بند رہتے تھے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ہر مسلمان بلکہ بہت سارے لوگ جانتے ہیں ۔اب میں زمانہ حال کے اُس ملک کے بادشاہ کے بارے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں جس ملک کو اسلام کے نام پر وجود میں لایا گیا اور آج بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلاتا ہے ۔ اسلامی جمہوریہ سے یہ مراد ہے وہاں انداز حکومت اسلامی تعلیمات اور اسلامی حکمرانی کے اصولوں کے تحت چلایا جاتا ہے ۔ ہمارے ملک کے بادشاہ کو وزیر اعظم کہتے ہیں ۔

Wazir azaam pic

پچھلے دنوں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم نے گلگت کا ایک روزہ دورہ فرمایا ۔ دورے سے پہلے گلگت کی سڑکوں کی صفائی شروع ہوئی۔ صفائی صرف ان سڑکوں کی ہوئی جہاں سے محترم وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو گزر نا تھا ۔ صفائی کا بھی عجیب منظر تھا ۔ شہر کی تمام غلاظت گاڑیوں میں بھر بھر کر قراقرم یونیورسٹی کے آس پاس دریائے گلگت کے کنارے کھلے آسمان تلے ڈال دیا گیا۔( یاد رہے کہ قراقرم یونیورسٹی کے پاس غلاظت کی ایک بہت بڑی دنیا پہلے سے آباد ہے ہم تو خیر عادی ہو گئے ہیں کوئی مہم جو یا باہر کا کوئی مہمان گلگت کی طرف سے گزرنے والی ریور روڈ سے دریا ء کے اُس پار یعنی یونیورسٹی روڈ پرغلاظت کے ڈھیر کی طرف دیکھے تو شاید اپنی پوری زندگی میں گلگت کا نام نہ لے ) محترم وزیر اعظم نے یہاں کے لوگوں کے ساتھ ہزاروں وعدے کئے جن وعدوں میں وہ سب وعدے شامل ہیں جو کہ محترم وزیر اعظم اپنے ہر حکومتی دور میں کرتے رہے ہیں تاہم کچھ علاقوں کو ضلع کا درجہ دینا آنے والے الیکشن کے حوالے سے معنی خیز امر ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ وہ کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں کرتے میں صرف محترم وزیر اعظم ک آمد اور عوام کو پیش آنے والے مسائل کے حوالے سے اپنا چشم دید واقعہ آپ کے گوش گزار کر رہا ہوں۔ گلگت میں ایک بڑے مقامی ہوٹل کے آس پاس میری رہائش ہے ، شام کو کام سے فارغ ہو کر جب گھر آرہا تھا تومیرے راستے میں ہر بیس گز کے فاصلے پر ایک پولیس کھڑی نظر آئی ایک راہ گیر سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اسی ہوٹل میں کل وزیر اعظم صرف ایک پیالی چائے نوش فرمانے کے لئے تشریف لانے والے ہیں اور یہ سب کچھ اُس کی سکیورٹی ہے ۔اُسی لمحے میری نظر آس پاس کے مکانات کی چھتوں پر گئی تو لوگوں کی چھتوں پر فوجی دستے اپنی بندوقیں تان کے استادہ تھے اُن کے بیچ میں سے گزر کر اپنے گھر کو جاتے ہوئے مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں کوئی بہت بڑا مجرم ہوں جسے پولیس کے اور پاک آرمی کے نوجواں مشکوک نظرو ں سے دیکھ رہے ہیں۔ میں نے اپنا قومی شناختی کارڈ جیب سے نکال کر فوری طور پر ہاتھ میں تھما لیا لیکن اچھا ہوا کہ کسی نے وزیر اعظم کی چائے پینے کی جگہ کے آس پاس سے ایک دن قبل گزرنے پر وزیر اعظم کے لئے حفظ ما تقدم کے طور پر میری جامہ تلاشی نہ لی ورنہ مفت کی بدنامی ہو جاتی۔خیریت سے مگر چوروں کی طرح جب گھر پہنچا تو میرا بچہ اتنا خوش تھا کہ مسرت کے جذبات سے پھولا نہ سما سکا اور ایک ہی سانس میں بتا دیا کہ کل وزیر اعظم آرہا ہے اور اُن کا سکول بند رہیگا اور وہ صبح دیر تک سوئے گا ۔ بچے کو دیکھ کر مجھے میری اپنی ماضی کی خوشی یاد آئی ۔میں چوتھی جماعت کا سب سے کند ذہنطالب علم تھا آگے جماعت میں ترقی بالکل ناممکن تھی اللہ بھٹو صاحب کو ہمیشہ جنت فردس میں رکھے کہ اُس سال سب کو بغیر امتحانات کے پاس قراردینے کا سرکاری حکم صادر فرمایا اور میں بغیر کچھ پڑھے لکھے پانچویں جماعت پہنچ گیا ۔ بچے کی خوشی فطری تھی لیکن یہ اُسے معلوم نہیں تھا کہ اُسی ایک دن کی چھٹی کی وجہ سے وہ دنیا میں کتنے پیچھے رہ گیا ہے ۔میں جب صبح ڈیوٹی کے لئے نکلا تو میرے سامنے ایک عجیب دنیا بسی تھی، مجھے ایسا لگا کہ گلگت کے تمام لوگ پولیس اور فوج میں بھرتی ہوگئے ہیں ایک میں ہوں جو کہ سول کپڑے زیب تن کیے پاگلوں کی طرح جا رہا ہوں ۔ جس راستے سے مجھ جیسے لوگوں کے علاوہ سکول کے بچے چلتے تھے اُسی راستے پر فوجی دستے تعینات تھے اور جہاں نجی اور مسافر گاڑیاں کھڑی ہوتی تھیں وہاں جدید ہتھیاروں سے لیس بکتر بند گاڑیاں گھڑی تھیں۔ راہ چلتے سول لوگ خال خال نظر تو آ رہے تھے مگر فوجی منہ ٹیڑھا کر کے انہیں جلدی سے چل کر راستہ خالی کرنے کو کہتے تھے بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی جنگ کی تیاری ہو رہی ہے سب لوگ ذہنی کرب کا شکار نظر آرہے تھے یہ صورت حال دیکھ کر مجھے مولانا محمد حسین کا مضمون ’’ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا‘‘ لفط بہ لفظ یاد آرہا تھا ۔

