کالمز

چھشی واقعہ، پولیس، عوام اور نالہ جات

تحریر: ممتاز گو ہر

میں جب گزشتہ دو تین دہایوں سے غذر کے مختلف نالہ جات میں آئے روز ہونے والے قتل، اقدام قتل، چوری، ڈکیتی، جابرانہ قبضے و دیگر واقعات کی تفصیلات میں جاتا ہوں تو میرے ذہن میں بہت ساری سوالات گردش کر رہی ہوتی ہیں،غذر پولیس کے ذمہ دار ذرائع کے مطابق ہر سال یہاں نالوں میں چھ سے سات اوسطا ٰایسی ہی وارداتوں کے مقدمات درج ہوتے ہیں۔ اگر ان تمام مقدمات کو جمع کریں تو انکی تعداد کئی سو سے تجاوز کر چکی ہے، اب تک یہاں درجنوں غریب چرواہے پولیس اہلکار اور اور دیگر عام شہری اندھی گولیوں کا شکار بن چکے ہیں،جب ذہن میں گردش کرتی سوالات کے جوابات پولیس کے ذمہ داران سے دریافت کرنے کی کوشش کی تو سب سے پہلے ان کے پاس کوئی باضابطہ ڈیٹا موجود ہی نہیں تھا، پولیس ذمہ دار ایک دوسروں کا نام دیتے گئے، ایک ذمہ دار نے جب کہا کہ غذر کا ڈیٹا گلگت آفس سے لے لیں، تو میں نے انکا شکریہ ادا کیا اور فون بند کر دیا۔

Mamtazغذر کے کچھ تھانوں میں قتل اقدام قتل اور دیگر سنگین وارداتوں کے ملزمان بھی نامزد ہیں اور پرچے بھی درج ہوئے ہیں، مگر ان غبار آلود فائلوں کو بالکل ہی سائیڈ پہ لگا دیا گیا ہے۔ پولیس کی حالت زار، تعاون اور کوششیں دیکھ کر لواحقین بھی ان کیسز کی پیروی سے دوری اختیار کر چکے ہیں۔ہر سال موسم گرما میں ان نالوں سے نہ صرف سینکڑوں مال مویشی چوری ہوتی ہیں بلکہ چوری کے دوران مزاہمت پر اپنی پوری زندگی کا اثاثہ لے کر گھر سے کوسوں دور گھر کے کفیل ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سو جاتے ہیں، نالوں میں ان ڈاکوؤں اور چورروں نے ہمیشہ چن چن کر سب سے غریب اور مظلوم طبقے کو نشانہ بنایا ہے، اور ہمیشہ ان مظلوموں کی نہ صرف مال بلکہ ان جان پر بھی ہاتھ صاف کرتے رہے ہیں. ایک امیر یا متوسط طبقے کا شخص کبھی بھی نالوں میں نہیں ہوتا بلکہ پاکستان کے اچھے اور بڑے شہروں میں نوکری کر رہا ہوتا ہے. اسی لئے کہتے ہیں کہ بزدل ہمیشہ چھپ کر وار کرتا ہے اور اپنے سے ہمیشہ چھوٹے اور مظلوم کو ہی نشانہ بناتا ہے،یہ سلسلہ گزشتہ تقریبا آدھی صدی سے ہنوز جاری ہے ،واقعات رو نامہ ہو رہے، پرچے اور مقدمات بھی بن رہے، کچھ دن اخبارات میں پولیس کے گرم مگر روایتی بیانات بھی آ جاتے ہیں، اور یوں آہستہ پوری کیس کی فائل کو کھڈے لائن لگا دی جاتی ہے، اور اس فائل پہ اس کے بعد کسی بشر کا ہاتھ نہیں لگتا سوائے گرد غبار کے…

