کالمز

گلگت بلتستان کایومِ آزادی

 گلگت بلتستان کا خطہ یکم نومبر ۱۹۴۷ کو مقامی لوگوں کی مسلسل جدو جہد اور قربانیوں کے نتیجے میں ڈوگرہ راج سے بطور ایک آزاد ریاست آزاد ہوا۔ اس طرح سے یکم نومبر گلگت بلتستان کے لیے یوم آزادی ہے۔ جبکہ ۱۹۴۹ میں گلگت بلتستان کے عوام اور قائدین کو کسی قسم کے اعتماد میں لیے بغیر چند کشمیری قائدین اور اس وقت کے حکومتی وزیر کے مابین طے پانے والے ایک متنازعہ معاہدہ کراچی ۲۸ اپریل اگست ۱۹۴۹ کے تحت اس خطے کو پاکستان کے ساتھ بغیر کسی شرط کے الحاق کیا گیا لیکن اس کی آئینی حیثیت کا واضح تعین نہیں کیا گیا ۔ یوں ۱۹۴۹ سے ہی گلگت بلتستان وفاق کے زیر انتظام ایک عضو معطل کی طرح پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ تاہم سات دہائیاں گزرنے کے باوجود وفاق یہاں کے لوگوں کو ان کے آئینی و سیاسی اور معاشی حقوق سے محروم رکھ کر ان پر اپنا تسلط جمایا ہوا ہے۔

پاکستان، گلگت بلتستان کے لوگوں کو ان کے سیاسی و آئینی حقوق دیتے ہوئے تو متنازع خطہ کہہ کر مکر جاتا ہے،اسے نہ خودمختار آئینی صوبہ بناتا ہے اور نہ ہی کشمیر کے طرز پر خود مختار ریاست، لیکن اسی متنازعہ خطے کے پانی، بجلی، سیاحت کے وسائل کو لوٹنے میں مصروف ہے۔ اور جب بھی الیکشن کا وقت آتا ہے تو اس کی متنازعہ حیثیت بھول کر مختلف نعروں اور جھوٹے وعدے لے کر پاکستان کی ساری سیاسی و مذہبی پارٹیاں اس علاقے میں کود پڑتی ہیں۔ لیکن الیکشن کی گرما گرمی ختم ہوتے ہی یہ علاقہ پھر متنازع قرار پاتا رہا ہے۔

پاکستان نے گزشتہ ۶۸ سالوں کے دوران اس علاقے میں تعلیمی انفراسٹرکچر کو بہتر کیا اور نہ ہی ترقیاتی منصوبے لگائے، صنعتی پراجیکٹس لگائے اور نہ ہی زرعی آبیاری کی، سیاحت اور ثقافت کے فروغ کے لیے بھی کوئی قابل ذکر کام ک نہیں یا گیا۔ ہاں یہاں کے عوام کی سادگی و شرافت کا بدستور سودا کیا جاتا رہا ہے اور وفاق کی فرمانبردای سکھائی جاتی رہی ہے۔ وفاق کی فرمانبرداری کے اس عمل میں اگر مقامی لوگوں کی کار کردگی اچھی نہ ہو تو ان کےخلاف کبھی جیلیں کام آتی ہیں اور کبھی غداری کا ہتھیار، کبھی نوکریوں سے معطلی تو کبھی سیاسی و سماجی ساکھ کا خوف۔ اسی لیے یہاں کے عوام کو صرف شناختی کارڈ ، جھنڈا، وفاق کے حق میں نعرے دے کر انہی پر گزارہ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کی صورتحال چنداں مختلف نہیں کہ غلامی کے پہلے دور میں یہاں راجے حکمران تھے اب کبھی راجے، کبھی مخدوم اور کبھی شریف لیکن کل بھی غلامی ہی پائندہ تھی اور آج بھی غلامی ہی تابندہ ہے، معاشی، صنعتی، تعلیمی، سیاسی اور آئینی حقوق سے کل بھی محروم تھے اور آج بھی۔ دیامر ہو کہ غذر، ہنزہ ہو کہ نگر، استور ہو کہ روندو، سکردو ہو کہ شگر، گنگچھے ہو کہ کھرمنگ ، یہاں کے رہنے والوں کا نہ کوئی آئین، نہ سپریم کورٹ، نہ قومی اسمبلی، نہ سینٹ، نہ صوبائی اسمبلی کیونکہ یہاں کےلوگ اکیسویں صدی کی مہذب دنیا میں کسی آئینی علاقے کے شہری نہیں ہیں بلکہ وہ ایک مبہم علاقہ گلگت بلتستان کے باسی شمار ہوتے ہیں۔