Wazir azam 2

بہر حال میں کام کی طرف روانہ ہوا میرے کام کی جگہ شہر سے دور ہے اور میرے کچھ مہمان پچھلے دنوں آسلام آباد سے اکر میرے کام کی جگہ کے آس پاس ایک مقامی ہوٹل میں ٹھہرے تھے جہاں وزیر اعظم کی آمد کی لہروں کی ارتعاش بہت کم تھی ۔ بنیادی طور پر میرے یہ مہمان برطانیہ سے آئے تھے اور مجھے انہوں نے صبح نو بجے ملنے کا ٹائم دیا تھا ۔ میرے گھر اور کام کی جگہے کے درمیاں موٹر کار میں پندرہ منٹ کا فاصلہ ہے ۔ مجھے آج گھر سے پیدل ہی جانا پڑا اور وہ بھی چوری چھُپے۔ شہر کا منظر کچھ یوں تھا کہ گلگت کے تمام قصبوں کے تمام رابطہ سڑکوں کے آخری سروں پر بڑے بڑے ٹرک کھڑے کئے گئے تھے تاکہ محلے والے اپنی گاڑیوں کے ذریعے شہر میں داخل نہ ہوسکیں۔ میں ایک گھنٹہ پہلے گھر سے نکلا تھا اور مقرررہ وقت سے پندرہ منٹ تاخیر سے پہنچا ۔ میرے دو انگلستانی دوست پہلے سے میرے انتظار میں بیٹے ہوئے تھے ۔ میں نے بڑی معذرت کی اور ساری کہانی بتا دی ۔ ان لوگوں کو میری کہانی عجیب لگی ۔ اُن میں سے ایک نے بڑی لمبی سانس لی اور انگلستان اور مجھیکے وزیر اعظم 143David Cameron کی کہانی یوں سنائی ۔ کہ انگلستان کے وزیر اعظم اپنے دفتر کے لئے اکثر سائیکل کی سواری کرتے ہیں ایک دن دفتر جاتے ہوئے ایک جنرل اسٹور کیساتھ سائکل کھڑی کرکے کچھ لینے کیلئے اسٹور کے اندر گئے اور بدقسمتی سے اُس کی سائکل چوری ہو گئی ۔ ٹیلی وژن میں فوری خبر نشر ہوئی کہ وزیر اعظم کی سائکل چوری ہو گی۔ اتفاق سے چوری کرنے والا بھی یہ خبر دیکھ رہا تھا ، خبر دیکھ کے اُسے افسوس ہوا اور سائکل واپس لاکر اُسی جگہپر کھڑی کی اور اپنے اپ کو پولیس کے حوالہ کیا ۔

اس کہانی میں چوری کے واقعے سے قطع نظر ہم غور کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ دونوں وزرائے اعظموں میں سے کون عین اسلامی تعلیمات کے تحت حکمرانی کتا ہے ۔ مضمون بشکریہ: جی بی ووٹس

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button