کالمز

ہنزہ کی لوک داستان ۔۔۔۔۔۔ شہزادہ بہرام اور شھر بانو

محمدذاکرخان ہنزئی

پرانے وقتوں میں شہزادہ بہرام نامی ایک بادشاہ گذرا ہے۔وہ بہت خوبصورت ،نیک سیرت، رحم دل اور منصف المزاج حکمران تھا۔ اس کے دور میں عوام کو امن ، عافیت اور خوشحالی میسر تھی۔لیکن ایک بات بہت عجیب تھی کہ بادشاہ کبھی اپنے محل سے باہر نہیں نکلتا تھا اور کسی نے کبھی اسکی صورت نہیں دیکھی تھی۔ملک کے تمام حکومتی امور اسکا وزیر سر انجام دیا کرتا تھا۔اسکی رعایاکے علاوہ قرب و جوار میں رہنے والے جنات بھی اسکی صورت دیکھنے کو ترسے ہوئے تھے۔

ایک دیو جس کا نام سفید دیو تھا کو بھی بادشاہ کو دیکھنے کا بہت شوق تھا اور وہ دن رات بادشاہ کو دیکھنے کی ترکیبیں سوچتا رہتا ۔ایک دن دل میں یہ ٹھان کر کہ بادشاہ کو دیکھ کر رہونگا وہ محل کی طرف چل پڑا اور دروازے پر کر پہنچ کر ملازمت کی درخواست کی۔ اسے خدمتگاروں میں رکھ لیا گیا۔کافی عرصہ گذر گیا لیکن بادشاہ کی شکل نظر نہ آئی۔بادشاہ کے ذاتی محلات میں رسائی کی کو ئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔اس نے مشاہدہ کیا کہ بادشاہ کے پاس صرف اسکا وزیر بلا روک ٹوک جا سکتا تھا۔ 

ایک دن اسے سوجھی کہ کیوں نہ وزیر کی کھال میں گھس کر اندر داخل ہوا جائے۔چنانچہ اگلے دن وزیر جب بادشاہ کو سلام کرنے کی غرض سے آیا تو وہ اس کی کھال میں داخل ہو گیا۔ بادشاہ کے خاص کمرے کے دروازے پر پہنچا تو خدام نے با آواز بلند وزیر کی آمد کی اطلاع دی۔ اجازت ملنے پروزیر کمرے میں داخل ہوا اور بادشاہ کو سلام کرکے اپنی مخصوص نشست پر جا بیٹھا۔بادشاہ اور وزیر امور سلطنت پر گفتگو کرتے رہے۔ باتوں باتوں میں وزیر نے عرض کی بادشاہ سلامت رعایا آپ کو ایک نظر دیکھنے کی بے حد متمنی ہے۔بہت سے لوگ تو آپ کو دیکھنے کی حسرت دل میں لئے اس جہان سے رخصت ہو چکے ہیں۔آپ اپنی رعایا کی یہ آرزو پوری فرما دیجئے۔بادشاہ نے کہا مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ میری رعایا مجھے اس قدر چاہتی ہے۔ کل صبح ہم شکار کے لئے نکلیں گے اور ہمارے ساتھ تمام امراء اور خاص ملازمین بھی ہمرکاب ہونگے۔ وزیر باہر نکلا تو بادشاہ کا حکم تمام متعلقہ لوگوں تک اس تاکید کے ساتھ پہنچا دیا کہ صبح وقت مقررہ پر سب لوگ تیار رہیں۔

سفید دیو وزیر کی کھال سے نکل کر شکار گاہ کی طرف چل پڑا۔وہاں پہنچ کر اس نے اپنے آپ کو ایک نہایت خوبصورت سفید گھوڑے کے روپ میں ڈھال لیاجس پر سنہری زین کسی ہوئی تھی اور اسکی باگیں بھی سنہری تھیں۔سفید دیو نے رات اسی شکل میں وہیں گذاردی۔