ملک کی خارجہ پالیسی ہو یا داخلہ، سلامتی کے معاملات ہوں یا اقتصادی، سیاسی ہوں یا آئینی۔ہاں خبر دار ہوشیار! سازش کی نئی اور مقامی تعریف کے مطابق علاقے کے قدرتی حسن کو چیر کر شروع کیے جانے والے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے پر گلگت بلتستان کے حقوق کی بات کرنا کسی کو” را “کے ایجنٹ بننے کی سرٹیفیکیٹ کے لیے مستند ترین ثبوت ہے۔ اور اس بڑے منصوبے سے اس علاقے کو کیا فائدہ ہونا ہے اس کا تعین بھی نہیں کیا گیا ہے۔ اسی علاقے سے پورے پاکستان کو روشن اور سیراب کرنے کے لیے دیامر بھاشا ڈیم سمیت متعدد ڈیمز بنائے جا رہے ہیں تاہم ان ترقیاتی منصوبوں میں گلگت بلتستان کے مفادات کو وفاق کے مفادات پر قربان کیا جا رہا ہے ۔ یہ وہی گلگت ہے جو اپنے دامن میں ایک طرف دنیا کی دوسری بلند چوٹی کے ٹو، دنیا کی بلند ترین برفانی گلیشیر سیاچن، دنیا کا بلند ترین ہموار میدان دیوسائی ، ہمالیہ اور قراقرم کے عظیم پہاڑی سلسلے، جھیلوں، آبشاروں، چشموں، ندیوں، دریاوؤں، جنگلات، سرسبز و شاداب میدانوں، خوبصوت وادیوں اور فلک پوش برفانی پہاڑوں، جنگلی حیات، معدنیات سمیت قدرت کا بے پناہ حسن اور سیاحت کے بے شمار مواقع سمویا ہوا ہے اور دوسری طرف ہزاروں سالوں پر مبنی تاریخ، تہذیب ، روایات، و ثقافت اور متنوع مگر پْرامن بقائے باہمی کے دلنشین آثار سے مالا مال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاحتی، ثقافتی اور تاریخی آثار اور وسائل پر بننے والی ہر ڈاکومینٹری میں گلگت بلتستان ہی کی خوبصورتی کو پیش اور کیش کی جاتی ہے۔ لیکن کےٹو ہو کہ سیاچن گلیشیر، دیوسائی ہو کہ ہمالیہ و قراقرم، دریا ئے سندھ ہو کہ جھیلیں، شاہراہ ریشم ہو کہ یہاں کے تاریخی و ثقافتی آثار ہوں ان سب بے جان مگر قدرت کی تخلیق اور قدیم تاریخ کی عظیم نشانیوں کی مروجہ قومیت پاکستانی ہے، اور تو اور یہاں کے پہاڑوں میں رہنے والے مارخور پاکستان کا قومی جانور شمار ہوتا ہے، پاکستان کے طول و عرض میں جاری امن کے قیام کی جنگ ہو یا سرحد پر لڑی جانے والی جنگ سب میں سب سے بڑھ کر قربانی دینے والے گلگت بلتستان کے جوان اگر پاکستان کی محبت میں اپنی جان گنوا کر لالک جان یا شیر خان بنیں تو وہ بھی ایسے پاکستانی ٹھہریں جنہیں سب سے بڑے پاکستانی قومی اعزاز نشان حیدر سے نوازا جائے، گلگت بلتستان کا کوئی محلہ ،وادی اور قصبہ ایسا نہیں جہاں آپ کو ایسی قبریں نہ ملیں جن پر پاکستانی جھنڈا نہ لہرا رہا ہو۔