میں آج گلگت بلتستان پولیس کی نااہل اعلیٰ قیادت اورغذر کی نالائق پولیس سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر کب تک آپ یہ تماشا دیکھتے رہو گے؟؟ کب آپ عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنے کے قابل ہو جاؤ گے؟؟ کب آپ ظالم کو للکارنے، اس کو پکڑنے اور اسے سزائیں دلانے کی پوزیشن میں آجائیں گے؟؟ کب آپ اپنے ماتھے سے یہ بے غیرتی کا داغ دھو سکیں گے؟؟ کب آپ ریاست کے اندر ریاست بنانے والوں کا مقابلہ کرو گے؟؟ کیا کبھی ایسا کوئی دن بھی آئے گا جب عوام یہ کہیں گے کہ ہمیں پولیس پر اعتماد ہے؟؟ کیاعوام مزید بھی آپ پر اعتماد کریں یا پھر اپنی حفاظت خود کرنے کی کوششوں پر غور کریں؟؟

سوالات تو میرے ذہن میں کافی ابھر رہے ہیں، بس فی الحال ان سوالات پر غور کریں اور وقت ضائع کے بغیر ان سوالات کے جوابات دیں، باقی سوالات ان کے بعد ہی سامنے آینگے، جب آپ ان سوالات کے جوابات اور عوام کو مطمئن کرنے میں حسب سابق ناکام رہے تو اس سے آگے بڑھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

اور ہاں موجودہ چھشی نالے واقعے کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کر لی ہے، تواس سے پہلے کے واقعات بھی تحریک طالبان نے ہی کیے ہیں؟؟ اگر نہیں تو ان سینکڑوں درج مقدمات کے ملزمان کہاں ہیں، کس کو سزا ہوئی، کتنے سزا کاٹ رہے ہیں؟ لوگوں کے ہزاروں مال مویشیوں کا کیا بنا؟ کتنے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا؟ ایسے حالات میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جو پولیس فورس ایک چھوٹے خطے کے اندر موجود چند چوروں، قاتلوں اور ڈاکوؤں کے آگے بے بس ہے تو کل وہ تحریک طالبان جیسی طاقت کا مقابلہ کیسے کرے گی؟؟ پہلے اس بارے میں نہیں سوچا ہے تو اب تحریک طالبان غذر میں نہ صرف داخل ہو چکی ہے بلکہ یہاں کے سپاہیوں کو رسیوں سے باندھ کر اسلحہ لوٹ کر باقاعدہ یہ پیغام بھی دے چکے ہیں کہ کل وہ غذر سمیت گلگت بلتستان کے کسی حصے میں بھی پہنچ سکتے ہیں۔ جناب آئی جی گلگت بلتستان ۔۔۔آپ بھی یاد رکھیں اور اپنے تمام جوانوں کو بھی بتا دیں، کہ اگلی بار رسیوں سے باندھنے کے علاوہ یہ لوگ آپ کے سپاہیوں کو اپنے ساتھ بھی لے جا سکتے ہیں یا عالم ارواح میں بھی (خدا نخواستہ) پہنچا سکتے ہیں۔ حکومت پہلے سے ہی سوئی ہوئی ہے، سابق حکومت پر تنقیدیں کر کے عوام کے آنکھوں میں دھول جھونکنے سے جب حفیظ سرکار کو وقت ملے تو ضرور سوچئے گا کہ اپنے چوکیوں سے غائب رہنے اور اسلحہ دشمن کے حوالے کرنے والے پولیس کے جانباز سپاہیوں نے واضح طور پر ایک بار پھر بتا دیا ہے کہ وہ عوام کی جان و مال کی حفاظت میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔عوام ان حساس جگہوں پر گلگت بلتستان سکاؤٹس کی تعیناتی کا مطالبہ کرتے کرتے تھک گئے، اب ایسا لگ رہا ہے حفیظ صاحب و دیگر صاحب اقتداجب طالبان گاہکوچ اور گلگت کی بازاروں میں ہلہ بول دینگے تو تب احکامات صادر کرینگے۔