اگلی صبح بادشاہ پورے تام جھام کے ساتھ اپنے محل سے نکلا۔راستے کے دونوں طرف رعایا بیتاب نظروں سے اپنے بادشاہ کو ایک نظر دیکھنے کیلئے قطار اندر قطار کھڑی تھی۔بادشاہ لوگوں کے نعروں کا جواب دیتا ہوا اپنے مصاحبوں کے جلو میں شکار گاہ کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

بادشاہ کے آگے آگے چلنے والے مددگار شکاری جب شکارگاہ کے قریب پہنچے تو سنہری زین اور سنہرے لگاموں والے خوبصورت سفید کو وہاں 

دیکھ کر دوڑے دوڑے بادشاہ کے پاس واپس آ گئے اور اس پر اسرار گھوڑے کے بارے میں بتایا۔بادشاہ بھی اشتیاق میں گھوڑے کو ایڑھ لگا کر وہاں جا پہنچا۔اس نے اپنے وزیر سے کہا کہ جاؤ اس گھوڑے کی سواری کرکے دکھاؤ۔ وزیر نے عرض کیا حضور یہ گھوڑا آپ کے شایان شان ہے اور صرف آپ ہی کی سواری کیلئے تخلیق کیا گیا ہے۔ بادشاہ اپنے گھوڑے سے اتر ا اور بسم اﷲ پڑھ کر سفید گھوڑے پر سوار ہو گیا۔بادشاہ اپنے وزیر اور مصاحبوں کو واپسی کا حکم دے کر مڑ گیا۔ بادشاہ نے جب محسوس کیا کہ اس کی رانوں تلے ایک شاندار سواری ہے تو اسے ایڑھ لگا دی۔ گھوڑا اتنا تیز رفتار تھا کہ اس نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔پیچھے آنیوالے اس کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکے۔

ایک جگہ پہنچ کر گھوڑا اپنی اصلی یعنی سفید دیو کی شکل میں آ گیا اور بادشاہ کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر آسمان کی طرف اڑ گیا۔ایک بہت خوبصورت مکان میں پہنچ کر دیو نے شہزادہ بہرام کو کندھے سے اتارا۔ عزت کے ساتھ ایک عالیشان مسند پر بٹھایا اور سلام کر کے عرض کیا۔ شہزادہ بہرام آج میرے دماغ کی الجھن رفع ہو گئی۔ میری دلی آرزو پوری ہوئی اور میں نے آپ کو دیکھ لیا۔ اب میں چاہتا ہوں آپ میرا بیٹا بن کر یہیں رہیں۔آج سے آپ میری تمام دولت کے مالک ہیں۔شہزادہ دیو کے آگے بے بس تھااس لئے خاموشی سے اس کی ہر بات مان لی۔شہزادہ بہرام اب سفید دیو کی تحویل میں تھا۔ وہ روزانہ سلام کرنے شہزادہ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔اس سے نہایت محبت،شفقت اور عزت سے پیش آتا۔کئی پریوں کو اس کی خدمت پر مامور کر رکھا تھا۔

ادھر جب بادشاہ اپنے محل واپس نہ پہنچا اور کئی روز گزر گئے تو امرائے دربار نے رو پیٹ کر وزیر کو اپنا بادشاہ چن لیا اور عنان حکومت اس کے ہاتھوں میں سونپ دی۔

دن یونہی گزرتے رہے۔ شہزادہ بہرا م اور سفید دیو کے معمولات وہی تھے۔ دیو کا روزانہ صبح سلام کیلئے حاضر ہونا۔شہزادہ بہرام کا پریوں کے ساتھ سیر کیلئے نکلنااور واپس اپنے کمرے میں لوٹ آنا۔ایک دن سفید دیو کو اپنے بھائی کی طرف سے اس کے بیٹے کی شادی میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔ وہ بہرام شہزادہ کی خدمت میں حاضر ہو کر بولا کہ وہ کچھ دنوں کیلئے اپنے بھتیجے کی شادی میں شریک ہونے جا رہا ہے۔میرے واپس آنے تک آپ آرام سے یہاں رہیں۔آپ کی خدمت کیلئے پریاں موجود ہیں ۔وہ آپ کا پورا خیال رکھیں گی۔ پریوں سے کہا کہ شہزادہ بہرام کی خاطر مدارات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں۔ اسے شکایت کا موقع نہ دیں۔ اس کی حکم عدولی نہ کریں۔واپسی پر اگر میں نے کوئی شکایت سنی تو تم سب کو نیست و نابود کر دونگا۔اور ایک بات کا خیال رکھنا کہ جس باغ کا دروازہ بند ہے اسے کبھی نہ کھولنا۔