یہ سارے جان دینے والے پاکستانی ہیروز، مطلب یہ ہو ا کہ اس علاقے سے وہی پاکستانی بن سکتا ہے جو یا تو بے جان ہو یا پاکستان کو جان ہی دیدے۔ ہاں پاکستان گلگت بلتستان کے ان زندہ ہیروز کو بھی اپنے قومی ہیروز میں شامل کر لیتے ہیں جنہوں نے عالمی سطح پر نمایاں کار کردگی کا مظاہرہ کیا ہو جیسے حسن سدپارہ سات دھائیوں سے لاتعلقی کے اظہار اور تمام تر آئینی حقوق سے محرومی کے باوجود گلگت بلتستان کے عوام پاکستان کے ساتھ پاکستان کے کسی بھی دیگر صوبے اور علاقے سے زیادہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ پاکستان کا یوم آزادی ہو یا یوم پاکستان، یوم دفاع ہو یا یوم تکبیر، پاکستان بنانے والے قائد اعظم کا دن ہو یا اس کا خواب دیکھنے والے علامہ اقبال کا، جتنا عوامی سطح پر جوش و خروش، جذبہ اور ولولہ گلگت بلتستان میں دکھائی دیتا ہے پاکستان کسی آئینی صوبے یا علاقے میں نہیں دکھائی دیتا ہے۔

گلگت بلتستان کے عوام پاکستان کے نام پر جھومتے بھی ہیں اور جان بھی دیتے ہیں، پاکستان کو اپنی عزت و آبرو بھی سمجھتے ہیں اور اپنی محبتوں کا مرکز بنا لیا ہے۔ یہاں کے عوام اپنی جرأت و بہادری، محنت و جفاکشی، امانت داری، دیانتداری،خلوص، محبت، مہمان نوازی اور احترم ، صبر و تحمل اور اعتدال پسندی کے اعتبار سے دنیا بھر میں بڑی شہرت رکھتے ہیں اور بطور پاکستانی شہری پاکستان کی ساکھ میں بہتری کا باعث بنتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام کی پاکستان کے لیے بے پناہ قربانیاں اور خدمات پاکستان سے غیر متزلزل محبت کا واضح و بیّن ثبوت ہے۔ یہاں کے عوام اپنی امن پسندی، دیانت و امانت اور اعتدال پسندی کے اعتبار سے دنیا بھر میں پاکستان کی نیک نامی کا باعث بنتے ہیں۔ پاکستان کے لیے اب بھی وقت ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے آئینی اور سیاسی حقوق کے لیے جعلی نعروں کے بجائے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کرے ورنہ جس طرح یہاں کے عوام نے اس خطے کو اپنی مدد آپ کے تحت ڈوگروں سے آزاد کرایا ہے کہیں ایسا وقت نہ آئے کہ یہاں کے عوام مجبور ہو کر پاکستان کے خلاف اٹھے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

محمد حسین

محمد حسین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ دینی تعلیم کے علاوہ ایجوکشن میں پی ایچ ڈی سکالر ہیں ، ایک ماہر نصاب کے طور پر اب تک بارہ کتابوں کی تحریر و تدوین پر کام کیا ہے۔ ایک پروفیشنل ٹرینر کی حیثیت سے پاکستان بھر میں مختلف درسگاہوں اور مراکز میں اب تک ایک ہزار سے زائد اساتذہ، مختلف مسالک و مذاہب سے وابستہ مذہبی قائدین اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکنوں کو فن تدریس، ، قیادت، امن، مکالمہ، حل تنازعات، نصاب سازی ، تعصبات اور مذہبی ہم آہنگی جیسے مختلف موضوعات پر پیشہ ورانہ تربیت دے چکے ہیں۔ ریڈیو ، ٹی وی اور ویب سائٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button