چھشی کے واقعے کے بعد سوشل میڈیا میں ہمارے بڑے سنجیدہ اور پڑھے لکھے طبقات کی آرا دیکھ کر انتہائی افسوس ہوا۔نہ جانے کیوں ہمارے لوگ ہر چھوٹے اور بڑے واقعے کو ایک دم مذہب اور مسلک کے عینک لگا کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں،غذر میں اسماعیلی اور اہلسنت مسالک صدیوں سے آباد ہیں، ان کے آپس میں خونی رشتے ہیں، ساتھ جیتے اور ساتھ مرتے رہے ہیں،گلگت شہر کے حالات سے یہاں کے عوام پہلے ہی سبق حاصل کر چکے ہیں کہ مذہب اور مسلک کے نام پر لڑائی کا انجام کچھ بھی نہیں ہے سوائے اپنی اور اپنی آئندہ کی نسلوں کی تباہی کے۔ ایسے واقعات میں انسان ایک بار شامل ہوتا ہے تو اس کی پوری زندی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بے سکون اور ہمیشہ مشکلات میں گری رہتی ہے۔میں یہ ہرگز نہیں سمجھتا کہ غذر کا کوئی بھی خاندانی، با غیرت اور باشعور شہری دوسروں کی سازشوں کا آلہ کار بنے، اور باہر سے یہاں ایسے واقعات کی نیت سے آنے والوں کا سہولت کار بنے۔میں نے ہار ہاں یہاں کے ہر خاندانی، با غیرت اور باشعور شہری خواہ وہ جس مسالک کا بھی ہو اسے ہمیشہ اس علاقے کا خیر خواہ پایا ہے، وہ ہمیشہ اس علاقے کی حفاظت، عزت، پیار محبّت کے لئے جان تک دینے کی بات کرتے ہیں، وہ غیروں کی سازشوں کو خوب سمجھتے ہیں، اسی لئے ہمیشہ پیار محبّت اور امن کی بات کرتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ قتل، اقدام قتل، چوری، ڈکیتی، جابرانہ قبضے، فساد، جھگڑے سے متاثر یہاں کے عوام نے ہی ہونا ہے. باہر کے لوگ گلگت شہر کی طرح یہاں بھی خدا نخواستہ نفرت اور فرقہ واریت کا اگر بیچ بو کر جائیں تو میرے خیال میں اس فصل کو ختم کرنا انتہائی مشکل ہوگا اور یہ فصل آئندہ نسلیں بھی کاٹتی رہیں گی۔ جذبات ہر کسی کے ہوتے ہیں مگر جوش کو ہوش پر ترجیح دیا جائے تو ہمیشہ نقصان کا ہی پیش خیمہ بنتا ہے۔

میں اپنے کم پڑھے لکھے طبقات سے پہلے پڑھے لکھے حضرات سے گزارش کرتا ہوں کہ خدارا! آپ لوگ حالات کو دیکھیں، حقیقت پسند بنیں،علاقے کی اصل روایات آداب اور حقائق کا مطالعہ کریں،یہ وقت ایک دوسروں کو نیچا دکھانے کا نہیں بلکہ مشترکہ دشمن کو سمجھنا ہے، باہر کا بندہ آ کر چھشی میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کرے گلاپور میں کرے، گاہکوچ میں کرے، ہندور میں کرے یا ایمت میں، وہ یہاں کے امن کا اور یہاں کے عوام کا مشترکہ دشمن ہے، اس وقت اس دشمن کو بھی مسلکی و مذہبی لبادے میں دیکھنا نہ صرف یہاں کے آئندہ امن کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، بلکہ اس سے یہاں سہولت کار بھی پیدا ہونگے، نفرت بھی بڑھے گی، دوریاں بھی پیدا ہونگے، اور ایک وقت ایسا جس کے بارے میں یہاں کے باسیوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا… بقول شاعر

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button