اگلے روز شہزادہ بہرام پریوں کے ساتھ گھومتا ہوا جب بند دروازے والے باغ تک پہنچاتو پریوں کو اسکا دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔پریوں نے کہا کہ ہمیں یہ دروازہ کھولنے کا حکم نہیں ہے۔شہزادہ بہرام نے بہت اصرار کیا لیکن وہ نہیں مانیں۔

وہ باغ سفید دیو نے ایک نہایت حسین و جمیل پری شہر بانو کیلئے بنایا تھا۔شہر بانو اس باغ میں ایک طرح سے قید تھی۔دیو اس کی محبت میں گرفتار تھااوراس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔لیکن شہر بانودیو کو پسند نہیں کرتی تھی۔وہ کسی طرح بھی اس شادی کیلئے رضا مند نہیں تھی۔ اس بات سے دیو سخت ناخوش اور نالاں تھا۔

شہزادہ بہرام نے اگلے روز پھر ممنوعہ دروازہ کھولنے کی ضد کی۔ اس نے پریوں سے کہا کہ اگر آج تم نے دروازہ نہ کھولا تو میں اپنی جان لے لونگا۔ پریاں یہ سوچ کر ڈر گئیں کہ اگر یہ مرگیا تو سفید دیو ہمیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔چنانچہ انہوں نے باغ کادروازہ کھول دیا۔

شہزادہ بہرام جب باغ میں داخل ہوا تو اسکی خوبصورتی دیکھ کر ششدر رہ گیا۔باغ کیا تھا جنت کا ٹکڑا تھا۔باغ کے وسط میں دودھ سے بھرا ایک تالاب تھا جس کے کناروں پر سائبان والے پلنگ بچھے ہوئے تھے۔ ایک بید کا درخت تھا جس سے آنسوؤں کی طرح خوشبودار پانی نکل کر تالاب کو معطر کر رہا تھا۔شہزادہ بہرام گھوم گھام کر اپنے کمرے میں واپس آ گیا۔

اگلی صبح شہزادہ بہرام پھر اس باغ میں چلا گیا ۔تالاب کے قریب ایک جھاڑی میں گڑھا کھود کراس میں چھپ گیا۔کچھ دیر بعد اس نے دیکھا کہ سات کبوترآکر بید کے درخت پر بیٹھ گئے۔تھوڑا سستا لئے تو اس میں سے ایک بولا آؤ شہر بانو کی آمد سے پہلے تالاب میں ڈبکی لگالیں۔یہ کبوتر اصل میں پریاں تھیں اور شہر بانو کی خدمت پر مامور تھیں۔تالاب میں ڈبکی لگا کر وہ ساتوں اڑ گئیں اور کچھ ہی دیر بعد شہر بانو کو اپنے جھرمٹ میں لا کر تالاب کے کنارے ایک پلنگ پر بٹھا دیا۔شہربانونے آتے ہی آدم بو آدم بو چلانا شروع کردیا اور حکم دیا کہ کوئی آدم زاد باغ میں گھس آیا ہے فوراًاسے ڈھونڈھ کر لاؤ۔پریوں نے بہت تلاش کیا لیکن کوئی نہ ملا۔

