کالمز

آہ سحر گاہی

صبح کی نماز پڑھنے کے بعد جب سب لوگ اٹھ کر چلے جاتے ہیں تو پھر میں پیشانی زمین پہ رکھتا ہوں، ارادہ دعا کا ہوتا ہے مگر میں کائنات کی وسعتوں میں کھو جاتا ہوں۔ میری سو چیں محدود ہیں۔ علم کچھ بھی نہیں۔ پھر بھی سو چتا ہوں ۔ دیکھتا ہوں کہ کسی

محمد جاوید حیات
محمد جاوید حیات

ستارے کی روشنی دُنیا کی پیدائش کے ساتھ اور اپنی پیدائش کے ساتھ دنیا کی طرف روانہ ہوتی ہے اورا بھی بھی راستے میں ہے۔ سفر جاری ہے، سوچتا ہوں سورج دیوتا میں کئی کروڑوں ٹن ہیلیم گیس جل رہی ہے، دھماکے ہو رہے ہیں۔ سوچتا ہوں کا ئنات مسلسل پھیل رہی ہے، کہکشان بن رہے ہیں، شہاب ثاقب پھٹ رہے ہیں۔ سوچتا ہوں زمین کے اندر لاوے اُٹھ رہے ہیں۔ سوچتا ہوں اکسیجن اور ہائیڈورجن کے ایٹم مل رہے ہیں اور پانی کا مالیکیول بن رہے ہیں ۔ سوچتا ہوں سمندر لہریں اُٹھا رہے ہیں۔ پہاڑ جیسی لہریں ساحلوں سے ٹکڑا کر چیختی ہیں۔ کہتی ہیں اللہ ایک ہے، اللہ بڑا ہے۔

سوچتا ہوں 18 ہزار مخلوقات کے لئے دسترخواں بچھایا گیا ہے۔ چیونٹی کے لئے ایک دانہ، ویل مچھلی کے لئے 11 ٹن گوشت کا بندوبست ہوچکا ہے۔ سوچتا ہوں پھول کھل رہے ہیں، بھنورے رس لینے اڑ رہے ہیں۔ سوچتا ہوں شہد کی مکھیاں جھتے بنا رہے ہیں، شہد بن رہا ہے ۔ سوچتا ہوں زبر دست قوت والا اللہ اپنی رحمت کائنات کی طرف پھیلارہا ہے، کام میں لگا ہوا ہے ۔ تخلیق کا کام ہو رہا ہے۔ فنا ہورہے ہیں۔ مناظر بدلتے ہیں۔ زندگی کی بوقلمو نیاں جارہی ہیں ۔ کوئی کراہ رہا ہے، صبر کا امتحان ہے۔ کوئی افسردہ ہے، صبر کا امتحان ہے۔ مسائلستان میں مسائل ہیں اورکوئی موج مستی میں ہے ۔ مستی کی آزمائش ہے ۔ کوئی بھولا ہوا ہے، یاد کرنے کی دیر ہے ۔ کسی کے پاس کچھ نہیں مگر شاکرو قانع ہے۔ کسی کے پاس سب کچھ ہے مگر ناشکر ہے۔ بے صبر ہے کوئی اس کو چھوڑکر دنیا کے پیچھے دوڑ رہا ہے ۔ وہ تماشا دیکھ رہا ہے ۔ کوئی دنیا چھوڑ کر اس کا ہو گیا ہے ۔ اس کو اپنی آغوش رحمت میں لے چکا ہے ۔ سب کی ساری ضروریات جانتا ہے۔ سب کے آنے والے لمحے اُس کے سامنے ہیں۔ ساری کائنات اُس کے ایک اشارے کے منتظر ہے۔ ساری کائنات اس کی حمد وثنا میں مصروف ہے۔ اُسکی رحمتیں بے شمار ہیں، اس کی نعمتیں بے شمار ہیں۔ خدانخواستہ ایک نعمت واپس لے لے رحمت کی نظر میں ایک سیکنڈ کے لئے دیر ہو تو تباہی ہے۔ اس کا نام باقی ہے۔ اس کا کام جاری ہے ۔۔ سوچتا ہوں۔ میری آنکھیں روشن ہیں ۔ زبان بولتی ہے۔ دل دھڑک رہا ہے،بدن تندرست ہے۔ سوچتا ہوں گھر میں خیریتی ہے، دوست اخباب پر سکوں ہیں ۔ سوچتا ہوں بچے ہیں۔ اپنی حیثیت کے مطابق روزگارہے ۔اپنی حیثیت میں معاشرے میں نام، کام اورمقام ہے۔۔ سوچتا ہوں کہ اس کو مانتا ہوں۔ اس کے سامنے اس کی زمین پہ پیشانی رکھی ہے۔ سوچتا ہوں اب اس سے کیا مانگوں۔ بہت سوچتاہوں کیا مانگوں۔ فیصلہ کرتا ہوں، خود اس کو مانگوں ۔ اس کی محبت اور اس کی رضا کو مانگوں۔ وہ خوش ہو کر اپنی رحمت کے سائے میں لے لے۔ دل اس کا ہو، روح اس کی ہواور سوچیں اس کی ہوں،خیال اس کا ہو ۔ زبان پہ آیا ہوا لفظ لفظ اس کا ہو ۔ آرزو اس کی ہو۔ منزل وہ ہو ۔۔موت وحیات میں فاصلہ ہی کہاں ہے ۔ اگر ہے یہ فاصلہ بھی اس کا ہو ۔۔۔زبان ہلتی ہے ۔۔۔اے ہمارے رب! دے دے ہمیں دنیا میں اچھائیاں اور آخرت میں بھی اچھائیاں اور ہمیں آگ کے غذاب سے بچا ۔۔۔پھر میں آگے کچھ نہیں بول سکتا ۔ دیر تک یہی دھراتا جاتا ہوں ۔۔۔دنیا بھی حسین بنادے آخرت بھی ۔۔۔پھر لرزنے لگتا ہوں ۔کیونکہ آواز آتی ہے ۔۔۔اگرتم اپنے پروردگار کی نعمتوں کو شمار کرنے لگوتو شمار نہیں کر سکو گے ۔۔۔پھر آواز آتی ہے تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے ۔۔۔۔پھر میں چیختا ہوں اے میرے پروردگار میری دنیا بھی حسین بنا اور میری آخرت بھی ۔۔۔اور ہاں اے میرے پروردگار میری پاک سرزمین کو ہر آفت سے بچا میری ہچکی بند ہوتی ہے اور اللہ کی زمین مجھ گہنگار کے آنسوؤ ں سے تر ہوتی ہے۔کیونکہ اتنا بڑا خدا اور میں گناہوں کا پتلا اس کی شان اور میری حیثیت ۔۔۔مگر میرا رب جو دے گا اپنی شان کے مطابق دے گا میری حیثیت کے مطابق تھوڑی دے گا ۔۔۔۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button