شہر بانو نے کپڑے اتار کر کنارے پر بنے ہوئے پلنگ پر رکھ دئے اور دودھ کے تالاب میں اتر گئی۔اسکی خدمت گار پریاں اس کی حفاظت کیلئے کنارے پر بیٹھ گئیں۔شہر بانو کا ملکوتی حسن دیکھ کر شہزادہ بہرام اسکی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا۔اب وہ اسے حاصل کرنے کا خواہاں تھا۔

اس نے گائے کے گوبر سے بنے اپلوں کو جلایااور شہر بانو کے کپڑے اٹھا کر انہیں دھونی دینے لگا۔باقی کی پریاں یہ دیکھ کر غائب ہو گئیں اور شہر بانو اپنی برہنگی کی وجہ سے تالاب میں رہ گئی۔ اس نے تالاب کے اندر سے منت سماجت کرتے ہوئے کہا تم جو بھی ہو میرا لباس مجھے واپس کر دو۔شہزادہ بہرام نے کوئی جواب نہیں دیا۔شہر بانو نے گڑگڑاتے ہوئے کہا اے میرے باپ کپڑے مجھے دے دو۔جواب ملا میں تمہارا باپ نہیں ہوں۔پری نے کہا اے میرے بھائی کپڑے واپس دے دو۔جواب ملا میں تمہارے باپ کا بیٹا نہیں ہوں۔شہر بانو نے منت کی اے میرے ماموں کپڑے پھینک دو۔ شہزادہ بہرام بولا میں تمہاری ماں کا بھائی نہیں ہوں۔آخر کار پری بولی اے میرے شوہر یہ کپڑے مجھے دے دو۔ اس پر شہزادہ بہرام نے دھونی لگے ہوئے کپڑے اس کی طرف اچھال دئے۔پری نے کپڑے پہن لئے لیکن کپڑوں میں اپلوں کی دھونی دئے جانیکی وجہ سے اسکی اڑنے کی طاقت ختم ہو گئی تھی۔شہزادہ بہرام نے اسکا ہاتھ تھاما اور اسے اپنے گھر لے آیا۔ایک سجی ہوئی خوبصورت مسند پر اسے بٹھایا اور خود بھی اسکے ساتھ بیٹھ گیا۔دونوں کی نظریں ٹکرائیں اور وہ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔

ادھر سفید دیو اپنے بھتیجے کی شادی میں شرکت کے بعد واپس آگیا اور شہزادہ بہرام کو سلام کرنے چلا گیا۔دیو کی آواز سن کر دونوں بہت گھبرائے۔ شہزادہ بہرام نے ڈر کر شہر بانو کو چھپا لیا۔ دیو نے اسے سلام کیا اور گلے سے لگا لیا۔مزاج پرسی کے بعد دیو واپس چلا گیا۔شہزادہ بہرام بہت خوفزدہ تھا۔لیکن اپنا خوف دیو پر ظاہر نہ ہونے دیا۔اس روز سفید دیو کو حقیقت حال سے آگاہی نہ ہوئی۔

اگلے روز جب دیو حاضر ہوا اور شہزادہ بہرام کو خاموش اور افسردہ پایاتو پوچھا تم اتنے پریشان کیوں ہو۔شہزادہ بہرام نے ڈرتے ڈرتے اس سے تمام واقعہ بیان کیا کہ کس طرح اس نے پریوں کو ڈرا کر ممنوعہ باغ کا دروازہ کھلوایا ، کس طرح اس نے شہر بانو کو دیکھا اور اس کی محبت میں گرفتار ہوا، کس طرح اس کے کپڑوں کو اپلوں کی دھونی دیکر ناپاک کیا اور کس طرح اسے اپنے ساتھ لے آیا۔اب میں ڈرتا ہوں کہ یہ سب جان کرکہیں تم ناراض نہ ہو جاؤ اور مجھے کھا نہ لو۔

سفید دیو کو غصہ تو بہت آیا کیونکہ وہ خود بھی شہر بانو کو چاہتا تھا۔اس کی دلجوئی کے لئے اس نے وہ شاندار باغ بنوایا تھا۔لیکن شہزادہ بہرام کو بیٹا بنا چکا تھا اسلئے وہ بھی اسے بڑا عزیز تھا۔اس نے کہا کوئی بات نہیں میں نے تمہیں معاف کیا۔ تم شہر بانو کو لے آؤ۔شہزادہ بہرام اندر جاکر شہر بانو کا ہاتھ تھامے اسے لے آیا۔سفید دیو نے وہیں نکاح پڑھ کر دونوں کو رشتہ ازدواج میں منسلک کر دیااور کہا تم تومیرے بیٹے ہو ہی آج سے یہ بھی میری بیٹی ہے۔ تم دونوں یہاں امن اور سکون کے ساتھ رہو۔ اب تک میں روزانہ سلام کرنے حاضر ہوتا تھا آج کے بعد تم دونوں مجھے سلام کرنے آؤ گے۔میں شہر بانو سے شادی کا خواہاں ضرور تھا لیکن اب وہ میری بہو بیٹی ہے۔ دونوں میاں بیوی ہنسی خوشی رہنے لگے۔ اور روزانہ با قاعدگی سے سفید دیو کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔

دن گذرتے رہے۔ کافی عرصہ بیت گیا۔ایک روز شہزادہ بہرام نے ایک بھیانک خواب دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ کہ اس کے ملک میں عنان حکومت ایک شہنائی بجانے والے میراثی کے ہاتھوں میں آ چکی ہے جو اس کی بیوی اور بچوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔اسکی ملکہ کو پانی بھرنے پر لگا رکھا ہے اور بیٹے خدمتگاروں میں کام کر رہے ہیں۔وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور لگا زور زور سے چلانے اور گریہ و زاری کرنے۔شہر بانو دوڑی دوڑی اس کے پاس گئی اور پوچھا کیا ہو گیا ہے۔اس نے اپنا خواب سنایا تو شہر بانو نے کہا کہ اگر تمہیں اپنا گھر یاد آ رہا ہے اور تم وہاں جانا چاہتے ہو تو سفید دیو سے اجازت لیکر چلے جاؤ۔وہ تمہیں جانے سے منع نہیں کرے گا۔دونوں نے سفید دیو کی خدمت میں حاضر ہو کر ماجرا بیان کیااور زمین پر جانے کی اجازت طلب کی جو فوراًمل گئی۔

شہزادہ بہرام نے کہا کہ وہ واپسی کا راستہ نہیں جانتا۔آپ رہنمائی فرمائیں۔دیو نے کہا تم شہر بانو کو ساتھ لے جاؤ وہ تمام راستوں سے بخوبی واقف ہے۔شہر بانو نے شہزادہ بہرام سے کہا کہ جانے سے پہلے اس سے وعدہ لو کہ وہ مشکل میں ہماری مدد کریگا اور یہ کہ اپنی کوئی ایسی نشانی دیدے جو مصیبت میں اسے بلانے کے کام آ سکے۔دیو نے اپنا ایک بال اسے دیا اور کہا جب میری ضرورت ہو تو اسے آگ دکھا دینا میں حاضر ہو جاؤنگا۔

شہزادہ بہرام اور شہر بانو واپسی کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ سفید دیو نے اپنی بہت ساری دولت بھی ہمراہ کردی۔ایک گھنٹے کے بعد وہ ملک کی سرحد پر پہنچ گئے۔عین سرحد پر انہیں ایک چھوٹا سا مکان نظر آیا۔انہوں نے سوچا یہاں کچھ دیر کیلئے رک جائیں۔ دروازے پر دستک دی تو ایک بوڑھا آدمی باہر نکلااور دیکھا کہ ایک خوبصورت جوڑا باہر کھڑا تھا۔ بوڑھا بابا بہت خوش ہوااور دونوں کو گھر کے اندر لے گیا۔اندر پہنچ کر جب اس نے شہزادہ بہرام کو پہچان لیا تو خوشی سے ر و نے لگا کیونکہ وہ شہزادہ بہرام کا اتالیق تھا اور اس نے بچپن میں اسے اپنی گود میں کھلایاتھا۔وہ اس گھر میں اکیلا رہتا تھا ۔ اسکی نہ کوئی اولاد تھی اور نہ بیوی۔اس نے اصرار کیا کہ دونوں میاں بیوی کچھ دن اسکے ساتھ گزاریں۔شہزادہ بہرام اپنے اتالیق کا دل رکھنے کیلئے مان گیا اور کچھ دن ٹھہرنے کے ارادے سے وہاں رک گیا۔وقت گزاری کیلئے وہ روزانہ شکار کیلئے نکل جاتا۔

ایک روز ملک کا وہی حکمران جسے شاہزادہ بہرام کی جگہ بادشاہ مقرر کیا گیا تھا شکار کے لئے ادھر آنکلا۔جب وہ بوڑھے کے مکان کے قریب سے گزرا تو اس کی نظر کھڑکی میں بیٹھی شہر بانو پر پڑ گئی جس کے حسن نے اس کی آنکھوں کو خیرہ کر کے رکھ دیا۔وہ دیکھتے ہی اس کا دیوانہ ہو گیا اور اسے حاصل کرنے کی ٹھان لی۔گھوڑے سے اتر کر اس نے اپنے دو پیادوں کو حکم دیا کہ گھر کے اندر جاؤ اور وہاں جو عورت ہے اس سے کہو کہ ملک کا بادشاہ تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔دونوں پیادے جب گھر میں داخل ہوئے تو شہر بانو کی خوبصورتی دیکھ کر بیہوش ہو گئے۔کافی دیر تک جب وہ باہر نہیں آئے تو اس نے شادی کے پیغام کے ساتھ دو او رپیادے اندر بھیج دئے۔پیادوں نے بادشاہ کا پیغام شہر بانو کو پہنچایا تو اس نے جواب دیا میں شادی شدہ ہوں تمہارے بادشاہ سے شادی نہیں کر سکتی۔بادشاہ کو جب یہ جواب ملا تواس نے حکم دیا کہ اسے زبردستی اٹھا لاؤ۔پیادوں نے شہر بانو کو جاکر بادشاہ کا حکم سنایاتو اس نے کہاکہ میں کپڑے بدل کر تمہارے ساتھ جاؤنگی۔میرے کپڑے جس بکس میں ہیں اسکی چابی میرے شوہر کے پاس ہے جو شکار کھیلنے گیا ہوا ہے۔اس کے آنے کا انتظار کرنا ہوگا۔ بادشاہ کو جب یہ بات بتائی گئی تو اس نے بکس کا تالا توڑ ڈالنے کا حکم دے دیا۔پیادے تالا توڑنے لگے تو شہر بانو نے کہا کہ چابی مجھے مل گئی ہے۔تم کمرے کے باہر انتظار کرو میں کپڑے بدل کر آتی ہوں۔شہر بانو نے کمرہ بھیڑا اور بکس میں سے اپنا جادوئی لباس نکال کر پہن لیا۔لباس پہن کر وہ اڑ کر چھت پر چلی گئی۔وہاں سے اس نے بوڑھے بابا کو پکار کر کہا کہ شہنائی بجانے والا یہاں پہنچ گیا ہے اور مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے تاکہ مجھ سے شادی کرسکے۔شہزادہ بہرام کو بتا دینا کہ میں شہرشاسکن جا رہی ہوں۔یہ کہ کر اس نے مٹی کی مٹھی بھر کر بادشاہ کی طرف پھینکی اور آسمان کی طرف پرواز کر گئی۔

بوڑھے اتالیق نے شہر بانو کا پیغام سن لیا اور شہزادہ بہرام کو بتانے کیلئے شکارگاہ پہنچ گیا۔اس نے اسے بتایا کہ شہر بانو میراثی بادشاہ کے خوف سے شہر شاسکن چلی گئی ہے۔بادشاہ اس سے زبردستی شادی کرنے کیلئے اسے اٹھا لے جانا چاہتا تھا۔ اب بادشاہ اپنی فوج لیکر تمہارے پیچھے آرہا ہے۔یہ سن کر شہزادہ بہرام نے آگ جلائی اور سفید دیو کا دیا ہوا بال اس میں پھینک دیا۔دیو فوراًحاضر ہو گیا۔ شہزادہ بہرام کی بات سن کر اس نے کہا بادشاہ کے لشکر کی طرف منہ کرکے کہو کہ تم میں سے جو میرا ساتھ دیں گے ایک طرف ہو جائیں۔دو ایک کو چھوڑ کر تمام لشکری ایک طرف ہو گئے۔سفید دیو نے باقی سب کو کھا لیا اور شہزادہ سے پوچھا اب کیا کرنا ہے۔

شہزادہ بہرام نے اپنے بچپن کے اتالیق بوڑھے بابا کو قائم مقام بادشاہ مقرر کر کے محل میں پہنچا دیا۔رعایا کو نصیحت کی کہ میرے واپس آنے تک بوڑھے بابا تمہارے حکمران ہیں ۔ ان کی اطاعت تم پر فرض ہے۔میں اپنی بیوی شہر بانو کو لینے شہر شاسکن جا رہا ہوں۔یہاں سے فارغ ہو کر وہ سفید دیو کے پاس پہنچا اور کہا مجھے شہر شاسکن کا راستہ بتاؤ۔سفید دیو نے اپنے تمام ماتحتوں کو بلوا لیا اور پوچھا تم میں سے شہر شاسکن کا راستہ کون جانتا ہے۔سب نے انکار میں سر ہلا دیا البتہ ایک نے کہا کہ میں ایک ضعیف العمر دیو کے بارے میں جانتا ہوں جو شہر شاسکن ہو کر آیا ہے اور فلاں فلاں جگہ رہتا ہے۔سفید دیو کے حکم پر اس کے ماتحت دیو پلک جھپکتے میں بوڑھے دیو کو اٹھا لائے۔پوچھنے پر بوڑھے دیو نے سامنے برف سے ڈھکی پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ شہر شاسکن ان پہاڑوں کے عقب میں واقع کوہ قاف کا شہر ہے۔میں ایک دفعہ اپنے والد کے ساتھ بکریاں چرانے وہاں جا چکا ہوں۔

سفید دیو نے اپنے چند ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ شہزادہ بہرام کو وہاں پہنچا دیں۔جانے سے پہلے سفید دیو نے شہزادہ کو ایک طلسمی چھڑی، اس کے ایک بھائی نے طلسمی ٹوپی اور دوسرے نے طلسمی جوتے دئے اور بتایا کہ ٹوپی پہن لینے سے اسے کوئی نہیں دیکھ پائیگا،چھڑی سے وہ اپنے دشمنوں کا چاہے وہ تعداد میں جتنے زیادہ ہوں مقابلہ کرسکے گا اور جوتا پہن کر وہ ہوا میں تیرتا ہوا تیزی کے ساتھ ادھر ادھر جدھر چاہے حرکت کر سکے گا۔شہزادہ سب کا شکریہ ادا کرکے ساتھ کئے گئے دیووں کے ساتھ اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔

ایک جگہ انہیں ایک جوان لڑکا اور لڑکی بکریاں چراتے ہوئے نظر آئے۔شہزادہ بہرام نے وہاں رکنے کا اشارہ کیا۔شہزادہ بہرام نے طلسمی ٹوپی پہنی اور انکے قریب بیٹھ گیا تاکہ ان کی باتیں سن سکے۔لڑکے نے ساتھ لایا ہوا کھانا کھول کر سامنے رکھا اور لڑکی کو کھانے کیلئے کہا۔لڑکی نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ آج مجھے بھوک نہیں ہے۔لڑکے نے سبب پوچھا تو لڑکی نے بتایا کہ کوئی بادشاہ میری بہن شہر بانو کا رشتہ لیکر آیا ہے۔میری بہن نے اپنے ماں باپ کی حکم عدولی کرتے ہوئے شادی سے انکار کر دیا ہے کیونکہ اس کی شادی زمین کے کسی دوسرے آدم زاد بادشاہ شہزادہ بہرام سے ہ و چکی ہے۔

شہزادہ بہرام جان گیا کہ وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ گیا ہے۔اس نے لڑکی لڑکے کا کھانا کھا لیا۔اس پر وہ دونوں ایک دوسرے سے جھگڑنے لگے کہ سارا کھانااکیلے کیوں کھالیا۔پھر بھیڑ بکریوں کو ہانک کر واپسی کی تیاری کرنے لگے۔شہزادہ نے اپنے ساتھی دیووں کو رخصت کیا اور خود ان بکریاں چرانے والوں کے پیچھے ہو لیا۔جلد ہی وہ بادشاہ کے محل پہنچ گئے۔

محل کے دروازے پر پہنچ کر لڑکا جانوروں کو لیکر ان کے باڑے کی طرف چلا گیا اور لڑکی محل میں داخل ہو گئی۔شہزادہ بہرام اس کے پیچھے چل پڑا۔کچھ آگے جاکر اس نے دیکھا کہ شہر بانو شاید اپنی ماں کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی ہے۔ شہر بانو کہ رہی ہے کہ میں شہزادہ بہرام کی بیوی ہوں اسلئے کسی اور سے شادی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔دنیا میں شہزادہ بہرام سا کوئی اور نہیں ہے۔ماں نے کہا تو پھر وہ تمہیں لینے کیوں نہیں آجاتا۔یہ سن کر شہزادہ نے اپنی ٹوپی سر سے تھوڑی سی کھسکائی اور اسکا چمکتا چہرہ نظر آنے لگا۔ شہر بانو نے شہزادہ بہرام کہ کر ایک چیخ ماری اور بیہوش ہو گئی۔جب ہوش میں لاگئی تو اپنے شوہر کو اپنے سامنے کھڑا پایا۔ماں بیٹی اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ ماں نے کہا تم شہر بانو کو لیکر فوراً نکل جاؤ ورنہ دونوں مارے جاؤگے۔شہزادہ بہرام نے جواب دیا میں بھاگ جانے والوں میں سے نہیں ہوں۔میں اس طرح چھپ کر نہیں جاؤنگا بلکہ اپنے دشمنوں سے مقابلہ کرونگا اور انہیں شکست فاش دیکر شہر بانو کو لے جاؤنگا۔

شہر بانو کے خدام نے اسے کھانا پیش کیا۔کھانا کھا کر اس نے طلسمی ٹوپی سر پر اوڑھی، پاؤں میں طلسمی جوتے پہنے اور ہاتھ میں طلسمی چھڑی پکڑ کر شہر بانو کے امیدوار بادشاہ کے لشکر میں گھس گیااور نظر آئے بغیر طوفان کی طرح ان پر ٹوٹ پڑا۔چونکہ وہ دکھائی نہیں دے رہا تھا اس لئے لشکری آپس میں بھڑ گئے اور ایک دوسرے کو مار نے لگے۔شہزادہ بہرام انہیں شکست دے کر کامیاب و کامران محل واپس لوٹ آیا۔ 

شہر بانو کاباپ بھی اس کی بہادری سے بہت خوش ہوا۔

بادشاہ اور ملکہ کے اصرار پر شہزادہ اور شہر بانو نے کچھ دن وہاں رک کر اجازت چاہی۔ بادشاہ نے بہت سے تحفے تحائف اور دولت دے کر اپنی بیٹی اور داماد کو رخصت کیا۔دونوں جب اپنے ملک پہنچے تو رعایا نے پورے جوش و خروش کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔شہزادہ بہرام نے بوڑھے بابا کو اپنا وزیر مقرر کر لیا۔ ملک میں ہر طرف امن و امان اور خوشحالی کا دور دورہ ہو گیا اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button